کشمیر ۔ مغربی سرحد (6)۔۔وہاراامباکر

ایسٹ انڈیا کمپنی کا عروج مغل اور فارس کی سلطنت کے زوال کے ساتھ ہوا تھا۔ برٹش کو ہمسایہ قوتوں کا خوف تھا کہ انڈین سلطنت ان سے دفاع نہ کر پائے گی۔ سب سے بڑا خوف روس سے تھا۔ اس کا راستہ شمالی اور شمال مغربی حصوں سے تھا۔ اور جموں و کشمیر کی ریاست اس علاقے میں تھی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کا عروج غیرمعمولی تھا۔ لندن میں شاہی چارٹر کے ذریعے 1600 میں قائم ہونے والی کمپنی انڈیا میں 1611 میں پہنچی تھی۔ آخری عظیم مغل حکمران کی وفات 1707 میں ہوئی اور اس کے بعد مغل زوال شروع ہوا۔ اتفاقاً، یہی وہ سال تھا جب عظیم برطانیہ (Great Britain) رسمی طور پر وجود میں آیا۔ یہ لندن میں ہونے والی ایکٹ آف یونین کی منظوری تھی جس کے نتیجے میں انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کی پارلیمان نے اتحاد کر لیا تھا۔ پرانے حریف سیاسی طور پر اکٹھے ہو کر ایک ریاست بن گئے۔ اس یونین نے فرانس کو چیلنج کرنا شروع کر دیا جو یورپ کی سب سے طاقتور قوم تھی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی انڈیا میں کامیابی کمپنی کے ملٹری ونگ کی کامیابی تھی۔ کمپنی کی باقاعدہ حکومت کا آغاز اس وقت ہوا جب مغل بادشاہ شاہ عالم نے کمپنی کو 1765 میں باقاعدہ طور پر مشرقی صوبوں بہار، بنگال اور اڑیسہ کا منتظم مقرر کر دیا۔ اس میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا حق بھی سپرد کر دیا گیا تھا۔ ایک تجارتی ادارے کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس ذمہ داری کے سپرد ہو جانے کے بعد یہ تاجروں کی کمپنی نہیں رہی بلکہ ایک طاقتور سیاسی فورس بن گئی۔
کبھی عسکری فتح سے، کبھی سیاسی چالبازی سے، کبھی اتحاد بنا کر، اس خطے میں (فرانس سمیت) اپنے طاقتور حریفوں کو مات دینے کے بعد 1804 میں یہ برِصغیر کی سب سے بڑی طاقت بن گئی تھی۔ کلکتہ میں دارالحکومت بنا۔ ایشیا، آسٹریلیا اور افریقہ میں کالونیوں میں توسیع کو منظم رکھنے کے لئے یہ اچھا شہر تھا۔
جب سکھوں کو 1849 میں دوسری شکست دی گئی تو انڈیا پر کمپنی کا ملٹری اور سیاسی قبضہ بڑی حد مکمل ہو گیا۔ صرف چند چھوٹی پرتگالی یا فرنچ پاکٹس کو چھوڑ کر پہلی بار ایک طاقت کا پورے برِصغیر پر قبضہ ہوا تھا اور یہ ایک سیاسی یونٹ بنا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک گودام سے صوبے اور صوبے سے سلطنت تک توسیع ہو چکی تھی۔
لیکن یہ کافی نہیں تھا۔ برقرار رکھنا حاصل کر لینے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ اس پرکشش سلطنت کا دفاع بھی تو کیا جانا تھا۔ سکھوں کو شکست دینے کے بعد برٹش نے ریاستِ جموں و کشمیر تخلیق کی۔ اس پر براہِ راست حکومت بھی کی جا سکتی تھی لیکن برٹش نے اس کو راجہ گلاب سنگھ کو دے دینے کا فیصلہ کیا۔ اور اس فیصلے کا ایک تاریخی اور سٹریٹجی کا پس منظر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برٹش انڈین آرمی 1839 میں افغانستان داخل ہوئی تھی۔ اس کا ایک مقصد توسیع پسند روسی سلطنت کو دور رکھنا تھا۔ روس (اور بعد میں سوویت یونین) اور برٹش کا یہ کھیل اس وقت تک جاری رہا جب تک برٹش کا قبضہ رہا۔ افغانستان ان سپرپاورز کے درمیان بفر سٹیٹ تھا۔ تجارت اور منافع میں اضافے کیلئے ایسٹ انڈیا کمپنی کی “فارورڈ پالیسی” تھی یعنی سرحد کا دفاع جارحیت سے کیا جائے۔ افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد برٹش دارالحکومت کلکتہ سے بہت دور تھی اور اس کا برٹش انڈیا سے تعلق نہیں تھا۔ پنجاب کے طاقتور حکمران رنجیت سنگھ کی جون 1839 میں وفات کے بعد برٹش نے یہاں پہنچنے کا موقع دیکھا۔ خطرہ نہ صرف روس سے تھا بلکہ یہ بھی کہ کہیں کوئی اور یورپی طاقت اس سمت سے آ کر قدم نہ جما لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برٹش کو افغانستان کے بارے میں بہت کم معلومات تھی۔ یہ بھی نہیں کہ اس کی سرحد کہاں پر ہے۔ البتہ یہ معلوم تھا کہ تاریخی طور پر برِصغیر پر حملہ آور افواج یہاں سے آتی رہی ہیں۔ (صرف آٹھویں صدی میں عرب اور بعد میں یورپی سمندر کے راستے سے حملہ آور ہوئے تھے)۔ کچھ حملے افغانستان کے دروں سے ہوتے تھے۔ اور اس کے دو راستے تھے۔ شمال میں کابل سے تیس میل لمبے خیبر پاس کے ذریعے۔ اور دوسرا جنوب میں قندھار سے خوجک اور اسی میل لمبے بولان پاس کے ذریعے۔ محمود غزنوی، تیمور لنگ، بابر زیادہ مشہور حملہ آور تھے۔ مغل اور موریا سمیت دوسرے انڈین حکمران بھی ان دروں کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیا پر حملہ آور ہو کر قبضہ کر چکے تھے۔ اس کے علاوہ دوسرے راستے بھی تھے۔ ایک راستہ جموں و کشمیر کے قریب شمالی راستہ تھا جس کو سکندرِ اعظم نے استعمال کیا۔
اگرچہ برٹش علاقے سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے تھے لیکن یہ معلوم تھا کہ شمال اور مغرب سے ہونے والے اکیس حملوں میں سے اٹھارہ کامیاب رہے تھے۔ توسیع پسند روسی سلطنت سے خوف کی وجہ یہ تاریخ تھی جو اس علاقے میں برٹش پالیسی کی بنیاد رہی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments