نوروز -تاریخ کے جھروکوں سے۔۔غلام حیدر وائیں

دنیا کے مختلف ممالک نے اپنے اپنے کلینڈر بنا رکھے  ہیں۔ کوئی سورج  کے  حساب سے بناتے ہیں، تو کوئی چاند کے حساب سے۔بعض ممالک کے لوگ یکم جنوری کو سال کا پہلا دن سمجھتے ہیں ، بعض لوگ یکم محرم الحرام کو سال کا پہلا دن  مناتے ہیں۔لیکن سال کا پہلا دن انسانوں سے نہیں بلکہ کائنات کے  پہلے لمحے سے شروع ہوتا ہے، اور تبھی سے یہ کائنات ،یہ عالم یہ کہکشاں وجود میں آئے تو اس لمحے کو کائنات کا آغاز سمجھا جاتا ہے، اور سال کا پہلا دن بھی۔ وہ لمحہ ہر سال گھوم کے اکیس مارچ کو آتا ہے ۔اس لئے علم نجوم  نے اس دن کو برج حمل کا جنم دن قرار دیا ہے۔ جب زمین سورج کے گرد گھوم کے برج حمل میں داخل ہوتی ہے تو نیا سال کا آغاز ہوتا ہے اسے فارسی زبان میں “نوروز “کہتےہیں۔

نوروز منانے کی کچھ وجوہات درج ذیل ہیں۔
نوروز ہی کے دن آفتاب کی کرن زمین پر پڑی۔خالق کائنات نے اپنے بندوں سے اپنی عبادت اور آخری نبی کی اطاعت کرنے حکم دیا۔اسی دن سبزہ اور اناج اُگنا شروع ہوا ۔آج ہی کے  دن ہواؤں کو تخلیق کیا گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اُتارا گیا اور آپ کی توبہ اسی دن قبول ہوئی۔پہلی مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے  تھے۔۔اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ جودی پر جا ٹھہری اور طوفان رُک گیا۔آج ہی کے دن حضرت محمدﷺ  کو معراج کا شرف بخشا گیا۔اسی  دن اللہ کے نبی ﷺ   نے من کنت مولا  فہذا علی مولا  ارشاد فرمایا تھا۔ آج ہی کے دن حضرتِ علی علیہ السلام کو خوارج پر فتح حاصل ہوئی ۔امام مہدی  کا بھی   ظہور بھی اسی دن  ہوگا۔ نوروز شمسی کیلنڈر کے حساب سے ہرسال اکیس مارچ کو مناتے ہیں۔نوروز منانے کی  ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شمالی نصف کرّہ میں موسم ِ بہار مارچ سے شروع ہوتا ہے۔لوگ شدید سردیوں  کی وجہ سے گھروں میں بند ہوتے  ہیں ۔ پھر موسم معتدل ہونے پر باہر آتے ہیں ۔

جشن نوروز آج سے ہزاروں سال قبل ایران سے  شروع  ہوا۔اگرچہ اس تہوار کے متعلق محققین کی مختلف  آراء  پائی جاتی ہیں۔نامور ایرانی اسکالر ڈاکٹر علی شریعتی کا کہنا ہے کہ نوروز، کائنات کے جشن، زمین کی خوشی،سورج اور آسمان کی تخلیق کا دن ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایران میں زرتشت مذہب کو پھیلانے کیلئے اس تہوار کو سہارا بنایا، اس مقصد کے حصول کیلے اس کو مذہبی تہوار کا نام دیا گیا۔ اس سے  وجہ سے آج تک یہ ایرانیوں کا تہوار سمجھا جاتا ہے۔بہرحال اب یہ تہوار بین الاقوامی شہرت اختیار کر چکا ہے۔اب نوروز فقط ایران تک محدود نہیں ہے۔
عراق میں ہر سال  بیشتر علاقوں خاص طور پر کُرد آبادی والے علاقوں میں نوروز کا جشن خاص اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
افغانستان میں نوروز مناتے ہیں ،اس دن کی تقریبات کے آغاز کا سرکاری اعلان مزار شریف سے کیا جاتا ہے۔

ہندوستان میں مغلوں کے دور میں یہ تہوار سرکاری سطح پر منایا جاتا تھا۔چونکہ ایران کے مسلمان بادشاہ اپنی روایات کو بطور ورثہ اپنے ساتھ ہندوستان لائے اس لئے مسلمان بادشاہوں کے دربار میں نوروز بڑی شان وشوکت کے ساتھ منایا جاتا تھا۔پاکستان اور ہندوستان میں بہار کی آمد پر جشن منایا جاتا ہے کہ جس کو بسنت میلہ یا جشن بہاراں کے نام سے جانا جاتا ہے۔

وسطی ایشیائی ممالک میں بھی نوروز کو باقاعدہ تہوار کی طرح   منایا جاتا ہے۔
ایران، پاکستان،افغانستان،ہندوستان،ازبکستان،البانیہ،آزربا ئیجان،تاجکستان،قزاقستان،عراق ان ممالک میں بھی  نوروز اہتمام سے منایا جاتا ہے۔اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔

21 مارچ کو بلتستان کے چاروں اضلاع میں بھی جشن عید نوروز عقیدت و احترام اور روایتی جوش و جذبے کیساتھ منایا جاتاہے۔ بلتستان میں اس دن کو مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔اس سلسلے میں سرکاری سطح پر عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے جبکہ مرد و خواتین اور بچے عید نوروز کو شایان شان طریقے کیساتھ منانے کیلئے بازاروں سے خرید و فروخت میں مصروف  آتے  ہیں۔

بعض علاقوں میں یہ رواج بھی ہے کہ شادی یا نکاح کے پہلے سال دلہن کی طرف سے لگ بھگ سو انڈے، آدھ کلو دیسی مکھن کے ساتھ ازوق یا چپاتی نکاح کی صورت میں ماں جبکہ شادی شدہ ہونے کی صورت  میں دلہن خود صبح سویرے لے کے جاتی ہے اور دلہا والوں کی طرف سے ایک جوڑا کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔اس دن  گھروں میں دسترخوان بچھا رہتا  ہے جس پر مبارک بادی کیلئے آنے والے مہمانوں اور رشتہ داروں کو انڈے بطور تبرک پیش کیے  جاتے ہیں ، جبکہ ان کی تواضع نمکین چائے،ازوق، زدیر چونگ اور کلچہ سے کی جاتی ہے۔اس تہوار کے موقع پر دعوت طعام “نوروز سکل” میں رشتہ داروں بالخصوص بیٹیوں، دامادوں صلہ ارحام کے اعزاز میں خصوصی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اس طرح دعوتوں کا سلسلہ کم وبیش ایک ہفتہ تک جاری رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

واضح رہے کہ نوروز کا تعلق کسی خاص فرقے ،مذہب یا قوم،قبیلے سے نہیں بلکہ یہ عالمی دن میں تبدیل اور  اقوام متحدہ کے ثقافتی ورثہ میں شامل ہوگیا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply