پادشہان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔۔محمد علی عباس

پچھلے ہفتے چوآ سیدن شاہ کے گاٶں وہوُلہ جانا ہوا- برادرم عثمان تنویر نے اپنی شادی کی دعوت اتنے پرخلوُص انداز میں دی جسے میں ٹال نہ سکا۔ پھر دل میں ایک اور خواہش بھی تھی کہ کچھ ایسے گواچے دوست بھی مل جاٸیں گے جن سے ملے ہوئے گیارہ برس ہو گۓ تھے۔ برادرم حسن عباس سے ملاقات اکثر ہوتی رہتی ہے۔ حافظ ثاقب جو اب کیپٹن ہیں تب ہمارے سینٸر تھے جب ہم فضاٸیہ کالج کلر کہار میں طالب علم تھے۔وہاں پڑھنا کیا تھا بس دوستیاں ہی بناٸیں۔ علیم، حسن عباس، حافظ ثاقب، غلام نبی اور ضیإ اللہ جیسے برادران اسی کالج کی دین ہیں۔ حسن عباس اور علیم سے اب گہری دوستی ہے۔باقی احباب سے بھی یارانہ تو ہے لیکن ملاقات گاہے بگاہے ہی ہو پاتی ہے۔

وہوُلہ پہلی بار جانا ہوا۔ وہولہ کے جن لوگوں سے بھی تعلق ہے بڑا گہرا ہے۔ محبت کرنے والے یہاں کے لوگ جذبوں میں بڑے خالص پاۓ ہیں۔ ان لوگوں کی صحت جواب دے چُکی ہے۔ کلر کہار سے وہوُلہ جاتے ہوۓ میں پہاڑوں کو بڑے غور سے دیکھتا رہا۔جہاں اب سیمنٹ فیکٹریوں کے دیو ہیکل پلانٹس ہیں، کبھی وہاں بھی پہاڑ ہوا کرتے تھے۔ پھر مشرف دور میں چکوال کے اس علاقےکو ”ترقی“ کی راہ پر گامزن کرنے کے لٸیے یہاں سیمنٹ فیکٹریاں لگاٸی گٸیں۔ اس وقت کے ضلع چکوال کے با اثر سیاستدانوں نے خوشحالی کے وہ سبز باغ دکھاۓ کہ مقامی افراد نے اپنی زمینیں سرمایہ کاروں کو دے دیں۔ پھر کیا ہوا کہ بہتی گنگا میں معززین نے نہ صرف ہاتھ دھوۓ بلکہ نہاۓ اور اب بھی اپنے عزیز و اقارب کے نام پہ ٹھیکوں سے مال بنا رہے ہیں۔ کسی کے پاس پیکنگ کا ٹھیکا ہے تو کسی کی گاڑیاں لگی ہوٸی ہیں۔ مقامی افراد کو کیا ملا؟ زیر زمین پانی کے ذخاٸر کو شدید نقصان پہنچا۔ یہاں کے مقامی لوگوں کو ترقی کے لالی پاپ کے بدلے میں بیماریاں ہی ملیں۔ بیٹھے بیٹھے کرونا پہ بات ہوٸی تو برادرم فرخ کہنے لگا کہ یہاں کے لوگوں کا کرونا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ پہلے ہی ان کے اندر اتنے جراثیم جا چکے ہیں کہ مزید کسی شے کی گنجاٸش باقی نہیں رہی۔ بات ان کی مذاق میں ٹالنے والی نہیں تھی۔ جن علاقوں میں سیمنٹ فیکٹریاں لگاٸی گٸی ہیں وہاں کے لوگوں کو سانس کی بیماریاں ہو رہی ہیں۔ سانس لینے کو صاف ہوا اور پانی پینے کو نہیں مل رہا تو ایسی ترقی کا اچار ڈالنا ہے؟ اُلٹا علاقے کا قدرتی حُسن تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ کٹاس راج کاتاریخی تالاب خشک ہو کر اپنی وقعت کھو رہا ہے۔ واپسی پر عزیزم عبداللہ خان کہنے لگا کہ یہ علاقہ سوات سے مشابہت رکھتا ہے۔ میں اس کی باتوں کا جواب تک نہ دے پا رہا تھا۔ گیارہ سال بعد فضاٸیہ کالج کے سب دوستوں کو دیکھنے کی خوشی بھی ہوا ہو چُکی تھی۔ ایسی شدید ذہنی کوفت تھی کہ ہر چیز بُری لگ رہی تھی۔ جب تک ہم کلر کہار سے نکل نہ آۓ مزاج ایسے ہی رہا۔ ہھر بھون رکنا تھا جس سے موُڈ اپنی جگہ پہ آ گیا۔ بھون سے ایک عجیب رومانس ہے بلکل ایسے ہی جیسے سرپاک کی گلیوں سے ہے۔ چکوال سے بھون روڈ پہ نکلیں تو کیا حسین نظارہ ہوتا ہے کہ جیسے سڑک کے اطراف لگے درخت باہیں پھیلا کر آپ کو خوش آمدید کہہ رہے ہوں۔ اب اگر کل ترقی کے نام پر آکسیجن فراہم کرنے والے ان درختوں کو ہی کاٹ دیا جاۓ گا تو ایسی ترقی کس کام کی، جس میں آدمی سانس بھی نہ لے سکے۔
اب کل سے ایک شدید ذہنی کوفت میں پھر سے مُبتلا ہوں۔ جب سے خبر پڑھی ہے کہ چاٸنیز کمپنیاں سندھ کے علاقے ٹھٹھہ اور چکوال سے ہمارے گاٶں پادشہان میں اربوں روپئے کی سرمایہ کاری کرنے جا رہیں ہیں تب سے نہ جانے کیا کیا ہولناک مناظر آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے ہیں۔ ہمارا علاقہ قدرتی حُسن سے مالا مال ہے۔ زمین زرخیز ہے اور فصل بھی اچھی ہوتی ہے۔ پچھلے برس کرونا کی لہر سے جب ملک بھر میں لاک ڈاٶن لگا تو یار لوگوں کو موقع مل گیا کہ اپنے علاقے کو ایکسپلور کیا جاۓ۔ پاس ہی ہمارے مہربان دوست اور بڑے بھاٸی علی خان صاحب کا گاٶں ہے تو ہم آۓ روز اکٹھے ہوتے اور دوُر جنگل بیلوں میں نکل جاتے۔ خالق کی ایسی تخلیقات دیکھنے کو ملیں جو اپنے علاقے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ چشمے، برساتی نالے، ڈیم، چراگاہیں اور بیلے گھوم پھر کر دیکھنے میں جو مزہ ہے شاید وہ اور کہیں نہیں بیلوں میں موباٸل سگنلز نہیں ہوتے تو دنیا و مافیہا کی پریشانیوں سے کوسوں دور ایسا سکون قسمت والوں کو ہی میسر آتا ہے۔ پچھلے سال ہی ہمارے گاٶں ڈورے اور پادشہان کے درمیان ایک سٹیل مل لگنا شروع ہوٸی۔ دیکھتے ہی میں نے برادرم علی خان سے افسوس کیا کہ اب شفاف فضإ میں سانس لینا ہمارے لئیے شاید ممکن نہ رہے۔ یہ جو کبھی کبھار ہم واک کرتے ہیں اب اس میں وہ مزہ نہیں رہے گا جو پہلے تھا۔

ایک سٹیل مل کو رونا اب ہمارے لٸیے کوٸی بڑی بات نہیں رہی۔ کل جب سے یہ خبر واٸرل ہوٸی کہ اربوں روپۓ کی سرمایہ کاری ہمارے گاٶں میں کی جا رہی ہے تب سے کچھ لوگ اسے خوش کُن قرار دے رہے ہیں جبکہ جو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ترقی کا لولی پاپ دے کے ہم سے سب کچھ چھین لیا جاۓ گا۔

جب دارالخلافہ کراچی سے پنڈی کے مضافات میں منتقل ہوا تھا تو مارگلہ کی پہاڑیوں میں صدیوں سے آباد دیہاتوں کو خالی کرا دیا گیا تھا۔ مقامی لوگوں کو جنوبی پنجاب کے دوُر دراز علاقوں میں ذمینوں کا لالچ دے کر ان کو ان کے دیس سے بے گھر کر دیا گیا تھا۔ اس وقت جو دور اندیش تھے انہوں نے خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ باہر سے آنے والوں نے اس وقت اونے پونے میں زمینیں خریدیں اور پھر راتوں رات مالدار بن گۓ۔ کلرکہار سے چوآ سیدن شاہ تک کے علاقوں میں بھی باہر سے آنے والے شاطر سرمایہ داروں نے ایسا ہی کیا اور اب مقامی افراد کے سینے پہ مونگ دل رہے ہیں۔ سلام ہے بوچھال کے لوگوں کو جنہوں نے اپنے علاقے میں سیمنٹ فیکٹریوں کی شدید مخالفت کر کے اس نام نہاد ترقی کو روکا۔

ہمارے علاقے کے لوگ بھی خوشیاں منا رہے ہیں کہ زمین کی قیمتیں بڑھیں گی اور ملازمتوں کی مواقع ملیں گے۔ ہمارے علاقے میں بیرونی سرمایہ کاروں نے زمینیں کافی عرصہ سے خریدنا شروع کر دی ہیں۔ یہ لوگ یہاں اپنے فارم ہاٶسز بنا رہے ہیں جن کے قریب سے کسی کو گزرنے کی بھی اجازت نہیں۔ ہمارے ساتھ ایسا ہوا کہ برادرم علی خان کے ساتھ میں، عقیل باوا اور نوجوان شاعر فیضان فیضی ڈورے ڈیم تک جانا چاہتے تھے کہ ایک فارم ہاٶس کے گارڈ نے روک دیا کہ آگے فیملی ہے۔ ہم نے راہ بدل لی کہ کسی کی پرایویسی میں مُخل ہونا مناسب نہ تھا۔ برارم عقیل باوا نے بتایا کہ مقامی لوگوں نے اس وقت پیسے کی لالچ میں ذمینیں بیچیں تو راستے تک ان بیرونی سرمایہ داروں کو بیچ دٸیے۔ اب لوگ اپنی زمینوں تک جانے کے لٸیے دور سے چکر کاٹ کرجاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیرونی حملہ آوروں کی طرح یہ سرمایہ دار یہاں کے مقامی معززین کو مناسب پیکج پر اپنے ساتھ ملاٸیں گے، پھر وہ مقامی معززین ترقی کا لالی پاپ گاٶں کے لوگوں کو دے کر اپنا حصہ کھرا کریں گے۔ اس سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیاں ابھی سے آنکھوں کے ہسپتال کا لالچ دے رہی ہیں۔ مطلب یہ بات طے شدہ ہے کہ لوگوں کی آنکھیں متاثر ہوکر ہی رہیں گی۔ لوگ اس بات پہ خوش ہوں گے مفت معاٸنہ کرا رہے ہیں مفت آپریشن بھی ہو رہا ہے۔ سرمایہ داری کے نام پہ سب سے پہلے تو ذمینیں اونے پونے داموں خریدی جاٸیں گی۔ جب بیرونی سرمایہ کار زمینیں خرید لیں گے تو ہمارے راستے بند ہوں گے۔ پھر ترقی کا لالی پاپ دے کر یہاں دیو ہیکل پلانٹس لگاۓ جاٸیں گے۔ پہلے پہل مقامی لوگوں کو کانٹریکٹ پر ملازمتیں ملیں گی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو فارغ کر کے چاٸنہ اپنے باشندوس کو یہاں لا کر مازمتیں دے گا۔ خدا نہ کرے مگر لوگوں کو نہ جانے کیسی کیسی بیماریاں ان فیکٹریوں سے اٹھتے دھوٸیں کی وجہ سے لگیں گی۔ نوکریاں بھی باہر کے افراد کو دی جاٸیں گی جیسے سیمنٹ فیکٹریوں میں کیا گیا۔ باہر سے لوگ آ کر یہاں ہر چیز پر قابض ہو جاٸیں گے جیسے ہر جگہ ہو رہا ہے بلکل ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اللہ نہ کرے کہ ہم اپنے ہی گھر میں پردیسیوں کی طرح رہ رہے ہوں گے۔ پادشہان کبھی علاقے بھر کا تجارتی مرکز تھا پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ سرگرمیاں ماند پڑ گٸیں۔ اب ڈھڈیال یا چکوال جانا ہو تو بس تھوڑا ہی فاصلہ ہے۔ سڑکیں ایسی بن گٸی ہیں کہ راولپنڈی بھی اب دور نہیں رہا۔ہر سہولت موجود ہے۔ تو اور کیا چاہٸیے؟ اس ترقی کے نام پر اب آنے والی نسلوں کی سانسوں تک کا سودا ہر گز قابلِ قبول نہیں۔ ہمارا ملک زرعی ہے تو یہاں زراعت کو ہی فروغ دیا جاۓ تو بہتر ہے۔ ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ خدا را اپنے وقتی فاٸدے کے لٸیے آنے والی نسلوں کا مستقبل تباہ نہ کریں۔ ولیوں، ادیبوں، شاعروں، سپاہیوں، شہیدوں اور غازیوں کی اس سرزمین پادشہان کو اگر کچھ دینا ہی ہے تو تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر بہتر بنا دیں ترقی خود بخود ہو جاۓ گی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply