کارپوریٹ مفادات اور حب الوطنی ۔۔ اظہر سید

مقبوضہ کشمیر کارپوریٹ مفادات کا مرکز تھا قسمت نے یاوری کی افغان جنگ شروع ہو گئی ۔ پہلے سوویت یونین نے حملہ کیا تو سفید ہاتھی کا خوف دلا کر پوری دنیا سے ڈالر بٹورے ،
امریکیوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو” چوپڑی اور دو دو “۔۔لچھمی کے بھاگ کھل گئے ۔کشمیر اور افغانستان کی کوکھ سے جنم لینے والے کارپوریٹ مفادات نے ملک کے بڑے شہروں میں ڈی ایچ اے کی فصل بو دی ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ ،کینیڈا اور دیگر مغربی ملکوں میں بچوں کو سیٹ کرنے کا رجحان شروع ہو گیا ۔
جس عفریت نے ایک ڈسپلنڈ اور پروفیشنل فوج کے تصور کو ہڑپ کیا وہ سیاست میں مداخلت تھی ۔خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی ملکیت پر مستحکم اور مضبوط گرفت سے ہی کارپوریٹ مفادات کا تحفظ ممکن تھا سو ریاستی امور پر گرفت مستحکم رکھنے کی سوچ نے آزاد میڈیا اور عدلیہ کو برباد کر دیا اور ریاست کمزور ہو گئی ۔

آج جو فصل بوئی تھی کاٹنے کا وقت ہے ۔معاشی تباہی نے حب الوطنی کے پہاڑوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان بنا دیا ہے ۔ ہر سچا پاکستانی سوچنے لگا ہے کہ کیا ملک اہم ہے یا کارپوریٹ مفادات ریاست سے بڑھ کر ہیں ۔
ٹینکوں اور توپوں سے اگر ریاستیں محفوظ رہتیں تو سوویت یونین ایسی سپر پاور تحلیل نہ ہوتی ۔معاشی بحران سوویت یونین کو کھا گیا آپ کیا بیچتے ہیں ۔پاکستان کی بقا خطرہ میں ہے ۔ضد اور انا قومی یکجہتی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔

“اپنا گھر ٹھیک کرنے”کی بات بظاہر بہت خوش کُن ہے لیکن حیف اسکی حیثیت چارہ گرہ کپڑے سے بھی زیادہ نہیں جسکی قسمت میں عاشق کا گریبان ہونا ہوتا ہے ۔اپنا گھر ٹھیک کرنے کی نیت ہوتی تو مولانا فضل الرحمن کے خلاف مولوی شیرانی کو لانچ نہ کرتے ۔ آصف علی زرداری کو جھانسا نہ دیتے اور ڈیل کیلئے فریال تالپور اور زرداری کے خلاف مقدمات سرد خانے میں نہ ڈالتے ۔سچے ہوتے تو مریم نواز کو نیب کے نوٹس اس وقت جاری نہ ہوتے جب لانگ مارچ کی تاریخوں پر کوئی معاملہ چل رہا ہو ۔

ملک کی سب سے بڑی عدالت کا جج قاضی فائز عیسی اپنی اہلیہ کے ساتھ عدالتوں میں رسوا نہ ہوتا ۔ففتھ جنریشن وار کے نام پر ملک کے نوجوانوں کو جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ کے  ذریعے عام عوام کو گمراہ کرنے کا کام نہ سونپتے ۔

فٹ پرنٹ ہر جگہ نظر آ رہے ہیں ۔اعلیٰ  عدلیہ میں ،میڈیا میں اور سیاستدانوں کے خلاف مودی کا یار کا ٹرینڈ چلانے اور انہیں غدار مشہور کرنے ہر چیز کے پیچھے سیاہ سایہ نظر آتا ہے جو نہ کڑی دھوپ کا ہے نہ جھٹپٹی شام ‘ کا یہ سایہ کارپوریٹ مفادات کا سایہ ہے جو ہر تباہ ہوتے معاشرہ پر مسلط ہوتا ہے جب وہ تباہ ہو رہا ہو ۔
مہذب اور روشن خیال ترقی یافتہ معاشرہ بننا ہے تو پیچھے ہٹ جائیں اور اپنے پروفیشنل معاملات تک محدود ہو جائیں شائد چاروں صوبوں کی نوجوان نسل اس ملک کو بچا لے اور وفاق کا لرزتا ڈھانچہ پھر سے مستحکم ہو جائے ۔

کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نوجوان بلوچ طالبعلم بندوق اٹھا رہے ہیں اور ہر روز قتل ہو رہے ہیں ۔سیکورٹی اداروں کے جواں رعنا بھی مر رہے ہیں ۔جن کارپوریٹ مفادات نے ریاست کو کمزور کیا انہیں چھوڑنے کا وقت آن پہنچا ہے ۔
جو کچھ بلوچستان میں ہو رہا ہے پنجاب میں ہو تو یہاں بھی نوجوان بندوق اٹھا لیں گے ۔
جس طرح چالیس سالہ افغان پالیسی نے قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختوانخواہ کو دہشت کی بھٹی میں بھنا ہے پنجاب میں ہوتا یہاں بھی کوئی پنجاب تحفظ موومنٹ بن جاتی ۔ان حکمت عملیوں اور پالیسیوں پر چار حرف بھیج کر واپس بیرکس میں چلے جائیں ۔سیاستدانوں کو چور ڈاکو مشہور کر کے چار بار مارشل لا لگا دیا اب ممکن نہیں اور یہ دیوار پر لکھا صاف نظر آ رہا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

آئین اور قانون پر عملدرامد میں ہی ملک کی بقا اور سلامتی ہے ۔معاشی استحکام ہی ریاست کو بچا سکتا ہے ۔آزاد عدلیہ اور میڈیا کی موجودگی ہی ریاست پر عوامی اعتماد بحال کر سکتی ہے ۔دنیا کی کس جمہوریت میں خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی ملکیت حکومت کی بجائے کسی ادارے کے پاس ہوتی ہے ؟
حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ آصف علی زرداری ایسا کایاں سیاستدان بھی عوامی کٹہرے میں آن کھڑا ہوا ہے ۔جو ریسکیو کرنے کی کوشش کرے گا وہ عوامی غصے اور نفرت کا نشانہ بن جائے گا ۔ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply