شاوا اوئے۔۔۔۔
لڑکی کو اپنے جیون ساتھی کے چناؤ کا مکمل اختیار تو اسلام دیتا ہی ہے۔۔۔
نزلہ صرف اس لیے گر رہا ہے کہ وچولوں اور ملا، نکاح خواہوں کا کاروبار کہیں ٹھپ نہ ہو جائے۔ سماج کی چڑھی گڈی کی ڈور اور ماں باپ، بھائیوں اور چاچے ماموں کی ناک نہ کٹ جائے۔
اس ناک کو اونچا رکھنے کے لیے بے جوڑ شادیاں ہمارے معاشرے میں عام ہیں۔ کہیں ساٹھ سالہ مذہبی لیڈر چودہ برس کی نا بالغ بچی سے رشتہ ازواج استوار فرما رہے ہیں تو کہیں صرف اپنی برادری رشتہ داروں سے نبھانے کے لیے شہر کی پڑھی لکھی بچی کو ان پڑھ کزن سے زبردستی بیاہ دیا جاتا ہے۔
ان دو بہادر بچوں نے اپنی من مانی کر کے نئ مثال قائم کی ہے۔
میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا ملاں قاضی۔
خدا کرے اس طرح سادگی و باہمی رضامندی سے نکاح و شادی کرنے کی رسم گلی کوچوں میں وبا کی طرح پھیل جائے اور بے جوڑ شادی بیاہ، جہیز، بری، گنڈھیں، منگنی، مائیوں، مہندی، جاگے، ولیمہ وغیرہ وغیرہ کے دھوم دھڑکے ختم ہو جائیں۔
امیر و غریب، ہر شخصے ناکسے کی بیٹی اپنی پسند اور خوشی سے اپنا جیون ساتھی چن سکے۔
یاد رہے کہ جو لڑکی اپنا من پسند ساتھی چنے گی وہ اس رشتے کو نبھانے کے لیے تن من دھن کی بازی بھی لگا دے گی۔
اگر دو ایسے عاقل اور بالغ لوگوں کے دل اگر مل جائیں جو اپنا برا بھلا سمجھتے ہوں تو باہمی رضامندی سے جو کچھ اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہوں، انھیں اس کی مکمل آزادی حاصل ہونا چاہیے۔ یہ ہماری بالکل پرسنل رائے ہے جو کہ ہم کسی پر ہرگز نہیں ٹھونسنا چاہتے۔ یاد رہے کہ ہم اور ہماری جیسی کھلی سوچ رکھنے والے فرقہ اداسیہ کے پیروکار لوگ اس دنیا کے باسی سرے سے ہیں ہی نہیں لہذا ہماری باتوں کو مجزوب کی بڑ سمجھ کر معاف کر دیا جائے۔ ہم خوش ہمارا خدا خوش۔۔۔۔
ہندو مزہب میں دو لوگ اپنی باہمی مرضی سے بنا کسی گواہ کے صرف بھگوان کو شاکشت مان کر بیاہ رچا سکتے ہیں۔ ایسا بیاہ گندھروا بیاہ کہلاتا ہے اور ان کے ہاں مستعمل بارہ مختلف قسم کے بیاہ میں سے سب سے اُتم مانا جاتا ہے۔
ہم وہ دن ڈھونڈتے ہیں جب انسانیت کسی بھی انسان کے کسی بھی من چاہے دوسرے انسان سے کسی قسم کے تعلق پر بھی انگشت بدنداں ہو کر ناک منہ نہیں چڑائے گی۔ انسانی آزادی کا وہ دن قریب آ رہا ہے کیونکہ جوں جوں فکری آزادی پنپ رہی ہے توں توں دقیانوسی مذاہب کے بنائے فرسودہ نظام کی پرتیں ادھڑتی جا رہی ہیں۔ اس پھٹی اوڑھنی سے اصلی محبت کا خوبصورت درخشاں چہرہ نکل کر اپنی انوکھی چھب اور بہارہں دکھلانے کو بے تاب ہے۔
محبت کرنے والوں کے دل کا قانون کسی کاغذی معاہدے کا محتاج نہیں ہوتا۔ صرف دل کا پوتر پن ضروری ہے۔ دنیا میں بے شمار لوگ باہمی الفت سے بنا کاغدی یا قانونی کاروائی کے اکٹھے اپنی عمریں گزار دیتے ہیں۔ امرتا پریتم اور امروز ایسے جادوانہ تعلق کی درخشاں مثال ہیں۔
پرندے اپنی مرضی سے اپنا ساتھی چنتے ہیں، جہاں دل چاہے مل کر اپنا اکٹھا گھونسلہ بھی بنا لیتے ہیں، صرف انسانوں پر ہی غیر فطری پابندیاں اخر کیوں ہیں جبکہ فطرت نے ہمیں مدر پدر آزاد اور برہنہ جنم دیا۔؟ اگر فطرت کو ہمیں سات پردوں میں مستور رکھنا ہی منظور تھا تو کن کہہ کر ساری کائنات بنا دینے والے کے لیے ہمیں مستور پیدا کرنا کہاں مشکل تھا۔
یہ پوسٹ نکاح یا شادی کے خلاف ہرگز نہیں ہے، صرف خواتین کو ان کے اپنے جیون ساتھی کے چناو میں مکمل آزادی دینے کے حق میں ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں