شادی سے پہلے فیملی کونسلنگ۔۔مہرساجدشاد

کچھ سال پہلے جب سماجی بہبود کے کام کرتے ہوئے ہمارے سامنے سماجی رویوں کے اصلاح طلب معاملات آنے لگے خصوصاً ازدواجی زندگی میں درپیش مسائل اور جھگڑے تواتر سے اصلاح احوال کیلئے ہم تک پہنچنے لگے تو ابتدا میں والدین کے تجربہ کی روشنی میں مصالحتی اور مفاحمتی کردار ادا کیا لیکن ایک موقع ایسا آیا جب ایک جوڑا شادی کے پہلے ہفتے ہی طلاق کے فیصلے  پر پہنچ گیا تو اس معاملہ کو روکنے مصالحت اور پھر ہم آہنگی پیدا کرنے کے مراحل میں ہماری زوجہ محترمہ اور ہم نے کئی نتائج اخذ کئے۔ سب سے اہم بات یہ قرار پائی کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی شادی سے پہلے کونسلنگ ہی مسائل اور جھگڑوں سے بچنے کا موثر حل ہو سکتا ہے۔

اس پر ہم میاں بیوی نے جتنا غور کیا تو یہ واضح  ہوتا گیا کہ بچوں کی ازدواجی زندگی اور اسکی ضروریات و مسائل کے حوالے سے تربیت نہیں ہو رہی کیونکہ

اوّل : والدین خود تربیت یافتہ نہیں

دوم : بزرگوں کیساتھ انکی نگرانی میں رہنے کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے تو بچوں کو وقت دینے والا تجربہ کار فرد ہی میسر نہیں۔

سوم : ماں باپ کے پاس بچوں کیلئے وقت ہی نہیں۔

چہارم : ازدواجی رشتہ کے صرف ایک پہلو کو ہی سوچا جاتا ہے اس پر بھی شرم اور جھجھک میں کوئی بات نہیں کی جاتی باقی سب پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کر کے اس نئے قائم ہونے والے رشتہ کو آٹو پائلٹ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اس کیس سے واضح  تھا کہ اس نوجوان جوڑے کو دونوں خاندانوں نے نئے رشتے ،اسکے تقاضوں سے بالکل  آگاہ نہیں کیا اور معاملات خراب تر ہوتے گئے۔

نئے شادی شدہ جوڑے کی تربیت اور رہنمائی تو دور کی بات ان کیلئے مشکلات دونوں خاندان غیر دانستہ طور پر خود پیدا کرتے ہیں اور خود ہی ان میں اضافہ کرتے ہیں۔ پسند کی شادی والے کیس الگ رہنے دیں جو رشتے والدین نے خود طے کئے ہوتے ہیں ان میں بھی رسم و رواج پر عملدرآمد میں کمی بیشی پر اپنے بیٹے یا بیٹی کو ہی طعنے دے رہے ہوتے ہیں،
لڑکے کو طعنے ملتے ہیں دیکھو عید شب بارات پر بھی تمہارے سسرال کو کسی کے گھر جانے کا ڈھنگ نہیں آتا یہ اتنا سا پھل لے کر آئے ہیں گلی محلے میں دوں یا کس رشتہ دار کو۔

لڑکی کو طعنے مل رہے ہوتے ہیں کہ ایسے ڈھیٹ اور بد لحاظ سسرال ہیں تمہارے،منگنی پر بھی سارے رشتہ دار اٹھا لائے تھے اب پھر کہہ رہے ہیں دن مقرر کرنے آنا ہے تو ہمارے پچیس افراد آئیں گے بھلا چار لوگ آ کر تاریخ طے کر لیں اب ان پچیس لوگوں کو جوڑے بھی دینے پڑیں گے، پتہ نہیں آگے چل کر کیا کریں گے تمہارے سسرال والے۔

دونوں لڑکی اور لڑکے کو شادی سے پہلے ہی اپنے سسرال ظالم کنجوس اور قابل نفرت لگنے لگتے ہیں ،حتی کہ تلخیاں یہاں تک پہنچ جاتی ہیں کہ لگتا ہے خود دونوں خاندان اس شادی کو بس اپنی بات پوری کرنے اور اپنی زبان کا مان رکھنے کو کر رہے ہیں۔

شادی والے دن لڑکے والے تُن کر رکھنے کیلئے کھلی ڈلی بارات لے کر جاتے ہیں اور انتظامات کا کڑاکا نکال دیتے ہیں جواباً  پھر لڑکی والے بھی نکاح پر “حق مہر ساڈی مرضی دا ہوئے گا “ کا نعرہ بلند کر کے ماحول کو گرما دیتے ہیں یہ مرحلہ بھگت جائے تو پھر ساری رسموں اور لاگ کو ضروری قرار دے کر لڑکیوں سہیلیوں کو آگے کر دیتے ہیں۔

اب ان سارے حالات و واقعات کے بعد لڑکی سسرال پہنچتی ہے تو خوشیوں کے لبادے میں دبی چنگاریاں کبھی تپش دیتی ہیں تو کبھی جلا کر جسم و دل کو زخمی کرتی ہیں۔

خواتین و حضرات !
ازدواجی زندگی خاص طور پر اور سسرالی زندگی عموماً عمل سے نہیں ردعمل سے بنتی اور بگڑتی ہے۔
برداشت تحمل اور درگزر ایسے بہترین ہتھیار ہیں کہ جن سے پتھر تراش کر اپنے من پسند مجسمے بنائے جا سکتے ہیں۔

ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنے پڑھے لکھے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تربیت کی جائے ان کو ہر متوقع صورتحال کیلئے تیار کیا جائے انہیں برداشت سیکھائی جائے تحمل سے آشنا کیا جائے اور درگزر کی قوت سے  آگاہ کیا جائے۔

ہم اپنی کونسلنگ میں یہ بھی بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب کیوں کیا جائے ؟ ہم یہ وجہ اور ضرورت ان میں پہلے پیدا کرتے ہیں۔
انکی شادی کا مقصد کیا ہے ؟ یہ طے کرنے جاننے میں رہنمائی کرتے ہیں۔

ایک دفعہ یہ نوجوان جوڑا اپنی ازدواجی زندگی کا مقصد اسکی منزل کا تعین کر لیں تو پھر سب مسائل سے نمٹنے کے راستے بھی تلاش کرنا آسان ہوتا جاتا ہے۔

آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ الحمدللّٰہ شادی سے پہلے کونسلنگ کے نتائج ہمیں ایسے شاندار ملے ہیں کہ یہ جوڑے نہ صرف بہترین ازدواجی زندگی گذار رہے ہیں بلکہ دونوں خاندانوں کو جوڑ کر رکھنے، خلوص و محبت کیساتھ قریب لانے میں بھی کامیاب ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اسکے بعد کسی کونسلنگ کی ضرورت باقی نہیں، بلکہ زندگی کے ہر مرحلہ پر فیملی کونسلنگ نہایت ضروری ہے جو مسائل سے نبردآزما ہونے اور بروقت درست فیصلہ سازی کو آسان اور یقینی بناتی ہے۔

Facebook Comments