نیپال کے مشہور کوہ پیما نرمل پورجا نے آج اپنے سوشل میڈیا پر Big Mountain Clean-Up کے عنوان سے ایک آپریشن لانچ کیا ہے جس کے تحت اُس نے K2 پہاڑ پر کچرے کو صاف کرنے کےلیے چندا مانگنا شروع کردیا ہے۔
کے۔ٹو پر حالیہ سرمائی مُہم جُوئی کے دوران ہونے والے حادثے کے بعد ابھی تک تین کوہ پیماؤں کی لاشیں تلاش نہیں کی جاسکیں اور اس مقصد کےلیے مُحمّد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ نے چند دن قبل اعلان کیا تھا کہ وہ آنے والے موسمِ گرما کے K2 کلائمبنگ سیزن کے دوران تینوں کوہ پیماؤں کی لاشیں تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ K2 پر ماؤنٹینیئرنگ ہارڈویئر کے کچرے کی صفائی بھی کرنا چاہتا ہے۔
اِس ضمن میں مَیں عام قارئین کو بتاتا چلوں کہ استعمال شُدہ بوسیدہ رسّیاں، ٹُوٹے ہوئے خیمے اور کوہ پیمائی کے دوران استعمال شُدہ مختلف آلات و اشیاء کے علاوہ کوہ پیماؤں کی باقیات سمیت بہت سارا کچرا K2 سمیت دُنیا کے تمام بڑے پہاڑوں پر سالہا سال کی مُہمات کے دوران جمع ہوتا رہتا ہے جسکی صفائی ماحول کے علاوہ کوہ پیماؤں کی سیفٹی کےلیے بھی ضروری ہوتا ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ پر چونکہ ہر سال سینکڑوں کوہ پیما قسمت آزمائی کرتے ہیں لہٰذا نیپالی حکومت نے وہاں ہر سال کچرا صاف کرنے کا میکانزم بنایا ہوا ہے اور نیپالی شرپا ہر سال ماؤنٹ ایورسٹ کے کلائمبنگ سیزن کے اختتام پر بیسیوں ٹن solid Waste جمع کرکے نیچے لاتے ہیں تاکہ اگلے کلائمبنگ سیزن کےلیے ماؤنٹ ایورسٹ صاف رہے۔
بدقسمتی سے ایک تو پاکستان کے پہاڑوں پر کوہ پیماؤں کی زیادہ تعداد آتی نہیں ہے اور دوسرا سالہا سال کی مُہم جُوئی کے بعد بھی کئی کئی سال تک K2 پر صفائی کی مُہم جُوئی کا کوئی میکانزم پاکستانی اربابِ اختیار نے کبھی وضع ہی نہیں کیا۔ K2 پر آخری بار کلین۔اپ آپریشن 2010 میں ہوا تھا۔ تاہم اُس کے بعد گُزشتہ 10 سال کے دوران گو کہ بہت ساری مُہمات K2 پر قسمت آزمائی کےلیے آئیں لیکن کلین۔اپ آپریشن کےلیے کوئی عملی قدم نہ اُٹھایا گیا۔
حالیہ K2 حادثے کے بعد اُسکی وجوہات جاننے کےلیے جتنے بھی تجزیے کیے گئے اُن میں ایک بات مُشترک تھی اور کم و بیش دُنیا کے ہر کوہ پیما نے اس بات کا اظہار کیا کہ K2 پر سالہا سال کی مُہمات کے دوران استعمال ہونے والی فکسڈ لائنز پر لگی رسیّاں اب اس قدر بوسیدہ اور خطرناک یو چُکی ہیں کہ اکثر کوہ پیما دھوکہ کھا جاتے ہیں اور نئی رسّی کی بجائے کسی پُرانی رسّی کو استعمال کر بیٹھتے ہیں جو جان لیوا حد تک خطرناک عمل ہے۔ تین کوہ پیماؤں کے ساتھ ہونے والے حادثے کے متعلق بھی غالب امکان یہی ہے کہ شاید وہ رسّی کے ٹُوٹ جانے کی وجہ سے کسی جان لیوا حادثے کا شکار ہوئے ہوں۔ پہاڑ پر فکسڈ لائن لگانے والے کوہ پیما اکثر کوشش کرتے ہیں کہ وہ پہلے سے لگی ہوئی رسّوں سے مختلف رنگ کی رسّیاں استعمال کریں تاکہ اُنکی ٹیم نئی فکسڈ لائن پر چلے۔ کیونکہ فکسڈ لائن لگانے کے بعد اکثر خراب موسم کے دوران یا برفباری کے بعد برف میں دب جانے کی وجہ سے ظاہری طور پر نئی اور پُرانی رسّی میں کوئی فرق نہیں رہتا اس لیے صرف رنگ ہی ان میں تمیز کر سکتا ہے اور چونکہ ٹیم کو بتا دیا جاتا ہے کہ فلاں رنگ کی رسّی نئی ہے لہٰذا آپ نے اُس پر چلنا ہے۔ اس لیے وہ اُسی رسّی کو ڈُھونڈ کر اُسکے ساتھ اٹیچ ہونے کی کوشش کرتے ہیں. لیکن جیسا کہ مَیں نے عرض کیا کہ K2 پر گُزشتہ 10 سال سے کوئی کلین۔اپ آپریشن ہوا ہی نہیں تو لازمی بات ہے کہ اب وہاں “ہاؤس چمنی” اور “بلیک پائرامڈ” جیسے مُشکل اور ٹیکنیکل سیکشنز پر پُرانی رسّیوں کی اتنی بھرمار ہے اور تقریباً ہر رنگ کی رسّی وہاں لگی ہوئی ہے کہ اب محض رنگ کی بنیاد پر نئی رسّی کی نشاندہی کرکے اُس پر چلنا بھی ممکن نہیں رہا۔ لہٰذا وقت کی اہم ترین ضرورت یہی ہے کہ K2 پر کلین۔اپ آپریشن کیا جائے۔ ساجد سدپارہ نے بہت اہم مشن اپنے سر لیا ہے۔ کیونکہ اس سے دو مقصد حل ہوتے ہیں۔ ایک تو حادثے کی تفتیش ہو جائے گی اور نیپالیوں کے خلاف مُبیّنہ فکسڈ لائن کاٹنے یا ختم کرنے کے الزام کی تصدیق یا تردید ہو جائے گی اور دوسرا لاشیں تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ K2 کی صفائی بھی ہو جائے گی اور اس طرح مستقبل کی مُہمات کےلیے سیفٹی کے انتظامات بھی بہتر ہو جائیں گے۔
مَیں ساجد سدپارہ کے اعلان کے بعد سے ہی اس مشن کےلیے بار بار اپنی تحریروں کے ذریعے آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور تمام سٹیک ہولڈرز سے استدعا کر چُکا ہوں کہ ساجد سدپارہ کو سپورٹ کریں اور اس آپریشن کےلیے مناسب فنڈنگ کی جائے۔ اب مُجھے یہ تو معلوم نہیں کہ ساجد سدپارہ کے اِس مشن کےلیے کہاں تک پیش رفت ہو چُکی ہے تاہم نیپالی کوہ پیما نرمل پورجا کے کلین۔اپ مشن نے مُجھے ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
آئیے اسکا تجزیہ کرتے ہیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ حقیقت اب تاریخ کا حصّہ بن چُکی ہے کہ گُزشتہ ماہ 5 فروری کو ہونے والے K2 حادثے کے بعد تین کوہ پیماؤں کی تلاش میں K2 سر کرنے والے نرمل پورجا سمیت تمام 10 نیپالی شرپاؤں کا کوئی کردار نہیں تھا کیونکہ جب حادثہ ہوا اُسوقت تک وہ تمام واپس نیپال جاچُکے تھے اور وہاں جا کر بھی اُن کی طرف سے ایسا کوئی اعلان سامنے نہیں آیا تھا کہ وہ سرچ آپریشن پر آنا چاہتے ہیں۔
نیپالی ٹور کمپنی سیون سمٹ ٹریکس والے گو کہ K2 پر موجود تھے لیکن نہ تو اُسکے لیڈر چھانگ داوا شرپا نے اپنی ٹیم سرچ آپریشن کےلیے بھیجی اور نہ ہی کوئی باقاعدہ مدد کی۔ بس ایک بار پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر فضائی تلاش کے بعد واپس آگیا تھا اور اُسکے بعد عین سرچ آپریشن کے دوران ہی پاکستانی سرچ ٹیم کو چھوڑ کر اپنی کمپنی کا مال متاع لے کر واپس سکردو چلا گیا تھا۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ نیپالیوں کا تین لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش میں کردار بالکل صفر ہے۔
دوسری طرف جب اُن پر پاکستانی عوام سمیت بین الاقوامی کوہ پیما کمیونٹی کا پریشر آیا کہ اُنہوں نے اپنی سمٹ کے بعد یا تو رسّیاں ہی کاٹ دیں یا فکسڈ لائن ختم کردی تاکہ کوئی اور K2 کو اس سیزن میں سر نہ کرسکے اور SST کمپنی نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا تو ان الزامات کے جواب میں نیپالیوں نے سوشل میڈیا پر اپنے تکبّر اور ہٹ دھرمی کا اظہار شروع کردیا اور سوالات کے جوابات دینے کی بجائے اس بیانیے کو پروان چڑھایا کہ چونکہ ہم نیپالیوں نے یہ کارنامہ سرانجام دے دیا ہے لہٰذا ساری دُنیا اب نیپالیوں سے حسد کر رہی ہے اور ہم کسی کو جواب دہ نہیں وغیرہ وغیرہ۔
اِس ساری صُورتحال کے تناظر میں ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ گُزشتہ روز جب گلگت۔بلتستان کے وزیراعلیٰ اور وزیرِسیاحت تعزیت کےلیے مُحمّد علی سدپارہ کے گھر سکردو پہنچے تو ساجد سدپارہ نے وہاں اُن سے لاشیں تلاش کرنے اور کلین۔اپ کرنے کے K2 مشن کا ذکر کیا جس پر گلگت۔بلتستان حکومت نے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اس بارے ساجد سدپارہ کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے آفیشل ٹویٹ بھی کی گئی۔ اِس خبر کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر آج نرمل پورجا کا K2 کلین۔اپ آپریشن کا اعلان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ شاید درپردہ نیپالیوں کے عزائم کچھ اور ہیں۔
اِس ضمن میں میرے ذہن میں ذیل چند اہم سوالات اُبھر رہے ہیں۔
1. آخر کیا وجہ ہے کہ نیپالی کلین۔اپ آپریشن کا اعلان تو کر رہے ہیں لیکن یہ نہیں کہہ رہے کہ تین کوہ پیماؤں کی لاشیں بھی ڈُھونڈیں گے۔
2. جبکہ ساجد سدپارہ پہلے ہی اس آپریشن کا اعلان کر چُکے ہیں تو پھر مُحمّد علی سدپارہ کی کلائمبنگ لیگیسی کے واحد وارث ساجد سدپارہ کی سپورٹ کی بجائے الگ سے K2 کلین اپ آپریشن کا اعلان کیوں؟
3. آج سے پہلے تو نیپالیوں کو کلین۔اپ آپریشن کا خیال نہیں آیا۔ آخر اب ہی کیوں آیا اور اگر اسکی وجہ حادثہ ہے تو پھر ایسا کیوں ہے کہ حادثے کے شکار تین کوہ پیماؤں کی لاشیں تلاش کرنے سے تو نیپالی گُریزاں ہیں لیکن کلین۔اپ کےلیے چندہ مانگ رہے ہیں؟
4. نیپالی کوہ پیما نرمل پورجا اپنا آپریشن کلین۔اپ K2 کے موسمِ گرما کے کلائمبنگ سیزن سے پہلے کرنا چاہتے ہیں یا بعد میں؟
5. کیا ایسا تو نہیں کہ نیپالی کوہ پیما K2 پر ہونے والے حادثے کے ثبوت مٹانے کےلیے بھیجے جارہے ہیں اس لیے وہ صرف کلین۔اپ آپریشن کرنا چاہتے ہیں اور لاشوں کی تلاش سے اجتناب برت رہے ہیں؟
میری ذاتی رائے ہے کہ چونکہ کوہ پیمائی سے وابستہ نیپالی کمپنیاں اور نیپالی شرپا پیسے کمانے کے نت نئے طریقے ڈُھونڈتے رہتے ہیں اور طریقے بھی ایسے کہ جس میں اُنہیں دُنیا بھر میں شہرت بھی ملے اور درپردہ وہ پیسے کمانے کی اپنی حرص بھی پُوری کر سکیں اور اس عمل میں بے شک کوہ پیمائی کے کھیل کی رُوح بھی چھلنی ہو جائے اس سے نیپالیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا لہٰذا نرمل پورجا کے آپریشن۔کلین اپ کا تین کوہ پیماؤں کی لاشیں تلاش کرنے کے بغیر اعلان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ چونکہ K2 پر لاشیں تلاش کرنے میں بہت سارے “اگر مگر” شامل ہیں اس لیے اس کے سو فیصد کامیاب ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ لہٰذا بہترین حل یہی ہے کہ صرف کلین۔اپ آپریشن کا اعلان کرکے بہت سارا فنڈ اکٹھا کیا جائے اور کلین۔اپ کر کے دُنیا بھر میں شہرت اور پذیرائی کے ساتھ ساتھ K2 پر کوہ پیمائی کے کاروبار پر قبضہ جما لیا جائے۔ اس آپریشن کلین۔اپ کے دوران اگر نرمل پورجا کو حادثے کی وجوہات معلوم ہو گئیں اور اگر اُس میں نیپالیوں کی کوئی کوتاہی نہ ہوئی تو بونس میں ہیروازم اور شُہرت بھی مل جائے گی اور اگر حادثہ اُنہی کی کسی غلطی کوتاہی سے ہوا تھا تو پھر اُسکے ثبوت مٹانے کا مقصد بھی حل ہو جائے گا تاکہ نیپالیوں کی سمٹ گلوری پر کوئی آنچ نہ آئے اور کوہ پیمائی کے کھیل میں نیپال اور نیپالیوں کی اجارہ داری قائم ہو جائے۔
آنے والے دن اس بات کا تعیّن کریں گے کہ دُنیائے کوہ پیمائی نیپالی کوہ پیما نرمل پورجا کے اس اعلان کو کس نظر سے دیکھتی ہے اور پاکستانی حُکّام اس بابت کیا فیصلہ کرتے ہیں۔
کیا اپنے قومی ہیرو مُحمّد علی سدپارہ کے فرزند ساجد سدپارہ کو فنڈنگ کرکے K2 پر بھیجتے ہیں یا ایک بار پھر اس پہاڑ کو نیپالیوں کی بےحِسی، خُود غرضی اور لالچ کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں