پی ڈی ایم کی ہنڈیا بھی پھوٹ گئی؟۔۔تصور حسین شہزاد

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں، اہم اجلاس میں استعفوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان پایا جانیوالا اختلاف سامنے آگیا، مولانا فضل الرحمان بھی صورتحال پر سخت نالاں دکھائی دیئے اور اس بات کا عملی ثبوت دیتے ہوئے پریس کانفرنس کے دوران لانگ مارچ ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور وہاں سے چلتے بنے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔ مسلم لیگ نواز کے سینیئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مریم نواز کو بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی پریس کانفرنس ختم کر دیں، تاہم مریم نواز وہیں کھڑی رہیں، جس پر شاہد خاقان عباسی خود پریس کانفرنس چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔ پی ڈی ایم میں دراڑیں بہت واضح ہوگئی ہیں اور اپوزیشن اتحاد کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوچکا ہے۔

سربراہی اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان کی باڈی لینگوئج کافی ڈاؤن تھی جبکہ مریم نواز بھی کافی غصے میں نظر آئیں، مسلم لیگ نون اور جے یو آئی کو یقین ہوگیا ہے کہ پیپلز پارٹی استعفے نہیں دے گی۔ مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز کافی غصے میں نظر آرہے تھے، وجہ بڑی واضح ہے کہ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح پارلیمنٹ سے استعفے دینے پر پیپلز پارٹی کو منا لیں، لیکن نہ صرف پیپلز پارٹی اپنے موقف پر ڈٹی رہی بلکہ آصف زرداری نے تو نواز شریف پر ڈال دیا کہ لانگ مارچ کرنا ہے اور تحریک چلانی ہے تو نواز شریف پاکستان واپس آئیں، مسلم لیگ نون کیلئے یہ صورتحال بڑی شرمندگی والی تھی کیونکہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں آصف زرداری کی میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے ہونیوالی گفتگو کی خبریں پورے میڈیا پر چلیں، یہ صورتحال نواز شریف کیلئے بھی بڑی شرمندگی والی ہے، جس کی وجہ سے مریم نواز کافی زیادہ غصے میں نظر آرہی تھیں۔

اب پی ڈی ایم کا یہ معاملہ اختلافات کی طرف جا رہا ہے، پی ڈی ایم جب تک متحد نہیں ہوگی، وہ کسی قسم کا ہدف حاصل نہیں کرسکے گی۔ پی ڈی ایم کا ٹارگٹ حکومت کو گرانا ہے، تاہم اب پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کو گراتی نظر آرہی ہیں۔ استعفوں والی بات پر اختلاف رائے تھا اور پیپلز پارٹی اب دوبارہ مشاورت کیلئے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی طرف جا رہی ہے۔ نواز شریف کی واپسی والے معاملے پر مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی سے کافی ناراض نظر آرہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کل کہہ چکے تھے کہ اگر لانگ مارچ استعفوں کے بغیر ہوا تو وہ یقینی طور پر غیر موثر ہوگا۔ اجلاس کے بعد مولانا بھی کافی مایوس نظر آئے، پی ڈی ایم کے آج کے اجلاس میں پیپلز پارٹی اثر انداز ہوئی ہے، بہت کم چانس ہیں کہ پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ استعفوں کے معاملے پر آمادگی ظاہر کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ لانگ مارچ فی الوقت موخر کر دیا گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لانگ مارچ کی اگلی تاریخ بھی نہیں دی گئی، اگر کوئی نئی تاریخ دے دی جاتی تو بات سمجھ آتی تھی، لیکن جب نئی تاریخ نہیں دی گئی تو اس کا مطلب ہے کہ پی ڈی ایم کے اندر غیر یقینی کی سی صورتحال ہے۔

مسلم لیگ نون اور جے یو آئی کو یقین ہوگیا ہے کہ پیپلز پارٹی استعفے نہیں دے گی۔ مولانا فضل الرحمان لاڑکانہ جلسے سے قبل ہی ناراض تھے، پی ڈی ایم اجلاسوں میں بلاول بھٹو زرداری کے درمیان واضح اختلاف رہا ہے۔ پی ڈی ایم بننے کے پورے چھ ماہ بعد اپوزیشن اتحاد میں پھوٹ پڑ چکی ہے اور وہ خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ حکومت کو جنوری اور مارچ کی ڈیڈ لائن دینے والی پی ڈی ایم کا اپنا مستقبل غیر یقینی ہوگیا ہے۔ آنیوالے دنوں میں یہ اختلاف مزید کھل کر سامنے آئے گا۔ ادھر میڈیا سے گفتگو میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ انہوں نے اور بلاول بھٹو زرداری نے پی ڈی ایم کی قیادت سے یہ درخواست کی ہے کہ استعفوں کے معاملے پر انہیں وقت دیا جائے۔ پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا پہلا فیصلہ استعفوں کا حق میں نہیں تھا، اس لیے ہم نے ان سے واپس سی ای سی میں جانے کا وقت لیا ہے۔

زرداری کی جانب سے نواز شریف کی واپسی کے مطالبے پر ردعمل میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ نواز شریف کو وطن واپس لانے کی بات کرے۔ انہیں واپس بلا کر قاتل عمران خان کے حوالے نہیں کرسکتے، جس نے بھی میاں نواز شریف سے بات کرنی ہے، پہلے مجھ سے بات کرے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو نئی زندگی ملی ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ ان کی باقی زندگی ان قاتلوں کے ہاتھوں میں سونپ دی جائے۔ وہ اپنی بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر وطن واپس آئے تھے، لیکن اب انہیں قاتل عمران خان کے حوالے نہیں کرسکتے۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہمیں زندہ لیڈرز چاہئیں، ہم پہلے جو لیڈرز گنوا چکے ہیں وہ ملک و قوم کا بہت بڑا نقصان تھا، جس کی تاریخ کو دہرانا نہیں چاہتے۔

نواز شریف کی لیڈر شپ میں پوری جماعت متحد ہے، جس نے نواز شریف سے بات کرنی ہے، پہلے مجھ سے بات کرے۔ استعفوں اور لانگ مارچ کے حوالے سے مریم نواز نے کہا کہ جب تک پیپلز پارٹی کا جواب نہیں آجاتا تب تک کوئی قیاس آرائی نہیں کرسکتے۔ اس اجلاس کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک میں اب کوئی دم خم نہیں رہ گیا۔ ان کے اندرونی اختلافات سے ہی حکومت مخالف تحریک اپنی موت خود مرتی دکھائی دے رہی ہے اور حالات ایسے بنا دیئے گئے ہیں کہ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان، گورنر پنجاب چودھری سرور، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سمیت دیگر حکومتی عہدیدار اپوزیشن کے حوالے سے بالکل مطمئن ہیں۔ جیسے کہ انہیں پہلے ہی اس بات کا علم تھا کہ اپوزیشن کی ہنڈیا آج بیج چوراہے میں ٹوٹ جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply