جب انسپکٹر گاؤں والوں کو بچانےکے لئے آیا۔۔حبیب شیخ

تھانیدار کے سیکریٹری نے فون اٹھایا۔ ہیلو۔۔
جی ہماری مدد کریں ۔ ہمارے گاؤں پہ راشٹریہ سنگھ کے لوگ حملہ کرنے والے ہیں، وہ ہم کو مار ڈالیں گے، ہمارے مکان جلا دیں گے، ہماری فصل کو آگ لگا دیں گے، جانور چوری کر کے لے جائیں گے، ۔ صاحب جی صاحب جی جلدی کریں جلدی کریں۔
سیکریٹری بات کاٹتے ہوئے بیزاری سے بولا۔ ’کون سا گاؤں؟‘
’جی، سونی پت۔ ‘
’تمہیں کیسے پتا کہ آج رات میں حملہ ہو گا۔‘ سکیریٹری دھاڑا۔
’جی وہ لوگ یہاں سے دو کلو میٹر دور راجہ باغ کےباہرجمع ہو رہے ہیں اور حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جلدی کریں صاحب جی ہماری جان و ما ل کو خطرہ ہے۔‘ فون کے دوسری طرف سے آنے والی آواز کی بےچارگی بڑھ گئی تھی۔
’اچھا ہم ذرا کھوج لگاتے ہیں۔ ‘ یہ کہہ کر سیکریٹری نے فون رکھ دیا اور تھانیدار کی طرف دیکھنے لگا۔

’تھانیدار صاحب، سونی پت کے لوگوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے پہلے بھی دو بار فون کر چکے ہیں۔‘ پھر اس نے اپنی گھنی مونچھ پہ انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ ’میرا خیال ہے کہ یہ افواہیں سن کردیوانے ہو گئے ہیں۔‘

تھانیدار نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے کہا ۔’ اگر ہم نے کچھ نہیں کیا اور حملہ ہو گیا تو پتا نہیں کتنی مار کٹائی ہو گی۔ پھر میری گردن سرکار کی چھری کے نیچے آجائے گی۔ لکھاری میرے پیچھے پڑ جائیں گے کہ میں نے مسلمانوں کے گاؤں پہ حملہ کروایا ہے۔

تھانیدارکچھ سوچ میں پڑ گیا اور پنکھے کو گھورنے لگ گیا۔ ’اچھا، تم ایسا کرو کہ انسپکٹر سنجے سےبولو کہ میٹنگ روم میں آجائے۔ میں ابھی اس سے مل کر پلان بناتا ہوں۔انسپکٹر سنجے نے تھانیدار کو آتے دیکھا تو اٹھ کر سیلوٹ کیا۔ ’سر جی آپ نے بلایا ہے، کیا حکم ہے؟‘
ہاں سنجے، ایک مسئلہ آن پڑاہے۔

جی بتایئے کوئی نہ کوئی حل نکالوں گا۔‘ انسپکٹر نے اپنے کندھوں کو پھیلاتے ہوئےکہا۔

آج سونی پت پہ راشٹریہ سنگھ کے لوگ حملہ کرنے والے ہیں۔ وہ پہلے بھی کچھ دوسرے علاقوں میں لوٹ مار کر چکے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی مار دھاڑ ہو۔

انسپکٹر سنجے کرسی پہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولا۔ ’اگر ہم راشٹریہ سنگھ کے حملہ آوروں کو روکیں گے تو وہ ہم سے لڑیں گے۔ ہم انہیں روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کریں گے۔ لیکن کوشش یہی ہو گی کہ ان کو گرفتار کر لیا جائے اور انہیں سخِت وارننگ دی جائے تاکہ وہ آئندہ ایسا کرنے کا نہ سوچیں۔ ورنہ ہم روز رات کس کس گاؤں کو بچا ئیں گے ۔

تھانیدار نے ہاتھ اٹھایا اور انسپکٹر وہیں رک گیا۔

’سنو، میں نے کچھ اور سوچا ہے اور انہی ہدایات پہ عمل کرنا ہے۔‘ تھانیدار اپنی کرسی کھینچ کر انسپکٹر سنجے کے پاس آگیا۔

انسپکٹر اپنا دستہ لے کر سونی پت روانہ ہو  گیا اور آدھ گھنٹے اندھیرے میں کچی سڑکوں پہ ہچکولے کھاتے ہوئے گاؤں پہنچ گیا۔ کچھ مرد شکاری بندوقیں اور ڈنڈے لئے پھر رہے تھے، انہوں نے فوراً  انسپکٹر سنجے کی جیپ کو گھیر لیا۔
’دھنیوات دھنیوات  آپ لوگوں کے آنے پر ورنہ ہم تو بہت خطرے میں تھے۔

انسپکٹر سنجے نے کوئی جواب نہیں دیا اور جیپ سے باہر آگیا۔

ایک دیہاتی جو ان کا لیڈر بنا ہوا تھا انسپکٹر کے بالکل سامنے آگیا۔’آپ لوگوں کو دودھ، لسی، چائے، پانی جو بھی چاہیے ابھی اس کا بندوبست ہو جائے گا۔

انسپکٹر اب بھی خاموش رہا۔ وہ کسی سے بھی نظریں ملانے سے اجتناب کر رہا تھا۔ مرد بہت حیرانی سے انسپکٹر کو دیکھ رہے تھے۔ ایک نے سرگوشی کی۔ ’یہ انسپکٹر گونگا تو نہیں ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ لوگ اس گاؤں کو خالی کردیں۔ جلدی کریں جو سامان اور مویشی لے کر جا سکتے ہیں لے جائیں۔‘ انسپکٹر نے شرم سے گردن جھکا لی۔ اس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں اب لکیریں بنا رہی تھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply