سلائس بریڈ یا ڈبل روٹیاں۔۔عارف خٹک

گاؤں کے لوگوں کو خوشی منانے کیلئے بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ کسی کے گھر بچہ ہوجائے تو سارے مرد و زن مل کر زچہ و بچہ دیکھنے چلے جاتے ہیں۔ بتاشے  اور ٹانگری تو اب خواب ہوگئے ہیں کہ نئے پاکستان میں اب چینی بہت مہنگی ہوچکی۔ لوگوں کا ایک دوسرے  کے گھروں میں آنا جانا، بلاضرورت سر درد کا پوچھنا اور چارپائی پر لیٹے لیٹے جھاڑو لگاتی عادل بی بی کو آواز دینا
” ذرا چائے تو بنا کر دینا بہترین سی”

اور آنیوالا مہمان فقط نہ نہ   کرتا رہ جاتا ہے کہ، ابھی ابھی چچا فضل کریم کے گھر پی کر آیا ہوں۔ مگر عادل جانہ چچی کی گونجتی آواز مہمان کو چاروں شانے چت کردیتی  ہے۔
“مانا فضل کریم کے گھر دو دو دودھ والی گائیں ہیں مگر دودھ کا سواد ہماری چتکبری بکری کا بھول نہ پاؤگے”۔

گاؤں میں جب کسی کے گھر بندہ بیمار ہوجائے یا نزع کے عالم میں کوئی مریض آخری سانسیں گن کر بچوں کو بتانے  لگے کہ “بیٹا میاں خان کی زمین پر تم لوگوں کا حق ہے چھوڑنا مت ورنہ حق نہیں بخشونگا، عبداللہ خان کے دادا نے ہماری عزت کی طرف غلط نظروں سے دیکھا تھا لہذا ان کی اولاد کو چھوڑنا نہیں ورنہ اپنا حق نہیں بخشونگا”۔

تو گھر میں ایک عجیب سی خوشی کا سماں بندھ جاتا ہے کہ الحمداللہ دادا ابو نے غیرت کی دستار بڑے ابا کے  سر  پر رکھ دی ہے۔ حجرے میں بڑے ابا بڑے غرور سے تعزیت کرنیوالوں کا استقبال کرنے لگ جاے ہیں ۔

غریب خواہ وہ اسرائیل کا ہو، واشنگٹن ڈی سی کا ہو، گوجرہ کا ہو یا ہو کرک کا، کوئی منہ نہیں لگاتا۔ غریب کے گھر دو مواقع پر ہم نے رش دیکھا ہے جب اس کی بیٹی جوان ہوجاتی ہے، یا وہ خود دنیا سے منہ موڑلیتا ہے۔ گاؤں میں غریب غرباء کے گھر میں بیماری ایک نعمت خداوندی تصور کی جاتی ہے۔ کم از کم مزاج پُرسی کیلئے  آنیوالے دو مالٹے، ایک سیب مریض کے سرہانے رکھ جاتے ہیں  ۔  آج کل دنیا  ذرا جدید ہوگئی ہے میں نے غریبوں کی عیادت کیلئے جانیوالے لوگوں کے ہاتھ میں دودھ کے چھوٹے ڈبے بھی دیکھے ہیں۔ جن کو ملک پیک کہا جاتا ہے خواہ وہ کسی بھی برانڈ میں  ہو۔ عیادت کرنیوالا میوہ یا دودھ مریض کے سرہانے رکھ کر چلا جاتا ہے۔ ادھر گھر میں بہوئیں اس بات پر ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہوجاتی ہیں کہ کل ایک سیب چھوٹی والی دیورانی کے بیٹے نے کھایا تھا سو آج کا سیب میرے بچے کھائیں گے۔ مریض بیچارہ  اپنے  خشک ہونٹوں پر فقط زبان پھیر کر رہ جاتا ہے،کہ سیب چکھے بھی سال گزر چکا ہے۔

سلائس بریڈ جس کو ہمارے گاؤں میں ڈبل روٹیاں کہا  جاتا  ہے ،ہمارے گاؤں میں اس وقت وارد ہوجاتی  ہیں جب کوئی نامی گرامی بندہ مرنے والا ہو کیونکہ دودھ میں ڈال کر مریض کو دی جانے والی مائع خوراک کا کلچر 1990 سے رائج ہے۔

دولت مند جاں بلب مریض جن کو مرنے میں فی الحال ہفتہ باقی ہوتا ہے،انکے سرہانے ڈان بریڈ کے سلائس روٹیاں بمعہ ماذا کے سبز جوس ڈبے بھی دیکھے ہیں۔ عیادت  کرنے والا  جیسے ہی بیٹھ جاتا ہے، لواحقین بہانے بہانے سے ڈبل روٹی کے شاپر کو کھڑکانا شروع کردیتے ہیں کہ دیکھو ہمارا مریض کتنی عیاشیاں کررہا ہے۔ مرنے کے بعد علاقے میں دھوم مچی ہوتی ہے کہ سمندرخان کی  اولاد نے اپنا حق ادا کر دیا  ،مرحوم کو آخری  وقت میں ڈبل روٹیاں نصیب ہوئیں۔

پچھلے سال اپنی ڈاکٹریٹ بیگم کیساتھ گاؤں جانا ہوا۔ بیگم نے گاؤں پہنچ کر اعلان کردیا کہ آج کے بعد کچن کی ذمہ داریاں میرے سر ہوں گی،ساس سسر کو امریکن، چائنیز اور کانٹینٹل کھانے میں کھلایا کروں گی۔ غرض یہ تھی کہ پورے گاؤں  کو  معلوم ہوجائے کہ سال بعد  آنیوالی بہو نے ساس سسر کی خدمت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ شام کو بیگم نے اعلان کیا کہ ابا جی کیلئے شاہی ٹکڑے اور سینڈوچ بناؤں گی۔ سو حکم صادر ہوا کہ سلائس بریڈ کا بندوبست کیا جائے۔ دریش خیل کی مارکیٹ جو کُل پانچ دکانوں پر مشتمل تھی، چھان ماری، کوئی پہچانے نہ  کہ سلائس بریڈ کس بلا کا نام ہے۔ میرے ساتھ کھڑے گاؤں کے واحد ایف اے پاس کاشف نے دکاندار پر آنکھیں نکالیں
“جاہل لوگوں سلائس بریڈ کا نہیں معلوم تم لوگوں کو۔ وہ جو اپنی فلمسٹار مسرت شاہین کی طرح گول گول اور پھولی پھولی ہوتی ہیں اس کو سلائس بریڈ کہا جاتا ہے”۔
دکاندار نے استہزائیہ لہجے میں جواب دیا “اچھا پیٹھا کدو کی بات کررہے ہیں”۔

بہادرخیل کے بیس دوکانوں کی تلاشی لی گئی مگر سلائس ہنوز ندارد۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ کُرک میں ایک بہت بڑی بیکری ہے جو ایک کشمیری چلاتا ہے وہاں ممکن ہے- سو ہزار کا پٹرول ڈلوا کر مبلغ پچاس روپے کی ڈبل روٹیاں لائی گئیں، شاہی ٹکڑے بن گئے اور باقی روٹیوں کا پیکٹ ابا حضور کے سرہانے رکھا گیا تاکہ بچوں کی  دسترس سے محفوظ ہو۔ اگلے دن پورے گاؤں میں مشہور ہوا کہ جناب ملک رشید کا انتقال ہونیوالا ہے کہ سرہانے ڈبل روٹیاں دیکھی گئی ہیں ۔

اگلی صبح بیگم نے اعلان کیا کہ وہ ابا حضور کیلئے شملہ مرچ میں قیمہ بنانے جارہی ہیں۔ ہاتھ پیر جوڑ دیے کہ یہ نایاب شے یہاں پورے پختونخوا  میں اجنبی ہے۔ ہنوز اس کیلئے پنجاب یا کراچی جانا پڑیگا۔

لنچ میں مٹن کڑاھی بمعہ سبزیوں والے چاول یا چائنیز فرائیڈ رائس، شام کی  چائے کیساتھ قیمے والی  کچوریاں اور پیٹیز، چکن کارن سوپ الغرض بیگم نے وہ عجیب و غریب کھانے بنوانے شروع کردیئے کہ تیسرے دن  اماں نے مجھے کمرے میں بلا کر کہا کہ
“بیٹا جس بجٹ سے ہم پورا مہینہ گھر چلاتے ہیں تمھاری بیوی نے تین دن میں ختم کرڈالا۔ بہتر ہے کہ اگلے کھانوں کیلئے ہم اپنی آبائی زمینیں بیچ دیں،لہذا  اس کو یہاں سے لیجاؤ”۔

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ ماہ پیشتر گاؤں سے ایک مہمان کراچی وارد ہوا لہذا اس کو ڈائننگ ٹیبل پر بچوں کیساتھ ناشتہ کروانا پڑا۔ بچے سلائس پر مکھن مل مل کر کھا رہے تھے کہ مہمان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ لکنت زدہ لہجے میں مجھ سے پوچھا “خٹک صاحب بچے تو ماشاءاللہ نور گل خان کے کھوتوں کی طرح ہٹے کٹے ہیں ان کو کون سی بیماری لگی ہے؟”۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply