• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • شہباز گل نے تو پالک آلو کی تاریخ ہی بدل ڈالی۔۔ غیور شاہ ترمذی

شہباز گل نے تو پالک آلو کی تاریخ ہی بدل ڈالی۔۔ غیور شاہ ترمذی

وزیر اعظم عمران خاں کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹرشہبازگل پر 3 نون لیگی کارکنوں عتیق، عباس اور ایک نامعلوم کارکن نے انڈوں اور سیاہی سے حملہ کیا کر دیا- ڈاکٹر شہباز گل لاہور ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے لئے راہداری سے عدالت کی طرف جا رہے تھے جب ان پر 2 عدد انڈے پھینکے گئے جو ان کے ساتھ چلنے والے پولیس اہلکار کی چھتری پر لگے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی جانب سیاہی بھی پھینکی گئی جو کہ ان کے ماتھے اور ہاتھ پر لگی۔ چہرے پر ماسک پہننے کی وجہ سے سیاہی چہرے پر نہیں پھیلی اور ڈاکٹر شہباز گل کے ماتھے تک ہی محدود رہی- موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے تحریک انصاف کے کارکنوں کی مدد سے شہباز گل پر سیاہی اور انڈے پھیکنے والے تینوں افراد کو حراست میں لے لیا۔ اس موقع پر ان تینوں لیگی کارکنوں کو شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا-

ڈاکٹر شہباز گل پر انڈے اور سیاہی پھننکنے کے علاوہ کچھ نون لیگی خواتین جوتے لے کر بھی پہنچ گئی تھیں جو انہوں نے شہباز گل کو مارنے تھے- تاہم لاہور ہائیکورٹ سے واپسی پر شہباز گل کو سخت سکیورٹی میں گاڑی میں بٹھا کر وہاں سے نکلوایا گیا- اس موقع پر خواتین نے جوتے مارنے کی کوشش کی لیکن پولیس رکاوٹ بن گئی- البتہ خواتین نے شہباز گل کی گاڑی پر جوتا پھینکا بھی ہے تاہم شہباز گل گاڑی کے اندر سوار تھے اس لئے وہ جوتا لگنے سے بچ گئے- تحریک انصاف کے لیڈروں پر انڈے، سیاہی اور جوتے پھینکے جانے کی جس قبیح رسم کا آغاز ڈاکٹر شہباز گل سے ہوا ہے، اس رسم کے پاکستان میں مؤجد بھی یوتھی کارکنان ہی ہیں جنہوں نے خواجہ آصف پر بھی سیاہی پھینکی تھی- خواجہ آصف نے مگر اس واقعہ کے ملزم کو معاف کر دیا تھا- اس کے علاوہ وفاقی وزیر شیخ رشید کو بھی جوتے مارے جا چکے ہیں اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ قتل درج کروانے والے احمد علی قصوری کے منہ پر بھی سیاہی پھینکی جا چکی ہے- جس قسم کے “شاندار” سیاسی تعلقات ملک کی صف اوّل کی جماعتوں میں کماحقہ موجود ہیں، ان کے حساب سے یہ پشین گوئی بغیر کسی تردد کے پیش کی جا سکتی ہے کہ مستقبل قریب میں مخالف سیاسی راہنماؤں کے خلاف ایسے واقعات تواتر سے وقوع پذیر ہوتے رہیں گے-

ڈاکٹر شہباز گل نے نون لیگی کارکنوں کی طرف سے کی جانے والی انڈہ مار کارروائی کے خلاف جوابی وار کرتے ہوئے جہاں عمران خاں کے ساتھ کھڑے رہنے کے عزم صمیم کا وعدہ کیا، وہاں انڈے کا غصہ آلو پالک کے ذریعہ اتارتے ہوئے اس کی تاریخ ہی بدل ڈالی- اس “سانحہ” کے بعد کی جانے والی پریس کانفرنس میں ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ جب اچانک پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو میری دادی آلو پالک پکا رہی تھی اور اعلان سنتے ہی وہ آلو پالک والی ہانڈی ادھوری چھوڑ کر پاکستان آ گئیں – اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ آج سے تقریباً 74 سال پہلے اگست کے مہینے کی 14 تاریخ کو پالک کہاں سے آ گئی؟-یاد رہے کہ پنجاب کے آبپاش علاقوں کے علاوہ بارانی علاقوں میں مون سون سیز ن کے بعد (یعنی جولائی اگست کے بعد) وتر حالت میں پالک کی کاشت کی جاتی ہے- پالک کی کاشت کا دوسرا سیزن وسط نومبر سے دسمبر تک کا بھی ہوتا ہے مگر اس موسم میں کاشت ہونے والی فصل صرف ایک ہی کٹائی دیتی ہے کیونکہ بعد میں اس کے پھول نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔جبکہ جولائی کے آخری ہفتہ سے لے کر وسط اگست تک کاشت کی ہوئی پالک کی فصل 7 کٹائیاں دینے کے ساتھ ساتھ بہترین پیداوار بھی دیتی ہے لہٰذا پنجاب بھر میں کاشتکارر 15 سے 16 کلوگرام بیج فی ایکڑ بذریعہ ڈرل کاشت سے پالک کاشت کرتے ہیں- جس موسم میں کوئی فصل کاشت کی جاتی ہے، اس موسم میں اس کا موجود ہونا بعد از قیاس ہے- قیام پاکستان کے زمانہ میں تو تو کولڈ سٹوریج بھی نہیں تھے کہ ہم یہ کہتے کہ ڈاکٹر شہباز گل کی محترم دادی نے پالک وہاں سے منگوا لی ہو گی-

دوسرا سوال یہ ہے کہ پاکستان بننے کا اعلان تو رات 11 بجے کے لگ بھگ ہوا تھا- اس آدھی رات کو ڈاکٹر شہباز گل کی دادی اماں کس خوشی میں آلو پالک پکا رہی تھیں؟- گاؤں، دیہاتوں کیا اس زمانہ میں تو شہروں کے لوگ بھی مغرب اور عشاء کے درمیان تک کھانا کھا لیتے تھے- اتنی رات گئے کھانا پکانے کا دوسرا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر شہباز گل کے دادا کے یہاں کوئی مہمان رات گئے پہنچے ہوں گے اور ان کی دادی اماں نے ان کی خاطر مدارت کے لئے لو پاک کی سبزی چڑھائی ہو گی- مگر اسی پریس کانفرنس میں ڈاکٹر شہباز گل یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان کی دادی اماں نے وہ ہانڈی وہیں چھوڑی اور پاکستان کے لئے نکل پڑیں- یعنی رات گئے پہنچے والے مہمان بھوکے ہی رہ گئے- ایک اور بات بھی واضح ہوئی کہ ڈاکٹر شہباز گل کے دادا کے یہاں مہمانوں کو دال سبزی ہی پیش کی جاتی تھی اور ان کے گھر میں موجود مرغیاں اور بھیڑ بکریاں کسی اور مقصد کے لئے استعمال ہوا کرتی ہوں گی- ڈاکٹر شہباز گل کے یہاں ڈچکوٹ فیصل آباد میں واقع 7 گاؤں میں آباد جٹ گل برادی کے پاس اگر مہمان جانا ہو تو ہمارا مشورہ ہے کہ یہ سوچ کر تشریف لے جائیں کہ وہ مہمانوں کی تواضح دال سبزی اور خصوصاً آلو پالک سے کیا کرتے ہیں- اگر ان کے یہاں جانے والے مہمان مرغی یا مٹن کھانے کی توقع رکھے بیٹھے ہیں تو یہ خواہش پوری ہونے کے امکانات نہیں ہیں-

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر شہباز گل کی طرف سے ان کی دادی اماں کی جانب سے اگست کے مہینہ میں آلو پالک پکائے جانے کی درفنطنی سن کر یہ احساس ہو رہا ہے کہ شاید پاکستان کے جھنڈے میں سبز رنگ اسی پالک کی وجہ سے ہے جو ان کی دادی پکا رہی تھیں- لیکن ہمارے قومی جھنڈے میں یہ سفید رنگ کہا  سے آیا؟ کہیں یہ پالک میں ڈالی گئی سفید مکھن کی نشانی تو نہیں- مولا خوش رکھے ڈاکٹر شہباز گل اور تحریک انصاف کے لیڈروں و کارکنوں نے تو سرعام جھوٹ بولنے اور گپیں مارنے میں ڈاکٹر گوئبلز اور شیخ چلی کو بھی کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے- ڈاکٹر شہباز گل نے ملائیشیا کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور مختلف بین الاقوامی اداروں میں بطور وزٹنگ پروفیسر خدمات سرانجام دیں۔مختلف اداروں کی ویب سائٹس کے مطابق ڈاکٹر شہباز گل انٹرنیشنل مارکیٹنگ اور انٹرنیشنل بزنس کے مضامین پر عبور رکھتے ہیں۔ مارکیٹنگ اور بزنس میں فی زمانہ رائج رسوم میں خوب جھوٹ بولا جاتا ہے- اپنی پراڈکٹ کو خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے- اس لئے اپنی اسی تربیت کی بنیاد پر ڈاکٹر شہباز گل کے پاس شاید یہ فن موجود ہے کہ وہ تحریک انصاف کی انتہائی بری کارکردگی کو بھی اپنی چرب زبانی سے ایسے پیش کرتے ہیں کہ جیسے یہ دنیا کی سب سے اچھی سیاسی جماعت ہے اور اس کے جیسی بہترین کارکردگی پاکستان کیا دنیا بھر میں بھی کوئی نہیں دکھا سکتا- ہمارا اس ضمن میں مشورہ ہے کہ جھوٹ بولئے لیکن ایسا جھوٹ نہ بولا کریں کہ وہ ناممکنات میں سے ہو-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply