پاکستان میں کرونا کی تیسری لہر۔۔محمد منیب خان

کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد کے اتار چڑھاؤ کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں ایک بار پھر وائرس سے متاثرہلوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ وائرس کا تیسرا دور چل رہا ہے۔ ابتدا میں کرونا وائرس صرف پاکستان پہ حملہ آور نہیں ہوا تھا بلکہ یہ چند ہی ماہ میں چین سے ساری دنیا میں منتقل ہو گیا تھا۔ سب ملکوں نے فی الفور ایسےاقدامات اٹھائے جس سے ایک طرف فوری طور پہ وائرس کے پھیلاؤ کو حتی الامکان کم کیا جا سکے اور دوسری طرف زندگی کو رواں دواں رکھنے کی سعی کی جائے۔ دنیا یہ سب کرنے میں کس طرح اور کتنا کامیاب ہوئی یہ سوال دنیا کے سوچنے کا ہے۔ میرے سوچنےکی بات تو یہ ہے کہ عالمی وبا کے دوران میری حکومت نے کیا اقدامات اٹھائے اور میرے ملک کا شہری کن حالات کا سامنا کرتا رہا؟

کرونا وائرس پاکستان میں سب سے پہلے ۲۸ فروری ۲۰۲۰ کو دو لوگوں میں پایا گیا۔ اس کے بعد ایک سلسلہ چل نکلا۔ صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کی لاک ڈاؤن پالیسیوں کی آنکھ مچولی چلتی رہی۔ ایسے نازک موقع پہ صوبوں اور بالخصوص صوبہ سندھ اور وفاق کے درمیان کرونا کی پالیسیوں سے متعلق رسہ کشی بدمزگی پیدا کرتی رہی۔ وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر کےشہریوں کو جہاں یکسر مختلف حالات کا سامنا کرنا پڑا وہاں دنیا بھر کے ملک پہلے حملے کے بعد ہی ایسی پالیسیاں مرتب کرنے لگےجن سے نئی نارمل زندگی کا آغاز ہوا۔ البتہ پاکستان میں ہر سطح پہ وائرس بارے طرح طرح کے شبہات کی باز گشت سنائی دیتی رہی۔ وائرس کے پہلے حملے میں جس وقت لوگوں نے ارد گرد کے حالات کو دیکھ کر سنگینی کا اندازہ لگانا شروع ہی کیا تھا کہ واہرسکی پہلی لہر کے بعد سے کیسسز میں کمی آنا شروع ہوئی۔ یہی وہ لمحہ تھا کہ وائرس کے وجود پہ شک کرنے والی عوام یکدم وائرس کے وجود سے مکمل انکار کرنے لگی۔ تصور کریں کہ سامنے شیر منہ کھولے مجھے کھانے کو تیار ہو اور میں شیر کے وجود کو محض اس لیے وہم کہہ دوں کہ وہ درخت کی اوٹ میں چھپا ہے تو کون ہوگا جو میرے پاگل پن پہ شک نہ کرے گا۔

پاکستان میں پہلے حملے کے بعد وائرس جیسے تیسے کنڑول ہوا سو ہوا، البتہ دنیا بھر میں چند ماہ کی تحقیق اور تجربہ سے یہ بات سامنے آئی کہ وائرس کے پھیلاؤ میں سب سے کارگر ایک طرف تو سماجی فاصلے کو برقرار رکھنا اور زیادہ سے زیادہ  ٹیسٹنگ کرکے متاثرہ اور  مشتبہ  متاثرہ مریضوں کو الگ کر نا ہے۔ جبکہ دوسری طرف صحت مند لوگوں کے بارے میں بھی پُر یقین رہنا ہے کہ وہ وائرس سے مسلسل محفوظ ہیں۔ وائرس کے حملے کے بعد جہاں بعض لوگوں کو شدید علامات ظاہر ہوتی ہیں وہاں بعض لوگوں کومعمولی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں جبکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو کوئی علامت ہی ظاہر نہ ہو۔ یہی بات اس وائرس کےپھیلاؤ کو بڑھاتی ہے اور اس کو خطرناک بناتی ہے۔ لہذا اس کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کے ٹیسٹ کیے جائیں۔

افسوس کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ایس او پیز کی دھجیاں بکھیری گئی۔ ایک سال مکمل ہونے کے باوجود ٹیسٹنگ کی استعداد خاطر خواہ نہیں بڑھائی جا سکی۔ پاکستان میں وائرس کے ایک سال گزر جانے کے باجود کسی ایک دن پچاس ہزار ٹیسٹ بھی نہیں کیے جا سکے۔ پاکستان میں اگر یومیہ پچاس ہزار ٹیسٹ بھی ہوں تو یہ آبادی کا محض 0.02 فیصد بنتا ہے۔ 14 مارچ 2021 کو پاکستان میں 44061 ٹیسٹ ہوئے جس میں سے 2253 کیسسز مثبت آئے جو کہ تقریباً پانچ فیصد سے زائد بنتا ہے۔ ان ٹیسٹوں میں اچھی خاصی تعداد محض بیرون ملک سفر کرنے والوں کی ہوتی ہے۔

لہذا یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں ٹیسٹنگ ناکافی ہو رہی ہے۔ گلوبل چینج ڈیٹا لیب کے مطابق پاکستان میں 182 ٹیسٹ فیدس لاکھ آبادی ہو رہے ہیں جبکہ انڈیا میں 552، سری لنکا میں 487، ایران میں 730 اور عراق میں 976 ٹیسٹ فی دس لاکھ آبادی ہورہے ہیں۔ فلپائن جیسے سینکڑوں جزیروں پہ مشتمل ملک میں بھی 335 ٹیسٹ فی دس لاکھ آبادی ہو رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف نجی لیباٹریاں اس وقت ایک ٹیسٹ کا ساڑھے چھ ہزار سے نو ہزار  وصول کر رہی ہے۔ حکومت نے ایک سال گزرنے کے باجود نجی لیباٹریوںسے ٹیسٹ کی قیمت کم کروانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ایک آدمی جو ماہانہ بیس ہزار کماتا ہو وہ وائرس کا شکار ہونے پہ کیوں اور کیسے اتنا مہنگا ٹیسٹ کروائے گا؟ لہذا عوام کے ایک بڑے طبقے کے لیے وائرس کے وجود سے انکار کر کے اندر کے خوف کو کم کرنا قابل فہم ہے۔ ایک طرف حکومت خود ناکافی ٹیسٹنگ کر رہی ہے اور دوسری طرف نجی لیباٹریوں کی ٹیسٹ کی قیمت پاکستان کیآبادی کے بڑے حصے کی دسترس سے ہی باہر ہے۔ تو ایسے میں وائرس کا تیسرا وار تو چھوڑیں یہ دیکھیں کہ خدانخواستہ ابھی جانے کتنے اور وار ہوں گے۔

ہر معاشرے کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی ہر المیے اور ہر حادثے سے فائدہ اٹھانے والے لوگ اور ادارے موجود ہیں، لہذا وبا کے دنوں میں نجی لیباٹریوں نے خوب دکان بڑھا لی۔ حکومت کی کووڈ ویب سائٹ پہ بیرون ملک سفر کرنے والوں کے لیے منظور شدہ لیباٹریوں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے لیکن اگر آپ کسی پاکستانی ائیر لائن سے بیرون ملک سفر کرنے لگیں تو وہ ائیر لائن آپ کو مخصوص لیباٹریوں  کے پاس ہی جانے کا کہے گی۔ اس کے پیچھے کیا راز ہے یہ  تو ائیر  لائن جانے یا حکومت اپنی فہرست پہ نظر ثانی کرے۔ البتہ ایک معتبر ترین نجی لیباٹری کا  نام بہت سی منفی  خبروں میں آ رہا ہے۔ شُنید ہے کہ اب غیر ملکی ایئرلائنز اس معروف لیباٹری کےٹیسٹ نتائج کو تسلیم نہیں کر رہیں۔ لیکن چونکہ عام پاکستانی نے کرونا کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرنا لہذا ان لیباٹریوں کے معیاراور ٹیسٹ کی قیمت پہ کوئی کان نہیں دھرتا اور نہ  ہی سوشل میڈیا پہ کوئی توانا آواز اٹھائی جاتی ہے۔ حکومت پاکستان محض چندسو کلومیٹر دوری پہ بھارت کی طرف دیکھ لے اور تحقیق کر لے کہ بھارت میں اس وقت نجی لیبارٹریاں کن نرخوں پہ ٹیسٹ کر رہی ہیں۔

مزید المیہ یہ ہے کہ کرونا کا ایک برس گزر جانے کے بعد بھی پاکستان میں تعلیمی اور سرکاری ادارے اس قابل نہیں ہو سکے کہ وہ آنلائن کلاسیں پڑھانے اور گھروں سے کام کرنے کے عمل کو ترویج دیں۔ سرکاری اداروں کا تو یہ حال ہے کہ اگر کہہ دیا جائے کل سےتیس فیصد ملازمین گھر سے کام کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ  تیس فیصد لوگوں کی چھٹی ہوگی۔ حکومت کے پاس ایک اچھاموقع تھا کہ وہ جلد از جلد وبا کے تناظر میں آن لائن کام اور تعلیم کو فروغ دیتے اور عوام کو کسی طرح نئی طرز زندگی کی طرف لےکر جاتے لیکن افسوس جیسے آج تک ٹیسٹنگ کی استعداد نہیں بڑھائی جا سکی، جیسے ٹیسٹ کی قیمت کو کم نہیں کیا جا سکاویسے ہی اس سلسلے میں بھی کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہوئی۔

اب ہم وائرس کا پہلا عرس منا کر عین اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں پہلے دن تھے۔ طلبا چھ ماہ پہلے ہی ضائع ہو چکے ہیں مزید چھ ماہ ضائع ہو نے کا خدشہ پھر سے محسوس ہو رہا ہے۔ شادی تقریبات، دکانیں پارک پھر سے جلدی بند کرنے کی صدائیں آ رہی ہیں۔ لیکن کیا یہ کارگر ہو گا؟ چند دن مزید اسی لڑائی میں گزر جائیں گے۔ کیسسز کم ہوں اور پھر حکومت سب کچھ کھول دے گی۔ لیکن یہ علاج نہیں ہے۔ علاج یہ تھا کہ ایک سال میں ہم کرونا ٹیسٹ کی استعداد بڑھا کر ایک سے ڈیڑھ لاکھ ٹیسٹ روزانہ تک لے جاتے۔ محض ٹیسٹ کی استعداد بڑھا کر اس شعبے میں ہزاروں نئی نوکریاں پیدا کی جا سکتی تھیں۔ دوسری طرف حکومت کو چاہیے تھا کہ نجی لیباٹریوں کو ایک مخصوص منافع تک محدود رکھتی تاکہ ہر بندا ٹیسٹ کروانے سے پہلے جیب نہ دیکھتا۔ تیسرا اور سب سے اہم کامحکومت ملک میں سماجی فاصلے کے قانون پہ سختی سے عمل درآمد کرواتی تو شاید ہم ایک بار پھر لاک ڈاؤن کی طرف نہ جاتے۔

دوسری طرف چھوٹے بڑے نجی اور سرکاری سکولوں کو چاہیے تھا کہ آن لائن کلاسز کا اجرا کرتی۔ گذشتہ سال بچوں نے تقریباً بغیرپڑھے گھروں میں گزارا جبکہ وہ اس قیمتی وقت کو استعمال کر سکتے تھے دوسرا سب سکولوں کو چاہیے کہ دنیا سے سبق سیکھتے،ساری دنیا آن لائن امتخانات لے رہی ہے لیکن پاکستان میں اچھے اچھے سکول ابھی اس سطح تک نہیں پہنچے۔ ممکن ہے سکولوں بارے گزارشات محض بڑے شہروں تک تو قابل عمل ہوں جبکہ گاؤں دیہات میں ایسا ممکن نہ ہو۔ لیکن ایک بات ممکن ہے کہ گاؤں دیہات میں کم از کم سماجی فاصلے کو برقرار رکھنے پہ سختی کر کے زندگی کا پہیہ رواں رکھا جا سکتا تھا۔ آن لائن کلاسز کو سہولت دینےکے لیے حکومت غالب علموں کو سبسڈائز قیمت پہ یا قسطوں پہ لیپ ٹاپ فراہم کرنے کا کوئی طریقہ وضع کر سکتی تھی۔

ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور نہ ہی شاید آگے ہو گا۔ اب تو ویکسین کو درآمد کرنے کے لیے بھی نجی اداروں کو اجازت مل چکی ہے اوراس اجازت کی سب سے کمال بات یہ ہے کہ کابینہ نے ان نجی اداروں کے لیے ویکسین کی کوئی قیمت مقرر نہیں کیا۔ یعنی جیسےلیباٹریوں نے کم مرضی کی ٹیسٹنگ کی قیمت وصول کر کے شبانہ روز ترقی کی ایسے ہی وہ ویکسین بھی اپنی مرضی کے نرخ پہ لگائیں گے۔ لہذا اتنی مہنگی ویکسین تو صرف صاحب حیثیت لوگ ہی لگوا سکیں گے تو پھر عوام کیا کریں؟ تو عوام انتظار کریں جیسےہی حکومت کو چین اور ڈبلیو ایچ او کی طرف سے ویکسین کی خیراتی خوراکیں ملیں گی وہ عوام تک پہنچا دی جائیں۔ البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کس مہینے اور کس سال تک ممکن ہوگا۔ ہندوستان سے اردو کے شاعر اجے سحاب کا ایک شعر نظر سے گزرا جوہمارے حکمرانوں کی چارہ گری پہ صادق آتا ہے۔

چارہ گر سب کے پاس جاتا تھا

Advertisements
julia rana solicitors

صرف بیمار تک نہیں پہنچا

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply