سائنسدان کی نگاہ سے ۔ جمہوریت (4)۔۔وہاراامباکر

ایک تندرست کمیونیٹی کو پھلنے پھولنے کے لئے اصلاح کے مکینزم ضروری ہیں۔ بزرگ، جو نوجوانوں کے اضطراب اور جلد بازی کو روکیں کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں سیکھا ہے کہ کتنی بار وہ غلط تھے۔ اور نوجوان جو پرانی جنریشن کے یقین چیلنج کریں کیونکہ وہ ٹھیک نہیں رہے۔ انسانی معاشروں نے ترقی کی ہے کیونکہ بغاوت اور احترام، دونوں ہی معاشروں اور افراد میں پہنچے ہیں۔ اس وجہ سے ایسے سوشل مکینزم وجود میں آئے ہیں جو ان خاصیتوں کا توازن بناتے ہیں۔ اور اگر یہ اپنا کام کرتے رہیں تو معاشرہ اور کمیونیٹی توانا رہتی ہے۔
سائنس بھی اس سے مختلف نہیں۔ یہ نئے نالج کی دریافت کا فن، ہنر اور پریکٹس ہے جس میں غلطی ڈھونڈنے کا موثر طریقہ بھی ہے۔ یہ ہماری سادہ لوحی اور خودفریبی کی خاصیت پر قابو پانے کا ایک بہت اچھا طریقہ ہے۔
اجتماعی نظام کی طرح سائنسی کمیونیٹی میں بھی نامکمل انفارمیشن کی بنیاد پر نتائج تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ الگ فکر والے دھڑوں کی صورت میں نکلتا ہے جن کا نکتہ نظر مختلف ہو سکتا ہے۔ سوسائٹی، خواہ سائنسی ہو یا کوئی اور، کو اپنے الگ نکتہ نظر اور تنازعات کو حل کرنے کے لئے مکینزم درکار ہیں، جو غلطیاں پکڑ سکیں اور مشکل مسائل کی صورت میں اچھوتے طریقے نکالنے کی اجازت دے سکیں۔ جمہوریت کا مقصد سوسائٹی میں الگ نکتہ نظر کا پرامن طریقے سے معاملہ کروانا ہے۔ سائنس اور جمہوریت دونوں ہماری خودفریبی کی ٹریجڈی کی آگاہی کا نام ہیں۔ دونوں میں امید یہ ہے کہ اصلاح کا عمل وقت کے ساتھ اجتماعی طور پر ہمیں انفرادی دانائی سے بڑھ کر بنا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واپس اصل سوال کی طرف۔ سائنس کیوں اتنے بہترین طریقے سے کام کرتی ہے؟ “سائنسدان ایسی کمیونیٹی بناتے ہیں جو مشترک ایتھکس ڈیفائن کرتی ہیں اور اس کی پابندی کرتی ہیں”۔ سائنس کی کامیابی کسی خاص طریقے، فیکٹ یا تھیوری کی پابندی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایتھکس کی (بڑی حد تک) پابندی سے ہے۔ (بڑے ایتھیکل اصولوں کا ذکر پہلے کی اقساط میں)۔ سائنس بنیادی طور پر ایتھیکل کمیونیٹی ہے۔
لیکن صرف ایتھیکل ہونا کافی نہیں۔ کئی ایتھیکل گروہ اس مقصد کے لئے بنتے ہیں کہ پرانے علم کو بچایا جائے۔ نئے سچ جاننا ان کا مقصد نہیں ہوتا۔ (نظریاتی قدامت پسند گروہ ایسی مثال ہیں)۔ اس لئے ایک اور اضافے کی ضرورت ہے۔ سائنس ایک تخیلاتی کمیونیٹی بھی ہے۔ اس کا مطلب مستقبل کے بارے میں کھلا ذہن اور پروگریس ہونے پر یقین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھلا ذہن نئی چیزوں کی اور ذہن بدلنے کی گنجائش پیدا کرتا ہے۔ اور بہتر مستقبل کی امید کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ بہتر مستقبل کیا ہو گا۔ اور یہ باریک نکتہ ہے۔
نظریاتی قدامت پسند کمیونیٹی بھی بہتر مستقبل کی امید رکھ سکتی ہے لیکن ان کو یقین ہو گا کہ انہیں پہلے سے ہی پتا ہے کہ ایسے مستقبل کا مطلب کیا ہے اور حاصل کیسے کیا جائے گا۔
اس کے مقابلے میں تخیلاتی کمیونیٹی کا یقین اس پر ہے کہ مستقبل ہمارے لئیے سرپرائز رکھتا ہے۔ نئی دریافتوں اور حل کرنے کے نئے مسائل ہوں گے۔ آج کے علم پر faith نہیں بلکہ اس کے ممبران بہتر مستقبل پر وقت، عقل اور محنت کی سرمایہ کاری کریں گے اور توقع رکھیں گے کہ آئندہ کی جنریشن کو انفرادی اور اجتماعی فکر کے اوزار اور ایتھکس منتقل کی جائیں گی جن سے یہ نسلیں ان مسائل کو حل کریں گی اور ان مواقع سے فائدہ اٹھائیں گی، جو آج ہمارے لئے ناقابلِ تصور ہیں۔
اچھا استاد ہو یا اچھا سائنسدان ۔۔ یہ توقع رکھتا ہے کہ اس کے طلباء اس سے زیادہ آگے جائیں گے۔ اچھا سائنسدان جانتا ہے کہ جب بھی وہ موقع آ گیا، جب اسے یقین ہو گیا کہ اسے اپنے بہترین طلباء سے زیادہ علم ہو گا تو پھر ایسی فیتھ کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ سائنسدان نہیں رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تعریف سے یہ واضح ہو چکا ہو گا کہ سائنس ہو یا کوئی بھی اور انسانی ایکٹیویٹی، پروگریس میں تنازعہ لازم ہے۔ اگر ایویڈنس اتنا ہے کہ اتفاقِ رائے ہو سکتا ہے تو پھر یہ ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر، کمیونیٹی کے نکتہ نظر میں وسعت ضروری ہے۔ ایک غلط فہمی ہے کہ تھیوریاں ایک کے بعد دوسری پیش کی جاتی ہیں اور ان کو ڈیٹا کے ساتھ ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تھیوری کے مطابق ہی تجربات ڈیزائن کئے جاتے ہیں۔ مقابلے میں تھیوریاں تیزرفتار ترقی کے لئے ضروری اس لئے ہیں کہ ایسا نہ ہو تو پھر اس تھیوری کے انٹلکچوئل پھندے میں پھنس جائیں گے۔ مقابلے میں تھیوریاں ایک ہی ایویڈنس سے مقابلہ کریں تو پھر سمت جلد متعین کی جا سکتی ہے۔
اس وجہ سے اتفاقِ رائے کا جلد ہو جانا سائنس کے لئے خطرہ ہے۔ شواہد جتنی اجازت دیں، اتنا غیرمتفق ہونا ضروری ہے۔ سوسائٹی کو اور سائنس کو تنازعہ زندہ رکھتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ بھلا ایسا بھی کبھی ہوا ہے کہ کسی سائنسدان نے تسلیم کیا ہو کہ اس کا خیال غلط تھا؟ کبھی بھی ایسا ہوا ہے کہ کسی نے اپنے پیپر کے دفاع میں نکالی غلطی کے بعد ذہن بدل لیا ہو؟ آپ کا اعتراض غلط نہیں لیکن طویل مدت میں سائنسدانوں کی بڑی تعداد روایتی یا فیشن ایبل خیالات کی پروموشن کے باوجود غلط خیالات سے دوری اختیار کر لیتی ہے۔ بڑی تعداد میں ایتھکس کی پرواہ کی جاتی ہے۔ وقت یہاں پر اہم فیکٹر ہے۔ یہ اچانک نہیں ہوتا۔ لیکن خیالات کی پروگریس اصل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس میں پروگریس کا انحصار اسی پر ہے جس پر ہماری کسی بھی ایکٹیویٹی کا۔ یعنی کرنے والوں کا کردار اور جرات۔ چونکہ یہ نامکمل انفارمیشن سے نتائج اخذ کرنے والا کام ہے تو کوئی بھی پہلے سے یہ نہیں بتا سکتا کہ کونسے راستے پر برسوں کھپا دینا وقت کا ضیاع ہو گا۔ کونسا راستہ کامیابی کی ضمانت ہے۔ ہم زیادہ قابلِ اعتبار نتائج پر پہنچنے کے اوزار استعمال کرنے کا فن سیکھتے ہیں۔ اگلی نسل کو منتقل کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہم سے زیادہ کامیاب ہوں گے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply