مجھے کورونا ہو گیا ہے۔۔آغر ندیم سحر

اس وقت جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں‘مجھے کرونا کا شکار ہوئے پورے سات دن ہو گئے ہیں۔شروع کے دو سے تین دن خاصے مشکل تھے‘بخار اور جسم درد نے بستر سے لگا دیا مگر چوتھے دن کے بعد صحت ٹھیک ہونا شروع ہوگئی۔ پہلے چند دن تو میں نے اس بخار اور درد کو نارمل سمجھا مگر کچھ خیرخواہ دوستوں کے مشورے سے گیارہ مارچ کو کورونا ٹیسٹ کروایا جو پوزیٹو آ گیا اور یوں میں نے خود کو آئسولیٹ کر لیا۔اب ایک ہفتہ ہو گیا ہے‘بند کمرے میں زندگی کے شب و روز گزار رہا ہوں۔صبح نماز کے لیے اٹھتا ہوں‘نماز کے بعد تلاوت اور کمرے میں ہی مارننگ واک کرتا ہوں۔دس بجے کے قریب عزیز دوست عمران دستی ناشتہ پہنچا دیتا ہوں اور یوں ناشتے کے بعد کتابیں پڑھتا ہوں‘ٹی وی دیکھتاہوں‘نماز کے اوقات میں عبادت کرتا ہوں‘مختلف این جی اوز کے ساتھ آن لائن سیشنز کر رہا ہوں‘دوستوں سے فون پر گپ شپ کر رہا ہوں اور یوں دن گزر رہے ہیں۔

ڈاکٹر فخر عباس اور ڈاکٹر احسن شہزاد سے طبی مشاورت جاری ہے‘یہ دونوں شاعر دوست انتہائی خلوص کے ساتھ میرا علاج کر رہے ہیں اور بہترین مشوروں سے نواز رہے ہیں۔ پروفیسرانعام اللہ خان انگریزی ادب کے استاد ہیں‘مسلسل رابطے میں ہیں اور انگریزی ناولوں کے ملخص اور انگریزی شاعری سنا رہے ہیں۔دعائیں کرنے والوں کے پیغامات بھی مل رہے ہیں جس پر ان سب دوستوں اور محبت کرنے والوں کا ممنون ہوں۔میرے کولیگز اور میرے سینکڑوں شاگرد بھی دعائیں کر رہے ہیں‘سب کا شکریہ اور سب کے لیے نیک تمنائیں۔سید آصف ریاض شاہ گھر کی یخنی اور دیسی سوپ پہنچانے کی ذمہ داری بطریقِ احسن نبھا رہے ہیں‘ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے لفظ نہیں۔

اس کالم کے توسط سے اپنے قارئین سے دست بستہ گزارش کر رہا ہوں کہ کورونا کی تیسری لہر نے پورے ملک کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے‘ایک اندازے کے مطابق صرف لاہور میں کورونا کے تریسٹھ ہزار مریض موجود ہیں‘ہسپتالوں میں ایک دفعہ بھی جگہ نہیں مل رہی‘مارکیٹیں اور تعلیمی ادارے دوبارہ بند کر دیے گئے ہیں‘تجارت کے شعبے دوبارہ خسارے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ایسی صورت حال میں ہمیں ایک دفعہ پھر ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینا ہے اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کا خیال رکھنا ہے۔کورونا کی یہ تیسری لہر پہلی دونوں لہروں سے زیادہ خطرناک ہے اور اب کورونا کا رخ چھوٹے شہروں اور قصبوں کی طرف بھی ہو گیا ہے۔ایک طبی رپورٹ کے مطابق ہر دسواں شخص اس وبا کا شکار لازمی ہوگا‘کسی کو زیادہ شدید ہوگا تو کسی پر اس کے اثرات کم ہوں گے لیکن یہ تیسری لہر ہر دسویں شخص کو اپنی لپیٹ میں لازمی لے گی۔اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد جس شخص کو بھی فون کیا‘اس کے گھر میں یا ارد گرد پانچ سات لوگ بخاریا نزلہ زکام کا شکار نظر آئے‘پھر مذکورہ طبی رپورٹ میں کچھ جان نظر آئی۔

پاکستان میں کورونا آئے پورا ایک سال گزر گیا‘گزشتہ پندرہ مارچ کو لاک ڈان شرو ع ہوا تھا اور اب دوبارہ پندرہ مارچ آ گیا۔ایک سال گزر گیا اور ایک سال میں کورونا کی یہ تیسری لہر بھگت رہے ہیں۔افسوس تب ہوتا ہے جب اتنی نازک صورت حال میں بھی لوگوں نے کورونا کو مذاق سمجھا‘آپ آج بھی مارکیٹوں اور گلیوں محلوں کا رخ کریں‘نوے فیصد لوگ آپ کو بغیر ماسک اور بغیر ایس او پیز کے نظر آئیں گے۔دھڑا دھڑ لوگ اس وبا کا شکار ہو رہے ہیں‘ہسپتال بھر چکے ہیں‘حکومت شور ڈال رہی ہے کہ خود کو آئسولیٹ رکھیں‘بغیر وجہ کے گھروں سے باہر نہ نکلیں مگر پاکستانی عوام ابھی تک یہی سمجھ رہی ہے کہ کورونا نہیں ہے‘عمران خان قرضے معاف کروانا چاہتا ہے۔تیسری لہر میں حکومت نے سمارٹ لاک ڈاؤن کا اعلان کیا‘تاجر سڑکوں پر نکل آئے ہیں‘تعلیمی ادارے بند ہوئے تو پرائیویٹ ادارہ مالکان سڑکوں پر نکل آئے۔کیا سڑکوں پر نکلنا ہی مسئلے کا حل ہے؟۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک صوبائی وزیر کی آڈیو کال لیک ہوئی جس میں وہ محترمہ کسی ساتھی وزیر کو بتا رہی ہے کہ ہم لوگوں سے چھپا رہے ہیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ صرف لاہور میں لاکھ کے قریب مریض ہو چکے۔اگر یہ ٹیپ سچ ہے اور ایسا ہی ہے تو افسوس ناک صورت حال ہے اور لاہور کے بیس علاقوں میں لاک ڈون لگ چکا‘جو باقی بچ گئے وہاں بھی کچھ دن میں لاک دون لگ جائے گا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں جلد از جلد خود کو گھروں میں قید کرنا ہوگا۔بلا وجہ گھروں سے نکلنے کی عادت کو کنٹرول کرنا ہوگا کیونکہ پندرہ یا سولہ اپریل سے دوبارہ رمضان شروع ہو رہا ہے اور حالات گزشتہ رمضان سے کچھ مختلف نہیں لگ رہے۔ایسے میں ہمیں ذمہ دار شہری بننے کی ضرورت ہے اور موجودہ سنگین صورت حال سے خود کو بچانا ہوگا۔کورونا واقعی کہ سخت وبا ہے‘جو اس کا شکار ہوتا ہے‘اس کی سنگینی وہی بہتر بتا سکتا ہے۔پاکستان بھر میں دو لاکھ سے زائد ایکٹیو کیسز بتائے جا رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے مریض ہیں جن کی حالت تشویش ناک ہے سو ایسے میں ہٹ دھرمی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے پیاروں کی جان بچانا ضروری ہے۔تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے مگر والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بچوں کو کتابوں سے جوڑے رکھیں‘کوئی بھی استاد یا ادارہ مالکان یہ نہیں چاہتے کہ تعلیمی ادارے بند ہوں مگر حالات کی سنگینی کے پیش نظر یہ فیصلہ ہوا اور ہمیں اس کو تسلیم کرنا چاہیے۔اگرچہ تعلیم بہت ضروری ہے مگر بچوں کی جانیں‘تعلیم سے زیادہ ضروری ہیں۔حکومت کے پاس کورونا کی درست رپورٹس موجود ہیں‘تبھی یہ فیصلہ کرنا پڑا۔اس کالم کے توسط سے میری اپنے قارئین سے گزارش ہے کہ میری صحت یابی کے لیے بھی دعا کریں‘اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو اس وبا سے محفوظ رکھے اور اس امتحان میں ہمیں سرخرو فرمائے۔آمین

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply