پچھلے ایک ہفتے میں یمن کی جنگ نے نئی صورتحال اختیار کر لی ہے۔ حوثی فورسز نے ایک دن میں چودہ میزائل اور اٹھارہ ڈرونز حملے کیے ہیں۔ تیل کا حب سمجھے جانے والی تنصیبات پر حملے کیے گئے ہیں۔ یہ حملے خمیس، جزان، راستنورا شہروں پر کیے گئے۔ راستنورا میں آٹھ مارچ کو ہونے والا حملہ دنیا کی سب سے بڑی تیل کی سپلائی لائن پر حملہ تھا۔ اس پر سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ دنیا کی اکانومی پر حملہ ہے۔ اس حملے سے تیل کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں۔ ان حملوں کی ویڈیوز بڑے پیمانے پر سعودی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ سعودی اداروں نے ان ویڈیوز کے شیئر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ایسی ویڈیوز سعودی معاشرے میں عام لوگوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا کر رہی ہیں۔ ابھی چند سال پہلے جب سعودی عرب نے یمنی عوام پر بے تحاشہ بمباری شروع کی تو یہ کسی کے تصور میں بھی نہ تھا کہ چند سال بعد ہی صورتحال اس قدر تبدیل ہو جائے گی کہ اتنے اہم سعودی شہر حملوں کی زد میں ہوں گے۔ یمن میں شادیوں پر حملے ہوئے، سکولوں کو تاراج کیا گیا، عوامی مقامات اور جنازوں تک پر حملے کیے اور تو اور گھوڑوں کے اصطبل پر بھی حملے کیے۔ صنعا تو قریب قریب تباہ کر دیا گیا ہے۔
امریکہ نے پہلے سعودی عرب کو اس جنگ میں بری طرح دھکیلا، اربوں ڈالر کا اسلحہ بیچا، اس وقت دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے نام پر دنیا بھر کی واہ واہ سمیٹی۔ اب وقت تبدیل ہوا تو پہلے سعودی عرب کی یمن جنگ سے علیحدگی اختیار کی گئی اور اب امریکہ انسانی حقوق کا چمپئن بھی بن جائے گا کہ اس نے جنگ روکنے کے لیے اسلحہ کی فروخت بند کر دی ہے۔ کہتے ہیں نہ سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔ محمد بن سلمان کی رفتار کافی تیز تھی اور نوجوانی میں وہ بہت سے متنازع فیصلے کر رہے تھے۔ امریکہ نے بڑے طریقے سے خاشقچی کے قتل کے مدعا میں ان کو ملوث کیا۔ سی آئی اے نے اپنی رپورٹ محمد بن سلمان کے خلاف بنائی اور نئے امریکی صدر نے محمد بن سلمان سے بات کرنے سے انکار کر دیا اور ڈائریکٹ شاہ سلمان سے بات چیت کی۔ امریکہ سعودیہ کو دباو میں لا رہا ہے، تاکہ من مانے معاہدے کرسکے۔ صدر ٹرمپ نے جاتے جاتے سعودی عرب پر یہ احسان کیا تھا کہ حوثیوں کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا تھا مگر جو بائیڈن نے آتے ہی اس اقدام کو ختم کر دیا۔ امریکہ نے سعودی عرب کو کہا کہ جنگ بند اور پرامن مذاکرات کریں۔
یمن میں مآرب کے لیے جنگ جاری ہے۔ منصور ہادی گورنمنٹ کے لیے یہ علاقہ انتہائی اہم ہے، تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ منصور ہادی کی فورسز نے بھی حملے بڑھا دیئے ہیں، حوثی اور یمن کی فوج بھی مسلسل علاقے میں اپنی طاقت میں اضافہ کر رہی ہے۔ دونوں طرف یہ احساس پایا جا رہا ہے کہ مآرب کی جنگ کا فاتح ہی یمن کا حکمران ہوگا اور وہی یمن کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ جیسے جیسے جنگ میں شدت آرہی ہے، سعودی اتحادی ہاتھ پاوں مار رہے ہیں۔ ترکی اخوان المسلمین کی یمن میں اصلاح پارٹی کے ذریعے بڑا اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ اب اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب نے ترکی کے ذریعے اصلاح پارٹی کو بھی منصور ہادی فورسز کی حمایت میں اتارنے کی اپیل کی ہے۔ ترکی ڈرونز اور افرادی قوت کے ذریعے منصور ہادی فورسز کی حمایت کرے گا۔ جمال خاشقچی کے قتل کے بعد ترکی اور سعودی عرب کے تعلقات بہت خراب ہوگئے تھے۔
یہ تعلقات مصر میں مرسی کی اخوان المسلمین کی حکومت کے خاتمے سے ہی کشیدہ چلے آرہے تھے۔ ترکی نے اس قتل کو اپنی قومی خود مختاری کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا تھا۔ یمن میں بھی دونوں ممالک کے مفادات باہمی طور پر متضاد تھے، سعودی عرب اپنے ملک میں اخوان سے متعلق لوگوں پر سختیاں کر رہا ہے، مگر یمن میں شکست سے بچنے کے لیے اخوان سے متعلق عناصر کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے، محمد بن سلمان نے جنگ شروع کرتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہا تھا کہ چند ہفتوں کے اندر ہم یمن کی جنگ میں فتح حاصل کر لیں گے اور حوثیوں کا خاتمہ کر دیں گے۔ اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کی گئی، ایک بڑا فوجی اتحاد تشکیل دیا گیا، دنیا میں فضائی حملوں کے ریکارڈ قائم کیے گئے،مگر اس سب کا نتیجہ کیا نکلا؟ آج اتنے وسائل کو جھونکنے کے بعد بھی صنعا پر حوثیوں کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ منصور عبدالہادی کی فورسز ہر جگہ شکست سے دوچار ہیں، یہ اسلحہ اور بھاری تنخواہوں کے باوجود ہر محاذ پر ہار رہی ہیں۔
حوثیوں کے پاس پہننے کے لیے جوتے نہیں ہیں، کھانا نہیں ہے، ان کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے۔ سمندر اور بارڈر سے کچھ داخل نہیں ہوسکتا اور فضائی ناکہ بندی ہے، پھر بھی وہ طاقتور اور قدرت مند ہیں۔ زمینی حقائق تسلیم کو کرنا ہوگا، خطے کے ممالک پر اپنی من پسند حکومتیں مسلط کرنے کا خواب پرانا ہوچکا ہے، قطر کی ناکہ بندی کرکے آپ نے کیا حاصل کر لیا؟ لبنان کے وزیراعظم کو یرغمال بنا کر لبنان میں آپ نے کون سے مفادات کا تحفظ کر لیا؟ یمن کے عوام کو قحط و باردو سے دوچار کرکے آپ کتنے پرامن ہوگئے؟ پڑوس میں آگ لگا کر اس پر خوش ہونا کہ اس کا گھر جل رہا ہے، پرلے درجے کی حماقت ہے۔ پڑوس میں لگی آگ ایک نہ ایک دن اپنے گھر میں بھی آجاتی ہے۔ یمن میں لگی جنگ کی آگ مزید بھڑک کر خطے کو لپٹ میں لے لے، اسے ختم کرنا ہوگا۔ پرامن زندگی یمنیوں کا حق ہے اور کوئی ان سے یہ حق چھین نہیں سکتا۔ اپنے گھر کو پرامن بنانے کے لیے پڑوسیوں کے گھر کی آگ کو بجھانا ہوگا۔ خطے کے مسائل اس وقت حل ہوں گے، جب خطے کے لوگ مل کر فیصلے کریں گے۔ بیرونی قوتوں کا مفاد جنگ میں ہے، وہ اسے رکنے نہیں دیں گی، خدا عالم اسلام کی خیر کرے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں