کائنات، اک بحرِ بیکراں(2)۔۔محمد نصیر

ہم نظام شمسی کی حدوں سے باہر آ چکے ہیں۔ خلا میں ہمیں صرف ٹمٹماتے ستارے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ ستارے دراصل سورج ہیں۔ اور کئی تو ہمارے سورج سے اربوں کھربوں گنا بڑے ہیں۔ دیکھیں ہم کس طرح انہیں ستارے کہہ کر ان کا سائز اپنے زہن میں بالکل ننھا مُنا سا کر دیتے ہیں۔
زمین پر کسی شاعر کا ایک خوبصورت شعر سنا تھا۔
پاؤں لٹکا کر جانبِ دنیا
آؤ بیٹھیں کسی ستارے پر
یہاں خلا میں اس شعر کی خوبصورتی کچھ ماند سی پڑ گئی۔ کیونکہ ایک حقیقت کھلی کہ ستاروں پر بیٹھ کر زمین کی جسامت کی چیزیں نظر نہیں آتیں۔ ہاں آپ قریب کے سیارے مریخ پر یا زہرہ وغیرہ پر براجمان ہو کر پاپ کارن کھاتے ہوئے زمین کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ خیر شاعر حضرات کو کسی حد کی قید میں نہیں رکھا جا سکتا۔ تخیل کو قید کر کون سکتا ہے۔ شاعروں کا ہم پر ایک بہت بڑا احسان یہ بھی ہے کہ وہ ہمارے ذہنوں کی ایسی تربیت کرتے ہیں کہ ہمارا تخیل کبھی کبھی چھوٹی بڑی چھلانگیں بھی لگا سکے۔ ورنہ مادیت پرستی ہمارے چاروں اطراف میں دیواریں کھڑی کرتی جا رہی ہے۔ اور ہم محض روزی روٹی کی خواہش میں مقیّد ہوتے جا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london


ہمیں سفر کرتے ہوئے ایک سال گزرتا ہے۔ پھر دوسرا، تیسرا اور چوتھا۔ آخر کار ہم پانچویں سال 17 نومبر کو سورج کے قریب ترین ستارے الفاسینٹوری کے پاس سے گزرتے ہیں۔ ہم نے دو سو پچاس کھرب میل سے زیادہ کا سفر طے کر لیا ہے۔ الفاسینٹوری دراصل ایک ستارہ نہیں بلکہ تین ستاروں کا مجموعہ ہے۔ الفاسینٹوری اے، الفاسینٹوری بی اور پروکسیما سینٹوری۔ کافی عرصہ اسے ایک ہی ستارہ مانا گیا۔ جب تک کہ جدید سائنس نے وضاحت نہ کر دی۔ ہمارے اسلام آباد میں تین عمارتوں والی سینٹورس اسی الفا سنٹوری کے نام پر ہے۔ جسے لوگ سینچوریئس بھی کہہ دیتے ہیں اور یہ زرا بھی برا نہیں مانتی جیسے سینٹوریوں نے صدیوں ہماری غلطی کو برداشت کئے رکھا۔ یہ خلائی مخلوقات بہت فراخ دل ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہ اشرف المخلوقات ہونے کے زعم میں مبتلا نہیں۔
اب ہم سورج سے دس نوری سال دور ہیں۔ اور ہمیں ہماری اپنی کہکشاں آکاش گنگا کے ستارے سکڑ کر اکٹھے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسے انگریزی میں مِلکی وے اور اردو میں جادہء شِیر کہتے ہیں۔ مگر مجھے ہندی کا آکاش گنگا پسند ہے۔ کیونکہ اس میں سے کچھ نسوانیت سی ٹپکتی ہے اور تخیل میں رنگ سے بھر جاتے ہیں۔
خلا میں صحیح معنوں میں ہمارا سفر اب شروع ہوتا ہے۔ سو نوری سال گزرنے کے بعد ہمیں ہماری کہکشاں کا نیبولا میٹیریل اور گیس کے بادل بھی دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔ ایک لاکھ نوری سال کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہمیں ہماری کہکشاں کی مکمل سپائرل شکل دکھائی دیتی ہے۔ ہم محوِرقص آکاش گنگا کے گولائی میں گھومے ہوئے بازو دیکھ سکتے ہیں۔ سامنے ملکی وے کے دوسرے کنارے پر اوریئن آرم ہے۔ اس کا جو بادلوں جیسا مواد نظر آ رہا ہے۔ اس میں کہیں بخارات کے زرے جتنا سورج ہے۔ اور اس کے گرد گھومتے زروں میں ہے ہماری زمین۔ زمین پر براعظم ایشیا، پھر چھوٹا سا پاکستان اور پھر اسلام آباد۔ وہاں چھوٹے سے علاقے میں ایک گھر، جس کے ایک کمرے میں پڑا ایک کسی شمار میں نہ آنے والا جسم۔ اس کی موبائل کی سکرین پر ٹائپ کرتی انگلیاں۔ ان کو دیکھتی آنکھیں، آنکھوں کے پیچھے سوچتا، تصویریں بناتا ذہن۔ اور اس ذہن کے وسیع کینوَس پر پھیلی پوری کائنات۔ درحقیقت کائنات کی سب سے عجیب اور پر اسرار چیز یہی انسانی ذہن ہے۔ اپنے ذہن کو تسخیر کر لیں پھر سب کچھ آپ کا ہے۔ ہر چیز آپ کی دسترس میں ہے۔ مگر کیسے؟ جب ہمارا ذہن ہی ہماری دسترس میں نہیں۔ بلکہ ہم اس کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ سوچیں۔۔۔۔ سوچتے جائیں۔ یہی ذہن جواب دے گا۔ یا پھر ذہن ہی جواب دے جائے گا۔
اب ہم پچیس لاکھ نوری سال دور پڑوسی کہکشاں اینڈرومیڈا پر پہنچ چکے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments