مُلتان تا لاہور براستہ موٹر وے۔۔عزیز اللہ خان ایڈوکیٹ

جب سے لاہور سے ملتان موٹر وے کا افتتاح ہوا ہے سفر تو آسان تو ہو گیا ہے مگر دوران سفر قیام وطعام کی مناسب سہولت نہ ہونے سے یہ سفر ایک عذاب سے کم نہیں, پہلے لاہور سے سکھر تک صرف جڑانوالہ کے مقام پر قیام وطعام کی سہولت موجود تھی مگر اب کُچھ اور قیام وطعام بھی بن گئے ہیں، مگر وہاں بھی دوکاندار اپنی مرضی کے ریٹ وصول کرتے ہیں مگر کیا کر سکتے ہیں ہم مجبور پاکستانی۔۔۔ہمیں قیامت تک انہی  حالات میں جینا ہے اور اُف نہیں کرنی کیونکہ ہمارا مذہب بھی ہمیں صبر اور شُکر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

مجھے بھی چار پانچ دفعہ اسی موٹر وے پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے کُچھ دن قبل ایک ضروری کام کے سلسلہ میں ملتان جانا ہوا دو دن گزارنے کے بعد لاہور واپس آنا تھا ،میری ہُنڈا سوک کار 2004 ماڈل کے AC کی بیلٹ آوازیں نکال رہی تھی، میں نے اپنے بیٹے صفی عزیزخان کو کار دیکر بھجوایا کہ مستری کو دکھائے ،کار دکھانے پر معلوم ہوا کہ AC کی کوائل خراب ہے اور بیلٹ بھی تبدیل ہونی ہے کل ملا کر چھ ہزار خرچ ہوگا میں نے باامر مجبوری بیٹے کو کہا بنوا لے، کیونکہ AC کے بغیر ایک کروڑ کی گاڑی بھی بیکار ہوتی ہے۔

یہ مستری لوگ بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں جب بھی آپ ان سے کار کا کام کروائیں آخر میں دو نٹ بولٹ ضرور بچا دیتے ہیں جو اُن کے مطابق کار کے موجد یا کار بنانے والی کمپنی نے غیر ضروری طور پر لگا دیے تھے اور اب ان کی ضرورت نہیں ہے ،وہ نٹ آپ کی کار کے ڈیش بورڈ میں ہمیشہ موجود رہتے اور اُس مستری کی یاد دلاتےرہتے ہیں۔

کار کا اے سی اور دیگر کام کرواتے ہوتے شام ہو گئی تھی کیونکہ لاہور جانا ضروری تھا اس لیے میں نے رات کو سفر کرنے کا فیصلہ کیا،خانیوال پہنچنے  تک اندھیرا ہو چکا تھا جیسے خانیوال موٹر وے انٹر چینج کے قریب پہنچے کار کے دائیں ویل سے زوردار آوازیں آنا شروع ہو گئیں ،میں نے کار روک دی نیچے اُتر کر دیکھا مگر اندھیرے کی وجہ سے کُچھ سمجھ نہ آیا کہ آوازیں کیوں آرہی ہیں ،کار دوبارہ چلانے پر پتا  چلا کہ یہ آوازیں اُس وقت آتی تھیں جب کار کی رفتار تیز ہوتی تھی، رفتار کم ہوتے ہی آوازیں بند ہو جاتی تھیں، میری نصف بہتر بھی میرے ہمراہ تھیں بولیں آپ اس کار کو بیچ کہ کوئی نئی کار کیوں نہیں لے لیتے، اب میں انہیں کیا بتاتا کہ یہ کار بھی میں نے 2004 میں بنک سے قسطوں پر لی تھی اور اب نئی کاروں کی قیمتیں اتنی زیادہ ہو چکی ہیں کہ نئی کار لینا میرے لیے ممکن ہی نہیں، اسی لیے میں نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔

بیگم صاحبہ بولیں ساہیوال والے راستے سے  چلیں تاکہ راستے میں کہیں رُک کرکار کو چیک کرو الیا جائے، مگر میں نے موٹر وے سے جانے کو ترجیح دی، کیونکہ   مجھے پتہ تھا کہ موٹر وے پر موبائل ورکشاپ کی سہولت موجود ہوتی ہے اور میں نے موٹروے پولیس کی فرض شناسی اور ایمانداری کی کہانیاں بھی بُہت سُن رکھی تھیں۔

جیسے ہی میں خانیوال انٹر چینج سے موٹر وے پر آیا اور کار کی رفتار تھوڑی تیز ہوئی تو کار کے دائیں طرف سے دوبارہ خوفناک آوازیں آنا شروع ہو گئیں، میں نے فوری طور پر کار کو موٹروے کی سائیڈ پر روک دیا نیچے اُتر کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ مکینک کار کی شیلڈ کے نٹ لگانا بھول گیا تھا اور وہ شیلڈ کار کے دائیں ٹائر کو لگ کر آواز کر رہی تھی۔

میں نے 130 ایمرجنسی پر کال کی تھوڑی دیر بعد آپریٹر نے فون اٹینڈ کر لیا میں نے اُسے تمام صورت حال سے آگاہ کیا تو آپریٹر نے میری پوزیشن پوچھی ،میں نے اندازے سے بتایا کہ میں خانیوال انٹرچینج سے کُچھ فاصلے پر ہوں آپریٹر بولا سر ہماری موبائل ورکشاپ سے رابطہ نہیں ہو رہا لیکن ہماری موبائل آپ سے پانچ کلومیٹر دور ہے آپ آہستہ آہستہ اُس تک پُنہچ جائیں وہ آپ کی مدد کرے گی۔میں نے کار کو آہستہ آہستہ چلانا شروع کر دیا، پانچ کلو میٹر کا فاصلہ مجھے پانچ سو کلو میٹر لگ رہا تھا بیگم صاحبہ مجھے غصے سے گھور رہی تھیں کہ میں نے موٹر وے سے جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔

اللہ اللہ کر کے مجھے دور سے موٹر وے پولیس موبائل کی چھت پر لگی روشنیاں نظر آئیں تو دل کو تسلی ہوئی میں نے اپنی کار موٹروے پولیس کی گاڑی سے کُچھ فاصلے پر سڑک کے کنارے کھڑی کر دی اور ملازمین کا انتظار کرنے لگا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ موٹر وے پولیس کی ایس او پی ہے کہ وہ خود اُتر کر آپ کی طرف آتے ہیں سفر کرنے والے ڈرائیور کو اُتر کر نہیں جانا پڑتا کیونکہ اس طرح اُترنے سے کوئی حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔

دس منٹ گزر گئے موٹر وے پولیس کی موبائل سے کوئی نہیں اُترا تو مجھے بیگم کی طنزیہ آواز آئی” خان صاحب اب آپ ڈی ایس پی نہیں ہیں” میں شرمندہ سا ہو گیا، کار کا دروازہ کھولا اور نیچے اُتر کر موبائل کے قریب گیا تو مجھے دیکھ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے کانسٹیبل نے شیشہ تھوڑا سا نیچے کیا، میں نے اپنا تعارف کرایا تو کانسٹیبل نیچے اُتر آیا مگر دوسری طرف بیٹھے انسپکٹر صاحب نے نیچے اُترنا گوارہ نہ کیا ،میں نے اپنا مسئلہ بیان کیا تو بولا سر موبائل ورکشاپ تو اب کافی دور ہے یہاں آتے آتے کافی وقت لگ جائے گا آپ آہستہ آہستہ آگے چلے جائیں بیس کلو میٹر پر ورکشاپ موجود ہوگی وہ آپ کی مدد کرے گی اسی دوران انسپکٹر صاحب اپنے موبائل فون پر گیم کھیلتے رہے، مجھے غصہ تو بہت آیا مگر میرے کانوں میں بیگم کی آواز گونجی خان صاحب آپ ریٹائر ہو گئے ہیں، میں نے واپس آکر اپنی کار میں بیٹھنا ہی مناسب سمجھا اور آرام آرام سے دوبارہ گا ڑی چلانے لگا۔

اگلی پیٹرولنگ موبائل ہمیں عبدالحکیم انٹر چینج سے کافی پہلے فیصل آباد جانے والی موٹر وے کے قریب ملی ان کا رویہ بھی پہلی موبائل جیسا ہی تھا۔ مجھے خود ہی اُتر کر جانا پڑا موٹر وے پولیس افسران کا وہی جواب تھا سر ورکشاپ کافی دور ہے آپ آرام آرام سے چلتے جائیں، عبدالحکیم ٹول پلازہ پر ہماری ورکشاپ موجود ہے وہ آپ کی مدد کرے گی میں واپس آکر کار میں بیٹھ گیا اور دس کلو میٹر کی رفتار سے دوبارہ چل پڑا۔

عبدالحکیم ٹول پلازہ کراس کرتے ہی مجھے موٹر وے پولیس کی دوگاڑیاں کھڑی نظر آئیں جن کے قریب انکے افسران بھی موجود تھے اس دفعہ بھی میں نے گاڑی میں بیٹھے رہنے کا رسک نہیں لیا اور خود اُتر کر اُنکے قریب پُہچ کر تعارف کے ساتھ اپنی روداد تیسری بار سنائی، اس دفعہ بھی موٹر وے پولیس کے افسران کا جواب وہی تھا کہ موبائل ورکشاپ آپ کو کُچھ فاصلے پر ملے گی۔۔

اب میں نے بھی اُن سے کوئی بحث کرنا مناسب نہ سمجھا اور خود کو تقدیر کے سہارے چھوڑتے ہو ئے،کار میں آکر بیٹھ گیا آخرکار آدھے گھنٹے بعد مجھے موٹر وے پر ایک موبائل ورکشاپ مل ہی گئی ،جنہوں نے میری گاڑی کو ٹھیک کر دیا، موٹر وے پر آخری جھٹکا مجھے شرقپور انٹر چینج پر لگا جب وہاں گاڑیوں کے  رش کی وجہ سے ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا دریافت پر وہاں موجود NHA کے ایک ملازم نے بتایا کہ ابھی تک ٹکٹ سسٹم کو کمپوٹرائز نہیں کیا گیا اور اس طرح میرا ملتان سے لاہور کا سفر تمام ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس میں کوئی شک نہیں کہ موٹر وے پر سفر کرنے سے وقت کی بچت ہوتی ہے مگر سفر کے دوران قیام و طعام پر دوکانداروں کی من مانیاں اور زیادہ قیمتیں وصول کرنا موٹر وے پولیس کی نااہلی اور انٹر چینج پر گاڑیوں کے گزرنے کے لیے مناسب بوتھ نہ ہونے کی وجہ سے مسافروں کا وقت کا ضیاع ہوتا ہے محکمہ موٹر وے کو اپنے ملازمین کی مناسب تربیت کرنی چاہیے اُنہیں بتانا چاہیے NHA کو بھی یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ دوکاندار قیام طعام پر مسافروں سے بمطابق ریٹ لسٹ قیمت وصول کریں جس انٹر چینج پرزیادہ رش ہو جاتا ہے وہاں زیادہ بوتھ اور ملازمین کا انتظام کریں تاکہ مسافروں کو سفر میں سہولت ہو۔

Facebook Comments