ہمارے لوکل سائنسدان۔۔گل نوخیز اختر

مجھے بہت دکھ ہوتا ہے جب کوئی کہتا ہے کہ ساری ایجادات انگریز کر رہے ہیں، حالانکہ جس قسم کی ایجادات پاکستان میں ہورہی ہیں ایسی انگریزوں کا باپ بھی نہیں کر سکتا۔ الحمدللہ ہمارے ہاں چٹے ان پڑھ لوگ بھی ایسی کمال کی چیزیں ایجاد کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔دنیا بھر میں ہلدی سالن میں ڈالی جاتی ہے یا زخموں پر لگائی جاتی ہے لیکن ہم وہ واحد جینئس لوگ ہیں جو ہلدی کے ذریعے گاڑی کے ریڈی ایٹر کی لیکج بھی کنٹرول کرلیتے ہیں۔ویٹ لفٹنگ کے شوقین افراد کے لیے دنیا بھر میں ایسے ویٹ بنائے جاتے ہیں جن کے دونوں کناروں پر لوہے کی پلیٹیں لگی ہوئی ہوتی ہیں، ہمارے ہاں اس کا سستا ترین طریقہ یہ ہے کہ لکڑی یا لوہے کا کوئی مضبوط ڈنڈا لے کر اس کے دونوں کنارے گھی کے خالی ڈبوں میں ڈال کر ڈبوں کو سیمنٹ اور بجری سے بھر دیں، لیجئے ویٹ لفٹر تیار ہے۔فریج کے دروازے کا ربڑ خراب ہوجائے اور دروازہ ٹھیک سے بند نہ ہو رہا ہو تو اس کا حل بھی پاکستانیوں نے نکال لیا ہے، دروازے کے باہر والی طرف بچوں کے سینڈلوں والی ”چپ“ لگا دیں۔دروازہ بہترین طریقے سے کام کرنے لگے گا۔شیمپو اور کنڈیشنر بالوں میں چمک پیدا کرتے ہیں لیکن کل ایک دوست نے ان کا نیا استعمال بتایا جسے میں آزماچکا ہوں اور رزلٹ نہایت شاندار نکلے ہیں۔ گاڑی کو سرف کی بجائے شیمپو سے دھوئیں اور بعد میں اس پرپالش کی بجائے کنڈیشنر لگائیں تو گاڑی نہ صرف چمک اٹھے گی بلکہ ایسی ملائم ہوجائے گی کہ جگہ جگہ ہاتھ پھیرنے کو دل کرے گا۔شادی سے پہلے جس فلیٹ میں ہم ”چھڑے“ رہتے تھے وہاں دو کمرے تھے اور ایئر کولر ایک تھا، ہم چاہتے تھے کہ دونوں کمرے میں ہوا جائے، اس کا طریقہ ایک دوست نے یہ نکالا کہ اپنی ایک شلوار کولر کے پنکھے کے آگے باندھ دی، کولر چلتا تھا تو دونوں پائنچوں میں ہوابھرجاتی تھی اور دونوں کمرے فیض یاب ہوجاتے تھے۔بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اس لحاظ سے پاکستانیوں کو ایجاد کا باپ کہنا چاہیے۔ کولڈ ڈرنکس کی پلاسٹک کی خالی بوتلوں کا استعمال جتنا اچھا ہمارے ہاں ہوتاہے شائد ہی کہیں ہوتا ہو۔ چھوٹے ہوٹلوں کے باتھ رومز میں یہی بوتلیں بطور لوٹا استعمال ہوتی ہیں۔بوتل کا اوپر والا تنگ سِرا کاٹ دیا جائے تو اس سے گملے کا کام بھی لیا جاسکتا ہے۔میرے ایک محلے دار نے ایسی ہی ایک ڈیڑھ لٹر کی بوتل ”ڈور کلوزر“ کے طور پرمٹی بھر کے دروازے کے ساتھ لٹکا رکھی ہے، جونہی دروازہ کھلتا ہے، بوتل کے زور سے خودبخود بند ہوجاتاہے۔ایک سائنسی دماغ کے صاحب نے پونے دو لٹر کی بوتل میں کمپیوٹر والا پنکھا فٹ کر رکھا ہے، موصوف بوتل میں برف جما لیتے ہیں اورپھر پنکھا چلا کر بوتل اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں اورڈیڑھ دو گھنٹے اے سی کے مزے لوٹتے ہیں۔ انہوں نے منرل واٹر کی 19 لٹر والی بڑی بوتل کو ٹونٹی لگوا کر واٹر کولر بھی بنایا ہوا ہے۔امیں جب بھی سائنسدان قسم کے پاکستانیوں سے ملتا ہوں میرا سینہ فخر سے پھول جاتاہے۔ کیا آپ بغیر سیٹ کے گاڑی چلانے کا تصور کر سکتے ہیں؟ میرے ایک دوست کی بہت پرانی گاڑی کی سیٹ خراب ہوگئی تو اس نے سیٹ نکلوا کر وہاں ”موڑھا“ رکھوا لیا، خیر سے بہترین کام دے رہا ہے۔میرے محلے کے دوکاندار نے اپنی دوکان پر ٹی وی رکھا ہوا ہے، سامنے ایک حجام بیٹھتا ہے اور دوکاندار کا ٹی وی بڑے شوق سے ٹی وی دیکھتاہے۔ایک دفعہ دوکاندار اورحجام کی لڑائی ہوگئی جس کے بعد حجام نے قسم کھا لی کہ وہ دوکاندار کی طرف منہ نہیں کرے گا، موصوف نے اپنی کرسی کا رخ بدل کر اپنا منہ دوسری طرف کر لیا اور آج کل اپنے شیشے میں سے دوکاندار کاٹی وی دیکھتے ہیں۔
ایک دور میں جب میرے پاس FX گاڑی ہوتی تھی تو مجھے ہمیشہ ایسا لگتاتھا کہ عنقریب یہ چوری ہوجائے گی لہذا اس کا حل یہ نکالا کہ گاڑی کی ٹیپ کوایک چور سوئچ کے ذریعے اگنشن سے منسلک کر دیا۔ رات کو گاڑی باہر کھڑی کرنا پڑتی تھی لہذا میں نے ایک کیسٹ اپنی آواز میں ریکارڈ کی جس میں دس منٹ تک میں پوری قوت سے چلایا”چور چور……پکڑ لو……چور چور……“ اور منہ سے پولیس کا سائرن بھی بجایا۔ یہ کیسٹ میں رات کو گاڑی پارک کرنے کے بعد ٹیپ میں لگا کر فل والیوم کھول دیتا۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ اگر کوئی چور گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کرتا تو فوری طور پر ٹیپ چل پڑتی اور ”چور چور“ کی آوازیں بمعہ سائرن“ گونجنا شروع ہوجاتیں۔تاہم بعد میں مجھے یہ سسٹم ختم کروانا پڑا کیونکہ ایک دفعہ رات کو 2 بجے میرے ہمسائے نبیل صاحب کی اہلیہ کی طبیعت خراب ہوگئی، ان کے پاس گاڑی نہیں تھی اور فوری طور پر ہسپتال بھی جانا تھا۔نبیل صاحب نے میرے دروازے پر بیل دی۔ میں گہری نیند سویا ہوا تھا، اٹھ کر دروازہ کھولا،ان کا مسئلہ سنا اور جماہی لیتے ہوئے گاڑی کی چابی ان کے حوالے کر دی، غلطی یہ ہوگئی کہ انہیں چور سوئچ کا بتانا بھول گیا۔ نبیل صاحب نے میرا شکریہ ادا کیا، میں نے ویلکم کیا اور دروازہ بند کرکے واپس آکر لیٹ گیا۔ نبیل صاحب گاڑی میں بیٹھے، چابی لگائی اور گاڑی سٹارٹ کی……گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی ٹیپ بھی سٹارٹ ہوگئی اور قریب سے گذرتا ہوا چوکیدار بھی۔ٹیپ کی آواز سنتے ہی مجھے اپنی بھیانک غلطی کا احساس ہوا، میں ننگے پاؤں بھاگتا ہوا دروازے سے باہر نکلا، لیکن بہت دیر ہوچکی تھی، نبیل صاحب سٹیئرنگ پر گرے ہوئے تھے۔ ٹیپ پوری قوت سے چور چور چلا رہی تھی اور چوکیدار فخریہ انداز میں ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے ہوئے داد طلب نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply