کتاب کو کیسے شائع کیا جائے۔۔ذیشان نور خلجی

اداسیوں کا شاعر زین شکیل پوچھنے لگا کام کاج کا سناؤ، کیسا جا رہا ہے؟ عرض کیا اللہ کا شکر ہے، بہت اچھا۔ لہجے میں حیرانی سموئے ہوئے پوچھنے لگا، ویسے کر کیا رہے ہو؟ معصومیت سے کہا، کچھ بھی نہیں۔ پس دوستو ! کچھ اسی طرح کی مصروفیات آڑے آ رہی ہیں جس باعث کالم بھی تعطل کا شکار ہیں لہذا آج کل یہ ہو رہا ہے کہ دوست احباب کوئی کتاب تحفے میں بھیج دیتے ہیں اور اسی پر کالم لکھ دیتا ہوں اس سے ایک تو یہ ہوتا ہے کہ اہل قلم کی خدمت ہو جاتی ہے دوسرا کالم لکھنے کے لئے کوئی خاص محنت بھی نہیں کرنا پڑتی۔ لیکن یہاں ایک بات سامنے آ رہی ہے اور تقریباً ہر دوسرا مصنف ہی اس بات کا گلہ کر رہا ہوتا ہے کہ اسے کتاب کا معاوضہ نہیں ملتا الٹا اسے خود اپنی جیب سے کتاب کی اشاعت کے لئے پیسے دینا پڑتے ہیں پھر اس کے بعد بھی کتاب پبلشر کی مرہون منت رہتی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ کتاب کی اشاعت کو لے کر مصنف حضرات بہت زیادہ پریشان ہیں ایک تو کتاب لکھنے میں جو محنت کرنا پڑتی ہے انہیں اس کا معاوضہ نہیں ملتا۔ دوسرا یہ کہ اپنی جیب سے پیسے لگا کر بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ لیکن یہاں ایک بات کہنا ضروری سمجھتا ہوں ایک ٹوٹا پھوٹا ہی سہی لیکن رائٹر ہونے کے ناطے میرا یہ ماننا ہے کوئی بھی رائٹر پیسوں کے لئے نہیں لکھتا بلکہ صرف اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتا ہے لہذا اسے پیسوں سے تو کوئی سروکار نہیں ہوتا لیکن پھر کسی نہ کسی طرح سے اشاعت کے بعد بھی کتاب کو کوئی خاص گھاس نہیں ڈالی جاتی اور اصل مسئلہ بھی یہی ہے۔
دیکھیے، سچ بات تو یہ ہے کہ جب کبھی کتابوں کا دور بھی تھا یہ الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا موجود نہ تھے ادب شناس اور کتابوں سے محبت کرنے والے لوگوں کی کثرت تھی تب بھی کسی رائٹر کا گزارہ کم ہی کتاب کی رائیلٹی پر ہوا کرتا تھا جب کہ آج تو دور ہی کتابوں سے دوری کا ہے۔ اور اگر کوئی کتاب پڑھنے والا موجود بھی ہے تو انٹرنیٹ کی بدولت اس کی رسائی بغیر خریدے ہی ہر کتاب تک ہو چکی ہے لہذا اسے پھر کوئی ضرورت نہیں رہتی کہ وہ کتاب خرید کر پڑھے۔ ہاں کتابوں کو جمع کرنے والے اور اپنی لائبریری کا حجم بڑھانے کے شوقین حضرات کا معاملہ بہرحال دوسرا ہے۔
دیکھیے، ہم اخلاقیات کے جتنے مرضی درس دے لیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ زمانے کی چال بڑی زبردست ہے وقت بہت آگے نکل چکا ہے ہمیں اس چال کو سمجھنا ہو گا۔
پبلشرز برے ہیں، اچھے ہیں، ان کا رویہ کیسا ہے اس حوالے سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، یہ سب ماضی کی باتیں ہیں۔ آج وقت پبلشرز کی گرفت سے بھی نکل چکا ہے۔ ہاں گاہک کی، ریڈر کی بات ضرور کی جائے گی۔ تو ایسا ہے کہ گاہک کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ کتاب کو پڑھے اور اگر وقت ہے بھی تو بھی وہ خرید کر نہیں پڑھنا چاہتا۔
دیکھیے، میں کتاب لکھنے کی یا چھپوانے کی مخالفت نہیں کر رہا کیوں کہ کتابیں لکھی بھی جاتی رہیں گی چھپتی بھی رہیں گی اور پڑھی بھی جاتی رہیں گی۔ لیکن اس حوالے سے رائٹر کو یہ سوچنا ہو گا کہ وہ کتاب کو کیسے چھپوائے کہ اس کا لکھا قاری تک آسانی سے پہنچ سکے اور پھر وہ اسے پڑھ بھی سکے۔ کیوں کہ میرا ماننا ہے جب ایک رائٹر کا لکھا ہوا ریڈر پڑھ لیتا ہے تو رائٹر کے پیسے پورے ہو جاتے ہیں اس حوالے سے میری یہ رائے ہے کہ اگر کوئی رائٹر اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ کتاب کی اشاعت کے لئے پیسوں کا بندوبست کر سکے یا اشاعت کے بعد اسے بیچنے کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکے تو پھر اسے چاہئیے کہ کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ میں پبلش کروا لے اور ہر علم دوست انسان کو بلا معاوضہ فراہم کرے یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ انٹرنیٹ پر ایک سستی سی ویب سائٹ تیار کروائے اور اپنا لکھا کتاب کی صورت میں وہاں ڈال دے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایک نو آموز لکھاری کے پاس اس کے سوا کوئی بہتر حل موجود ہے کیوں کہ یہاں بہت سے نامور مصنفین کی کتابیں بھی صرف پانچ دس کاپیوں کے عوض ہی چھپ رہی ہیں جس کو وہ یار لوگوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف ایک ایسا لکھاری ہے جس کا نام بھی سوائے گھر والوں کے کوئی نہیں جانتا تو اگر وہ یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ اس کو کتاب کا معاوضہ ملے گا یا لوگ اس کی کتاب خریدیں گے تو ایسا سوچنا کم عقلی ہے۔
کالم نے یہ انڈہ دیا ہے کہ اگر مصنف اتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ کتاب چھپوانے کا خرچ برداشت کر سکے تو اسے جدید تقاضوں کے مطابق کتاب کی اشاعت پی ڈی ایف فارمیٹ یا پھر اپنی کم قیمت ویب سائٹ پر کروانی چاہئیے۔
لیکن اگر خرچ برداشت کر سکتا ہے تو بھی عوام کے لئے ہر دو فارمیٹ میں کتاب کی اشاعت لازمی کروائے کیوں کہ ہارڈ کاپی کی اپروچ بہت کم ہوتی ہے بنسبت سافٹ کاپی کے۔
اب انڈے سے چوزہ آپ نے خود نکالنا ہے اور وہ ایسے کہ اوپری خانے میں میل ایڈریس درج ہے لہذا کتاب کی اشاعت سے متعلق کوئی نیا آئیڈیا جو آپ کے ذہن میں ہو تو وہ لازمی مجھ سے شئیر کریں۔ یار زندہ صحبت باقی

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply