• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایوان بالا سے بلوچستان کی توانا آوازوں کی رخصتی۔۔عمران بلوچ ایڈوکیٹ

ایوان بالا سے بلوچستان کی توانا آوازوں کی رخصتی۔۔عمران بلوچ ایڈوکیٹ

آٹھ مارچ کو پوری دنیا میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی خدمات کو سراہانا اور انھیں یہ احساس دلانا کہ وہ انسان ہیں اور معاشرے کا اہم ترین حصہ ہیں، وہ بھی اسی قدرت کی تخلیق ہیں جس نے باقی مخلوقات کو بنایا ہے۔

شاید میں یہ بتا نہ پاؤں کہ فیمنزم کیا ہے، اچھا ہے یا برا، ہاں سال کے بس ایک دن یعنی صرف آٹھ مارچ کو عورتوں کا دن نہیں مانتا، کوئی قبائلی اور مذہبی خیالات کا حامل اَن پڑھ عورت کے بارے جو محدود سوچ اور تنگ نظریہ رکھتا ہے، میرا ذہن وہ بھی قبول نہیں کرتا۔

بس اتنا جانتا ہوں اللہ تعالیٰ نے جو عقل دی ہے اور جتنا پڑھا اور سمجھا ہوں، اس حساب سے میں زور زبردستی کا اور اپنی مرضی مسلط کرنے کا بالکل بھی قائل نہیں۔ پھر بات میری ہو یا کسی اور کے حقوق کی۔ جہاں تک آٹھ مارچ کی بات ہے تو ہر دن عورت کا دن ہو، اس کے لیے عزت اور احترام کا دن ہو۔ میری نظر میں، یہ کہنا کہ عورت کی صلاحیتوں کو ماننا کیا؟ کیوں کہ عورت کا پورا وجود ایک صلاحیت ہے۔

کائنات کی ہر تخلیق بے مثال ہے لیکن کائنات کی افضل ترین تخلیق انسانی دماغ اور عورت ہے۔ کائنات کی خوب صورتی ان دو چیزوں میں ہے بلکہ کائنات کی تخلیق ان دو کے لیے ہی ہوئی ہے۔ عورت میں صبر ہے اس لیے ہر ظلم برداشت کرتی ہے۔ عورت میں لالچ نہیں اس لیے جائیداد کے لیے لڑتی جھگڑتی نہیں ہے۔ عورت میں تمیز ہے، سلیقہ ہے، اس لیے گالی نہیں دیتی، گھر سنبھالتی ہے۔

مرد نے اس کے نام پر گالی بنائی مگر عورت ایسا نہیں کرتی کیوں کہ اس میں تمیز، وفا اور انسان کی قدر ہے، وہ نہ زمین قبضہ کرتی ہے، نہ قتل کرتی ہے نہ لڑائی جھگڑا، تو پھر تمیز کیا ہے؟ تہذیب کیا ہے؟ شعور کیا ہے؟ یعنی سب تو عورت کے مختلف نام ہیں۔

اتنی بہادر کہ شادی کے بعد مرد کے لیے اپنے والدین کا گھر چھوڑ دے، اپنا موروثی حق نہ لے۔ جہیز مرد لے، زمین قبضہ مرد کرے، قتل مرد کرے، گالی مرد دے، پھر بھی عورت کمزور اور بزدل جب کہ مرد بہادر اور طاقت ور نشہ مرد کرے، بدفعلی مرد کرے، پھر بھی عورت غلط۔ سب سے بڑھ کر تربیت عورت کرے، پیداوار عورت دے، اولاد جنتی ہے، اس کی تربیت عورت ہی تو کرتی ہے تو پھر مرد یا انسان عورت کی پیداوار ہوئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تربیت کے حوالے سے اتنا کہوں گا کہ عورت پر ہونے والے ظلم کی ذمہ دار بھی خود عورت ہے اور اسے ختم کروانے والی بھی عورت ہی ہوگی، کیوں کہ جس دن ماں نے پہلا سبق بنی اولاد کو یہ دیا کہ بھائی بہن یا لڑکی اور لڑکے میں کوئی فرق نہیں، اس دن سے یہ جھگڑا ہی ختم، ورنہ مرد کو درد نہیں ہوتا کیونکہ جیل تو مرد کے لیے بنی ہے اور ہتھکڑی تو مرد کے ہاتھوں کا زیور ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply