شدنی۔۔ربیعہ سلیم مرزا

“میں نوراں ہوں”
.ماں کہتی ھے، اپنے نام کی طرح سوہنی ہوں ۔
سارا پنڈ اور فضل دین بھی تو کہتا ہے ۔میں جن دنوں،فضل دین کو دل وجان سے دیکھ رہی تھی تب کسی ویاہ میں نذیر نےپہلی بار مجھے دیکھ لیا۔
نذیرا مجھ پہ دل ہار بیٹھا اور میری قسمت ہر گئی ۔ ابے نے مجھے پوچھے بنا، کم شکل اور کم عقل نزیرے سے بیاہ دیا کہ منڈا بڑا سدھا اور کماؤ ہے ۔
ان چاہا خصم تو تھا ہی، سسرال بھی جیسے بارڈر پہ تھا، شادی کے دوجے مہینے ہی میری ساس اور اکلوتی نند نکی نے مورچے سنبھال لیئے ۔نکی جتنی چھوٹی ،اتنی ہی تکھی تھی ۔ جتنی زمین کے اوپر اتنی زمین کے اندر۔نذیرے کے خاندان میں کڑیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا۔لڑکیاں گھر میں چلتے ساس بہو، نند بھرجائی والے ڈراموں سے ہی سارے سبق سیکھ لیتیں ۔
گھر بیٹھے ایسا کشتہ بن جاتیں کہ ہوم اکنامکس میں پولٹیکل سائنس مکس کر پکا لیں ۔۔ساس کو چاہے کچھ نظر نہ آئے یہ دیوار کے آر پار بھی دیکھ آتیں ۔
چھنی کاکی تو میں بھی نہیں تھی،
دادی نانی کی گود میں پلی ،یہ سارے دھوبی پٹخے سیکھ کے آئی تھی ۔
پسند ناپسند کے چکر میں چار دیہاڑے پارو بنی رہی ۔فضل دین کی یاد میں ہر چول پنے کو نظر انداز کیا ۔گزارہ ہی تو کرنا تھا ۔
نزیرے کو اپنا سیاپہ پڑا ہوا تھا۔چڑا بنا ہوا تھا ۔ویہلے کویلے بوہے باریاں بند کرکے لیٹ جاتا ۔
اس کی مستی اس کی ماں اور نکی کو بری طرح رڑک رہی تھی۔
چنانچہ اس کے جاتے ہی وہ مجھ ادھ رڑکی کو پھر سے رڑکنے لگتیں ۔
کتنی دیر مدھانی کے نیچے پانی بنی رہتی،
روپ سروپ، چولہا چوکا ،کوئی بھی انتر کام نہ آیا۔ہر خدمت کے بدلے گیلے چھتر جیسا کوسنا ملتا ۔
چپ رہتی “تو میسنی ہے ”
منہ دھولیتی ” منڈے کو پاگل کر رکھا ہے”
اور ذرابن سنور لیتی تو
“ایناں حسن پچھل پیریاں دا ہوندا اے۔”
پنتالیس پینترے بدلے ،کسی طرح نکی سے جان چھٹ جائے ۔
نذیرے کی ماں کے ساتھ خوشی خوشی نکی کے لیےرشتے بھی ڈھونڈھتی رہی!
اندرو اندری کئی رشتے بھی بلائے پر ناں جی!
دونوں ماں بیٹی کی ناک ہی بڑی اونچی تھی ۔پھر بھلا ہو، وڈے تھانے دار افضل کا!
اوپر کی کمائی کی وجہ سے وہ یہ نکا سوئمبر جیت گیا ۔دبنگ بندہ تھا، اونیچ نیچ سارے چالے سمجھتا تھا ۔میں نے پہلی نظر میں ہی اسے پہچان لیا۔
پنگا نکی کی مہندی پہ ہوا۔اس دن گاؤں کی کڑیاں چڑیاں اور بلائے بن بلائے سارے پروہنے ڈھولکی پہ جمع تھے ۔نذیرے کا دور پار کا رشتےدار،میرا،قریبی فضل دین بھی تھا ۔ اس کی ٹکٹکی مجھ پہ تھی ۔موقع ملتے اس نے جیسے ہی اپنے دل کی بات کی۔۔میں نے بھی بھڑاس نکال دی۔۔۔۔
مہندی والے دن بھی نکی کا دھیان مجھ پہ ہی رہا۔
“اماں دھیان کر، بھابھی کتے پخا رہی ہے۔”
ساس نے ایک کی چار نذیرے کو سنائیں ۔
میل والے گھر ادھی راتیں تماشہ لگ گیا۔
میں نے اپنی صفائی میں دو لفظ کیا کہے،
نذیرے نے بھڑک کر ایک زور دار تھپڑ مجھے جڑ دیا ۔
بد صورتی، جہالت، اور مردانہ کمزوری نے مجھے گشتی تک کہہ دیا ۔بارات والے دن جب بھی شیشہ دیکھا، تھپڑ سلگ اٹھتا ۔
دل تو پہلے سے ہی سلگا ہوا تھا ۔
نکی کے ویاہ کے بعد میں نے ساری شطرنج ہی بدل دی، ملکہ گھوڑے پہ بٹھاٹی، ڈھائی گھر کی چال چل دی ۔
چوتھی اور چالے کے پھیروں میں، میں نے رج کے نوے جوائی کی خدمت کی۔آتے جاتے چلتے پھرتے دانہ ڈالا۔ تھانیدار خوشی خوشی حوالاتی ہوگیا۔رشوت کی کمائی سے جوانی پھٹی پڑ رہی تھی خود کو گھبرو شی جوان کہتا تھا! ثابت بھی ہوا۔
وہی ہوا، چھ مہینے بعد ہی نیل و نیل نکی واپس آگئی، میرےسینے سے لگ کر خوب، روئی ۔کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی ۔
خبر اڑی کہ تھانیدار نے کوئی عورت رکھی ہوئی ہے ۔مہینوں نکی کی طرف منہ نہیں کرتا ۔نکی نے کوتوال سے پوچھ تاچھ کی تو اس نے چوروں کی طرح مارا۔
پنچائت بیٹھی تو صاف مکر گیا، اکڑ گیا، کہنے لگا ” نکی کو مار دوں گا پر چھوڑوں گا نہیں ”
اب تھانیدار سے کون بگاڑے ،ڈاڈھے کا تو ویسے ہی سات بیس کا سو ہوتا ہے ۔خاندان بھر کے ترلےمنتوں سے نکی کو واپس نہ گئی ۔
میں ماں جائی نہ سہی بھرجائی تو تھی ۔
برقع پہنا نکی کو ساتھ لیکر تھانے گئی ۔نکی کو تھانیدار کے کمرے میں بٹھایا اور تھانیدار کو کوارٹر میں لیجا کر ڈیڑھ گھنٹہ سمجھایا۔رشوت اور سفارش چل گئی ۔
نکی اب اپنے گھر میں بہت خوش ھے
سیانی ہے، سمجھ گئی کہ بھابھی نے تھانیدار کے ناجائز تعلقات کا توڑ جائز تعلق سے کیا ھے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”شدنی۔۔ربیعہ سلیم مرزا

Leave a Reply to محمد شمشاد Cancel reply