• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عورت تو کیا ہم زندگی کی بھی واضح تصویر نہیں بنا سکے۔۔اسد مفتی

عورت تو کیا ہم زندگی کی بھی واضح تصویر نہیں بنا سکے۔۔اسد مفتی

ہر سال آٹھ مارچ ا دن”عورتوں کا عالمی دن “کے نام سے منایا جاتا ہے۔
عورت جسے خدا نے ماں،ببہن،بیٹی اور بیوی کے مقدس رشتوں سے نوازا ہے،معاشرے میں استحصال کا شکار ہے،مرد کی بالا دستی کے معاشرے میں مرد کو یہ اختیار حاصل ہے،کہ جسے وہ چاہے تقدیس و پاکیزگی کے ساتویں آسمان پر بٹھا دے اور جسے چاہے غلاظتوں کے گٹر میں ڈال دے۔خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے اپنے تبصرے میں وائس آف امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں آج بھی خواتین کی قرآن کے ساتھ شادیاں ہوتی ہیں۔
آج بھی وہاں ایسے قبیلے ہیں،جہاں خواتین کو “گرم اشیاء”کا استعمال نہیں کرنے دیا جاتا،انہیں انڈہ اور گوشت کھانے کی ممانعت ہے،آج بھی پاکستان میں عورت 70فیصد روز مرہ کی زندگی میں پانی پانی بھرنے سے لے کر ہل چلانے تک کا کام کرتی ہے،
ایک حالیہ سروے کے مطابق ویمن و بچہ جیل کراچی میں قید 221واتین میں سے 42مائیں بن گئیں ہیں،جب کہ درجن سے زائد خواتین حاملہ ہیں،اس طرح قیدی بچوں کی تعداد بھی 462تک پہنچ گئی ہے،
خواتین قیدیوں میں اکثریت حدود آرڈیننس کی بتائی جاتی ہیں،ادھر پنجاب کی جیلوں میں 810عورتیں سزائے موت کی پھانسی دی گئی ہے۔آخری پھانسی 1985میں دولت بی بی زوجہ مرزا خان کو سنٹرل جیل راولپنڈی میں دے دی گئی ہے،پہلی پھانسی والی خاتون کا نام غلام فاطمہ تھا،جس کو اپنے شوہر کے قتل کے الزام میں 10اکتوبر 1954میں پھانسی دی گئی،پھانسی پانے والی دیگر خواتین میں دو سگی بہنیں منورہ اور سنورہ بھی شامل ہیں،جن کو 1985میں موت کی سزا دی گئی،یہ کشورِ حسین شاد باد کی تاریخ کاواحد واقعہ ہے،جس میں ایک ہی وقت میں ڈسٹرکٹ جیل جہلم میں حقیقی بہنوں کو پھانسی دی گئی۔
پاکستان میں ایک حالیہ سروے کے مطابق 2020 کے پہلے نو ماہ کے دوران خواتین کے خلاف تشدد،اعضاء کاٹنے،چہرہ بگاڑنے،خود کشی او ر دیگر جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے،ان نو مہینوں کیدوران ملک بھر میں 169افراد نے خود کشی کی،جن میں گھریلو ناچاقیوں کی بِنا پر 62 خواتین کی خود کشی بھی شامل ہے،اقدام خود کشی کرنے والیوں میں 61خواتین ہیں،26دسمبر 2019سے 27 فروری 2020کے دوران ملک بھر میں 24 خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا،جن میں صرف جنسی حملے اور جنسی تشدد شامل تھا،جنسی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین میں 17نو عمر بچیاں بھی شامل ہیں،26دسمبر سے27فروری کے دوران 48افراد کو کاروکاری کہہ کر قتل کردیا گیا،جن میں 18مرد اور 30عورتیں شامل ہیں،10عورتیں اپنے شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔
مندرجہ بالا تمام اعدادوشمار پر پاکستان کی قومی اسمبلی میں بحث مباحثہ ظہور پذیر ہوچکا ہے،کچھ عرصہ پہلے قومی اسمبلی میں یہ فتویٰ دیا گیا تھا،اور متحدہ مجلس عمل،ان کے حلیف اور ساتھی بتاتے ہیں کہ سرحد اسمبلی میں اراکین صوبائی اسمبلی کے وفاداریاں بدلنے کے خوف سے انہیں اکٹھا کرکے اس بات پر حلف لیا گیا ہے،کہ وہ متحدہ مجلس عمل سے غداری نہیں کریں گے،اور جو ایسا کرے گا،اُس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی،
دیکھا آپ نے۔۔یار لوگوں نے طلاق دینے کا کیا حسین جواز ڈھونڈ نکالا ہے،یعنی وفاداری تو بدلے مرد لیکن طلاق ہوجائے گھر بیٹھی اس کی بیوی کو،اس بیچاری کا کیا قصور؟۔۔۔عورت کے بارے میں اس طرح کا جاہلانہ،گھٹیا رویہ ہمارے معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں،لیکن لطف یہ ہے (میں اسے دلچسپ نہیں کہہ رہا)کہ یہ سب اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے،کبھی بھائی سے جوانی نہیں سنبھالی جاتی،تو وہ کسی کی بہن بیٹی کی عزت لوٹنے کے بعد جب مسائل کا شکار ہوجاتا ہے تو صلح کے لیے اس کے پاس سب سے حقیر پراپرٹی اپنی بہن ہی ہوتی ہے،جسے وہ مظلوم لڑکی کے بھائی یا باپ کے نکاح میں دے کر اپنی جان چھڑا کر سُرخرو ہوجاتا ہے،یعبی بے حیائی اور ذلت کی انتہا یہ ہے کہ ایک لڑکی پر ظلم کی انتہا کے جواب میں ایک اور لڑکی پر ظلم ڈھا دیا جاتا ہے،جسے وہ “انصاف”کا نام دیتے ہیں،
بات وہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت پر ظلم کا ذمہ دار صرف رواج روایات ہی نہیں بلکہ ناقص فہم دین بھی ہے جو عورت کو ادھورا،نامکمل،ناقص العقل،اور ذاتی جاگیر قرار دیتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور واقعہ پیش خدمت ہے۔۔حضرت عبدالرحمان بن عوف کا یہ مشہور واقعہ بیشتر کتانوں میں درج ہے کہ جب ان کے انصاری بھائی حضرت سعد بن ربیع نے یہ پیشکش کی کہ “میں اپنا نصف مال و منال تمہیں بانٹ دیتا ہوں اور میری دو بیویاں ہیں،ان کو دیکھ لو،اور جو پسندہو،اُس کا نام بتاؤ،میں طلاق دیدوں گا،عدت گزارنے کے بعد تم نکاح میں لے لینا”۔۔۔کیا اس واقعے سے آپ کو عورت ایک جنس،چیز،مال،یا شئے دکھائی نہیں دیتی؟۔۔
اُس کے تمام جذبات،محبت،چاہت،خلوص کی باگ دوڑ بغیر سوچے سمجھے اور دیکھے بھالے کسی دوسرے کے سُپرد کی جارہی ہے۔
میر حساب سے آج سے اسلامی معاشرہ میں عورت کے بارے میں جو رائے قائم ہے،اسے قائم کرنے والا کوئی مولوی،قادری،نعیمی یا کوئی اور ہو،بنیادی کردار ہمارے مولوی حضرات کا ہی ہے،اور مولوی حضرات کے ہاں عورت کا مقام ہے وہ ہم سے ڈھکا چھپا نہیں،مولوی نے عورت کو مجسمہ شیطینت بنا کر رکھ دیا ہے،اسے بے حیائی کا استعارہ بناڈالا ہے،مولوی کے پاس عورت کے لیے صرف “فرائض”کی سوغات ہے،بس وہ بچے پیدا کرتی ہے،اور انہیں کھانے اور حلوے بنابنا کر کھلاتی رہے،ان کی خدمت اور اطاعت کرتی رہے،یہ سب دیکھتے ہوئے معاشرہ بھی مولوی سے متاثر ہو کر عورت کو تیسرے درجے کی مخلوق سمجھتا ہے،عورت کیساتھ اہلِ مذہب نے انصاف نہیں کیا،اس کے ساتھ ظلم کی انتہا کردی ہے،ا س لیے میرے حساب سے عورت کو وہ مقام دینا چاہیے،جو قرآن نے عطا کیا ہے،اس کے لیے ہمیں اپنے قدیمی فقہی لٹریچر پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے،قطع نظر اس بات کے اس لٹریچر کا کونسا قول قول راجع ہے اور کون سا نہیں۔۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہاس میں عورت کا تذکرہ اچھے الفاظ اور طریقے سے نہیں کیا گیا،
وہ ناقص العقل ہے،مرضی سے شادی نہیں کرسکتی،اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکتی،موسیقی نہیں سن سکتی،نکاح نہیں پڑھا سکتی،شادی سے پہلے اس کی شرمگاہ کے علاوہ بدن کا ہر حصہ دیکھا جاسکتا ہے،محض اس کے چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے،اور انتہا یہ ہے کہ خاوند لاپتہ ہوجائے تو وہ 90سال۔۔(جی ہاں 90سال)تک انتظار کرے۔۔پھر شادی کے بارے میں سوچے۔
یہ سب باتیں ہمارے فقہی لٹریچر میں ملیں گی،ہمارے آپ کے فقہی لٹریچر میں۔
مدد چاہتی ہے یہ حوّا کی بیٹی
یشودہ ی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیغمبر کی اُمت زلیخا کی بیٹی!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply