• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پوپ کا دورہ عراق۔ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا(1)۔۔۔نذر حافی

پوپ کا دورہ عراق۔ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا(1)۔۔۔نذر حافی

یہ نشر و اشاعت اور اطلاعات کی جنگ کا زمانہ ہے۔ اس دور میں خبریں مخصوص مقاصد کیلئے تولید کی جاتی ہیں، منصوبہ بندی کے ساتھ حادثات کو وجود میں لایا جاتا ہے اور مختلف واقعات کو ایک فلم یا ڈرامے کی طرح پیش کرکے رائے عامہ پر اثر انداز ہوا جاتا ہے۔ بعد ازاں یہی رائے عامہ کسی بھی بیانیے کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔ اس ہفتے کے دوران جہانِ مسیحت کے عظیم روحانی رہنماء پوپ فرانسیس کے دورہِ عراق نے دنیا میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عراق میں شہید قاسم سلیمانی کا خون ابھی خشک نہیں ہوا۔ عراق ابھی سوگوار ہے، لوگ اداس ہیں اور خطے سے امریکی و استعماری افواج کے انخلا کا مطالبہ زوروں پر ہے۔ چنانچہ اس دورے کو بعض نے اپنے مقاصد کے پیشِ نظر صلیبی جنگوں کی نئی روش کہا ہے، کچھ نے اپنے اہداف کی خاطر اسے ایک برائے نام دورے سے تعبیر کیا ہے، بہت ساروں نے اپنی مصلحت کے پیشِ نظر اسے معمول کا ایک سرکاری دورہ کہنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔

کچھ نے اسے خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کی ایک چال کے طور پر دیکھا ہے، بعض نے اسے ایرانی حکومت کے مقابلے میں عراق میں اہل تشیع کی مرجعیت کو کھڑا کرنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے، بعض کے نزدیک یہ اسرائیل کو وسعت اور تحفظ بخشنے کا ایک منصوبہ ہے، بعض نے اسے عراقی عیسائی کمیونٹی کی مدد و حمایت تک محدود قرار دیا ہے۔۔۔ المختصر یہ کہ ہر خبر کی طرح اس دورے کو بھی اپنے اپنے اہداف، مفادات اور نظریات کے پیشِ نظر ہی نشر کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذاتی قیاس آرائیوں اور سنی سنائی باتوں کے بجائے ہمیں حقائق کا ادراک کرنا چاہیئے۔ حقائق کے ادراک کیلئے تجزیہ و تحلیل ضروری ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ بنیادی طور پر تجزیہ و تحلیل کے تین بنیادی اساسی عناصر ہیں۔
ایک: ماضی کی تاریخ کا درست علم
دو: حال کے واقعات کا گہرا مشاہدہ
تین: ماضی اور حال کا منطقی ربط

پاپ فرانسیس کی عراق میں آمد کو ماضی و حال کے ساتھ ملا کر منطقی ربط دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہم اپنے قارئین کیلئے عیسائیت اور اسلام کے حوالے سے ایک ابتدائی اور سرسری خاکہ پیش کر رہے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ماضی کے تعلقات سخت رنجشوں پر مبنی ہیں۔ عیسائیت اپنے پیروکاروں کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا اور اسلام دنیا کا دوسرا بڑا دین ہے۔ دونوں اہلِ کتاب ہیں اور دونوں خدا کی معرفت، آسمانی ہدایتوں، معاد اور انسانی نجات و بخشش پر زور دیتے ہیں۔ عیسائیوں کی طرح مسلمانوں میں بھی دین کی سیاست سے جدائی کا نظریہ رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ عیسائیوں میں سب سے بڑا دینی منصب پوپ اور مسلمانوں میں خلیفہ، امیر، مفتی اعظم، مرجع تقلید یا ولی فقیہ کا ہے۔ عیسائیوں کی طرح مسلمانوں میں بھی اپنے اپنے فرقوں کے جداگانہ مذہبی پیشوا ہیں۔ نیز مسلمانوں کی طرح عیسائیوں کیلئے بھی عراق ایک تاریخی اور دینی سرزمین ہے۔

اب آیئے اس سوال کے ساتھ بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ پوپ کے دورہ عراق کو اتنی زیادہ اہمیت کس وجہ سے ملی۔؟ سب سے پہلے تو پوپ کو سمجھئے! دراصل پوپ کو پوری دنیا میں مسیحیت کے دو ہزار سالہ قدیم علمی، ہنری، عرفانی، اخلاقی، تاریخی اور مذہبی چہرے کی حیثیت حاصل ہے۔ پوپ کا احترام صرف عیسائیوں کے ہاں ہی نہیں بلکہ دیگر ادیان و مسالک کے ہاں بھی نمایاں ہے۔ خود عرب ممالک کے ہاں پوپ کو ایک خاص تقدس حاصل ہے۔ شاید بہت سارے لوگ یہ نہیں جانتے کہ پوپ، کیتھولک چرچ کا سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ ویٹیکن سٹی اسٹیٹ کا سربراہ بھی ہوتا ہے، یعنی وہ مذہبی پیشوا ہونے کے علاوہ دوسرے ممالک کے حکمرانوں کی مانند ایک حکمران بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ پوپ کا کسی بھی ملک کا دورہ کچھ خاص قوانین کے مطابق ہوتا ہے۔ ان قوانین میں سے ایک اہم قانون یہ ہے کہ کسی بھی ریاست کی حکومت کی جانب سے پوپ کو باضابطہ دفتری دعوت نامہ بھیجا جائے۔ دوسرا اہم قانون یہ ہے کہ میزبان ریاست میں واقع مقامی کیتھولک چرچ بھی دعوت نامہ بھیجے اور تیسرا قانون یہ ہے کہ مدعو کرنے والی ریاست میں مذہبی گروہوں، خاص طور پر غیر کیتھولک چرچوں بالخصوص آرتھوڈوکس فرقے کی طرف سے مخالفت نہ کی جائے۔

پوپ کا یہ دورہ عراق، عراقی حکومت (صدر) اور عراق کے کیتھولک چرچ کے سرپرست کی دعوت اور درخواست پر کیا گیا ہے اور آرتھوڈوکس کی طرف سے اس دورے کی مخالفت بھی نہیں کی گئی۔ یوں یہ ایک قانونی اور سرکاری دورہ تھا۔ پوپ مختلف ممالک کے اس طرح کے دورے کرتے رہتے ہیں اور ان دوروں کا کم از کم اتنا ہی اثر ہوتا ہے، جتنا کسی صدر مملکت کے دورے کا ہوتا ہے۔ لیکن عراق کا یہ دورہ معمول کے دوروں سے بہت مختلف تھا۔۔۔ اس دورے نے مندرجہ ذیل چند وجوہات کی بنا پر بین الاقوامی برادری کے درمیان خاص اہمیت حاصل کی ہے۔

1۔ خلیجی اور عرب ریاستوں کے درمیان عراق کی جمہوری اور سیاسی حیثیت نمایاں ہو کر ابھری ہے۔ وہ عرب بادشاہ جنہوں نے عراق کو تباہ کرنے کیلئے اپنی ساری دولت صرف کی اور دہشت گردوں کے ان گنت ٹولے عراق میں لانچ کئے، انہیں یہ واضح پیغام ملا کہ عراقی عوام نے اپنی سرزمین پر بادشاہت اور آمریت کو دفنا دیا ہے اور اب عراق میں جمہوریت اور سیاسی بیداری کا سفر شروع ہوچکا ہے۔

2۔ یہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا، جب عراق میں آئے روز اغیار کے ایجنٹ مسلح حملے اور دھماکے کرتے رہتے ہیں۔ ایسے خوفناک ماحول میں اتنی اہم شخصیت کا اتنا پرسکون اور آرام دہ دورہ دہشت گردوں اور ان کے عالمی سرپرستوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ عراق کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔

3۔ دیگر عرب ریاستوں میں اقلیتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جاتا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پوپ کے عراقی حکومت پر اعتماد نے عراق کی نومولود جمہوریت کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ دنیا پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ کمزور سے کمزور جمہوریت بھی کسی طاقتور آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ عراق کی پارلیمنٹ، حکومتی اداروں اور عوام میں اقلیتوں کے ساتھ حُسن سلوک اور ان کے حقوق کا جو احترام ہے، وہ اس سارے خطے کیلئے مثالی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

4۔ دنیا پر واضح ہوگیا کہ نہتے لوگوں پر خودکُش حملے کرنے والے، لوگوں کی گردنیں کاٹنے والے، عبادت گاہوں اور اقلیتوں پر شبخون مارنے والوں کا عراقی عوام اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ طالبان و القاعدہ و داعش یہ سب امریکیوں و عربوں اور یورپینز کی اپنی ہی کارستانی تھی، اقلیتوں سمیت جتنے بھی بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں اور دربدر ہوئے ہیں، اُن کے اصل ذمہ دار عراقی عوام نہیں بلکہ وہی مغرب، عرب اور امریکی ہیں۔
۔جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply