• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط14)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط14)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

جو مری شبوں کے چراغ تھے جو مری امید کے باغ تھے
وہی لوگ ہیں مری آرزو وہی صورتیں مجھے چاہئیں

آمنہ دبے پاؤں گیسٹ روم میں آئی اور کھڑکی سے پردے ہٹاۓ ۔ طلوعِ آفتاب کا نارنجی رنگ آسمان کے کناروں پہ پھیلا ہوا تھا ۔ کل شام وہ ضحی کو پارک لے گئی تھی. وہاں سے واپسی پر ایک جنازے کو گزرتا دیکھ کر حواس باختہ ہوگئی ۔ اُسے لگا صرف اس کی آنکھیں ہی کام کر رہی ہیں باقی جسم بے جان ہے. پھر اس پر کپکپاہٹ اتنی زیادہ طاری ہوئی کہ دانت تک بجنے لگے. آمنہ کے سہارے وہیں بینچ پر لیٹ گئی ٹانگوں میں سکت ہی نہیں رہی تھی۔ دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی، سر چکرانے کے ساتھ معدہ کے جکڑے جانے کا احساس بھی شدت سے ہوا۔

“یا اللہ مجھے کیا ہو رہا ہے میں آمنہ کے سہارے دربدر ہوں اور اوپر سے یہ آزمائش ” ۔

آنکھوں سے بے بسی کے آنسو شدت سے مون سون کی طرح برسنے لگے ۔اس قدر شدید پینک اٹیک تھا کہ گھر آکر بھی جان جانے کا خوف ختم نہ ہوا۔ پورے کمرے کی بتیاں روشن کرکے بیٹھی رہی.
” آمنہ ایسے کیوں ہوتا ہے ۔؟ اعصاب پارہ کی طرح ہلکی سی حدت سے ہی پگھلنے لگتے ہیں، جسم میں سکت نہیں رہتی اور شدت سے کانپنا میں خود پر قابو نہیں رکھ پاتی. کہیں مجھے مرگی کی کیفیت کا سامنا تو نہیں ہے؟”
ضحی اب ان کیفیات کی گراہیں کھولنے کا مصمم ارادہ کر چلی تھی ۔
“دیکھو ضحی پہلی بات یہ واضح طور پر سمجھ لو مرگی ایک دماغی بیماری ہے جس میں نیورانز کے بے قابو ہونے سے جسم بھی بے قابو ہوجاتا ہے لیکن خوف طاری شدہ جذباتی احساسات ہیں ۔جو آپ محسوس کرو گی آپ کا جسم وہی علامات آپ پر طاری کردے گا. اب خود ہی دیکھ لو پہلے آپ کو اس بات کا وہم تھا کہیں مجھے دل کا مسئلہ تو نہیں تھا. اب اس کیفیت سے آپ خود کو مرگی کی مریض سمجھنے لگ گئی ہو ۔ یہ آپ کا جسم بیمار نہیں ہے. سوچ ہی بیمار ہے ۔”
ہلکی پھلکی گفتگو سے ضحی کے اعصاب پرسکون ہوئے
اور پھر سمیٹی سکڑی سوگئی تو آمنہ نے سکون کا سانس لیا۔
اب آمنہ پھر ضحی کے کمرے میں ایک چوٹی سر کرنے کو موجود تھی۔
“ضوئی،چندہ اٹھو۔ ہم نے واک پہ جانا ہے”
ضحی ڈر کر اٹھ بیٹھی اور پھر آمنہ کو دیکھ کر چہرے کا تناؤ کم ہوا اور دل کو تھپتھپا کر بولی ۔
” ڈر ہی گئی تھی میں، کلیجہ منہ کو آگیا۔ میں نہیں جاؤں گی باہر، میں جا ہی نہیں سکتی ۔مجھے بخار ہو رہا ہے”
آمنہ نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا ۔اس کو ضحی میں اپنا آپ دیکھتا تھا۔ کس طرح وہ اسی طرح اضطراب (پینک) کا شکار ہوتی تھی اور اُسے کوئی حل نہیں سوجھتا تھا۔ آمنہ اس کے پاس بیٹھی بیٹھی ۔
” دیکھو ضحی! تم بلکل ٹھیک ہو ۔اصل میں یہ بخار بیمار سوچ کی وجہ سے ہے”
ضحی نے فٹا فٹ چھوٹے بچے جیسے اس کا ہاتھ ماتھے پر رکھا پھر نبضیں محسوس کروانے لگی اور تنک کر پوچھا
“بیمار سوچ؟ مجھے واقعی بخار ہے میں نہیں جاسکتی، میں گر جاؤ‍ں گی۔”
آمنہ نے ہنس کر کہا” ہاں نہ بیمار سوچ، سوچ ہی تو ہمیں کہتی ہے کہ فلاں کام نا کرو، دیکھو کانپ رہی ہو اور دل کی دھڑکن تیز ہو رہی ہے وغیرہ وغیرہ اور ہم گِرنے لگتے ہیں۔ جب میں فوبیک تھی تو مجھے بھی بخار میں ایسے ہونے لگتا تھا کہ اٹھوں گی تو گر جاؤَں گی پھر سوچتی، گری تو گر جاؤں بے شک،پھر کیا ہو گا ؟ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ دیکھو کل میں تمہارے سامنے عصر کی نماز کے بعد پانچ ہزار قدم بھر چہل قدمی کرکے آئی ہوں ۔اس لیے مسئلہ دل کی دھڑکن یا بخار نہیں ہے بلکہ سوچ ہے۔ اس کو صحت مند بنانا ہے”۔
ضحی نے پُر سوچ لہجے میں جواب دیا” ٹھیک ہے کل سے میں بھی آؤں گی آج تو بخار ہے نہ”
آمنہ دیکھ کر رہ گئی بولی تو صرف اتنا کہ
” جیسے ہم روزانہ کی ڈائری لکھتے ہیں۔ایسے ہی جو بھی سوچ آتی ہے اسی کا تھیم بنا کر اس پر پیراگراف لکھو ۔ شاباش، میں ناشتہ بنا کر لاتی ہوں”۔
ضحی نے ادھر ہی بیٹھے بیٹھے سائیڈ ٹیبل سے پنسل کاپی لیا اور لکھنے کو تھی کہ آمنہ کی تنبیہ کچن سے گونجی
“ضحی فریش ہو جاؤ ،لباس تبدیل کرو. اپنے کمفرٹ زون کو چیلنج کرو”۔
ضحی نے بد دلی سے کاپی رکھی اور جوتے پہنے۔ جب تک آمنہ ناشتہ لائی وہ تین لائینیں لکھ چکی تھی۔ آمنہ کے سامنے کاپی رکھ کر ضحی نے جو کے دلیے کا پیالہ اٹھایا اور پوچھا۔
“اب؟ اس کو لکھ لیا۔ اب کیا ہوا کچھ بھی نہیں۔منفی سوچیں تو پھر بھی آئیں گی؟ “۔
آمنہ نے اس کی کاپی اٹھائی، پیراگراف پڑھا اور پھر کہا
” ہمارے اوپر منفی سوچیں، ماحول، رویے اور تلخیاں ایک دم اثر نہیں کرتی ۔
وہ ایک عرصہ سے غیر محسوس طریقے سے اپنا کام کر رہی ہوتی ہیں ۔ ان سے نکلنے کے لیے بھی غیر محسوس طریقہ ہی استعمال کیا جاتا ہے ۔ذہن کو غیر محسوس انداز میں اچھی سوچ کا عادی ہونا چاہیے ۔ کچھ دن بعد تمہارے پیراگراف بہت اچھے ہوں گے تو تم خود دیکھو گی”۔
وقت انسان کے زخموں کی مرہم ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ زخم ٹھیک ہی ہو جاتا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم خود کو وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے نہ دیں بلکہ اپنے آپ کو سمیٹ کر اپنے مقاصد اور خوابوں کوساتھ لے کر فلاح و کامیابی کی طرف بڑھیں۔
شام کو واک سے واپسی پر ضحی کی حالت غیر معمولی خراب تھی ۔
اس نے جیسے خود سے تنگ آکر پوچھا “زرا سی تبدیلی پر دماغ کاٹ کھانے کو کیوں دوڑتا ہے؟”
آمنہ نے اس کے سوال کو صبر سے سنا اور اس کی طبیعت بہتر ہونے کا انتظار کیا۔ رات کے کھانے پر اپنے ازلی نرم انداز میں گویا ہوئی
“کیونکہ جیسے شروع میں منفی چیزوں کو ذہن قبول نہیں کرتا ہم الجھنے لگتے تھے۔اس لیے اب اس فوبیا کے فیز میں داخل ہو گئے ہیں ۔ تو اب مثبت کاموں کو ذہن قبول نہیں کرتا۔ پر ہمیں اچھے کاموں سے رکنا نہیں چاہیے ۔ کل نیا دن، نیا خواب اور نئی پہلے سے بھرپور ہمت سے شروع کریں گے اب جلدی سونا چاہیے۔”
چاند کی چاندنی میں ضحی آمنہ کی ہدایت پر آنکھیں بند کرکے لیٹی تھی۔ نیند آۓ یا نہیں پر آنکھیں بند کرکے وہ خواب دیکھ رہی تھی۔ شاید میں ٹھیک ہوجاؤں اور پھر سے فیکٹری جا سکوں۔ اپنا حق، اپنا جیون ساتھی، اس کے ساتھ اپنا خوبصورت سا گھر اور اپنا رزق تلاش کرسکوں۔” اب مجھے امید بھرے خواب سوچنے کی عادت بنانی ہے ”

Advertisements
julia rana solicitors london

Jameel sent 6 March at 17:01
” خود سے ہم کلام ہوتے ہوتے نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔
دور ٹیبل پر نیند کی دوائیوں کے شاپر پر رات کی رانی کھڑکی کے پار ہنس رہی تھی۔
“امید تو آب حیات ہے اور امید خوابوں میں رنگ بھرتی ہے پھر دل امید کی تھاپ پر رقص کرکے غنی ہوجاتا ہے”
#جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply