موجودہ عورت کے مسائل اور متنازع نعرے۔۔خنساء سعید

عورت گھر کی زینت، زمین کا زیور، دل کا سکون، قوموں کی عزت، ویرانے کی رونق، خلوت کی آبادی، گلشنِ ہستی کا سب سے خوبصورت پھول، عورت کتابِ زیست کا دیباچہ ہے، عورت کے متعلق مختلف مفکرین نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے علامہ اقبال نے کہا! “وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ “انگریزی کے شاعر ملٹن نے نابینا ہونے کے باوجود کہا کہ “عورت سب سے خوبصورت اور آخری آسمانی تحفہ ہے” بعض مفکرین نے عورت کو تمام خوبیوں کا مجموعہ کہا تو بعض نے کہا کہ عورت زندگی کے حسین ترین رازوں میں سے ایک راز ہے۔

عورت جو کائنات کی بہترین تخلیق تھی اس کی حیثیت مختلف ادوار میں مختلف رہی،ہر دور میں  عورت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا، اقوام قدیمہ میں جو قوم سب سے زیادہ مہذب سمجھی جاتی تھی وہ اہل ِ یونان تھے ان کی نظر میں عورت ایک ادنیٰ  درجے کی مخلوق تھی. تمدنی ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں یہ طرز عمل تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ برقرار رہا،عصمت فروشی یونانی معاشرے کے ادنیٰ طبقے سے لے کر اعلیٰ طبقوں تک ہر ایک کے لئے توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا، “کام دیوی” کی پرستش عام یونان میں پھیل گئی، آرٹ کے ماہروں نے شہوانی جذبات کو مجسموں میں نمایاں کیا یونانیوں کے بعد اہل روم کا نظریہ عورت کے بارے میں بدلتا چلا گیا ان کے ہاں نکاح ایک قانونی معاہدہ بن کر رہ گیا اخلاق اور معاشرت کے بند جب ڈھیلے پڑگئے تو روم میں شہوانیت عریانی اور خواہشات کا سیلاب پھوٹ پڑا، تھیٹروں میں بے حیائی کے مظاہرے ہونے لگے قیصر ٹائیبریس کے عہد میں معزز خاندانوں کی عورتوں کو طوائف بننے سے روکنے کے لیے ایک قانون نافذ کرنے کی ضرورت پیش آئی،یونان اور روم کے بعد دنیا کی تیسری بڑی تہذیب ایران میں بھی عورت پر ظلم و ستم کیے جاتے عورت جو ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا نوشیرواں عادل کے دور میں عورت کے ساتھ سب سے زیادہ بے ذلت آمیز سلوک کیا گیا،بات اگر دنیا کے مذاہب کی جائے تو اسلام کے علاوہ کسی مذہب نے بھی عورت کو وہ عزت و تکریم عطا نہ کی جس کی وہ حق دار تھی۔

تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی آمد  سے قبل عورت کا وجود ذلت اور شرم کا باعث سمجھا جاتا تھا عورت نہ ماں کے روپ میں معتبر ہستی سمجھی جاتی نہ بہن کے روپ میں نہ بیوی نہ بیٹی کے روپ میں اسلام سے قبل عورت کو انسان ہی نہ سمجھا جاتا تھا مگر پھر اسلام کی وسیع اور روشن تعلیمات نے عورت کو اُس کے جینے کا حق دیا عورت کو سارے حقوق ساری آزادی اسلام نے دے ڈالی عورت ماں بہن بیٹی بیوی ہر روپ میں ہر رشتے میں تکریم کے قابل سمجھی جانے لگی اسلام نے عورت کو وہ بلند مقام و مرتبہ عطا کیا جو کوئی اور مذہب نہ عطا کر سکا مگر جیسے جیسے معاشرہ ترقی کرتا گیا لوگوں میں جہالت بڑھتی گئی اور اس ترقی یافتہ مگر جاہل معاشرے نے عورت سے اُس کے وہ سب بنیادی حقوق چھین لیے جو اسلام نے عورت کو عطا کیے تھے.موجودہ دور کی عورت مسائل کا شکار ہوتی چلی گئی. اب ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن پر عورت کو اُس کا کھویا ہوا وقار واپس دلانے کے لیے عورت کے بنیادی حقوق کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں عورت کے حقوق اور اس کی آزادی کے نام پر ایک”میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ لگانے والا طبقہ جس میں مشکل سے مٹھی بھر عورتیں شامل ہیں، عورتوں کی آزادی اور حقوق کے لیے احتجاج کر رہی ہیں جن کے مقاصد میں عورت کے بنیادی مسائل، عورت کے ساتھ ظلم و استحصال کو روکنا نہیں، بلکہ عورت کو باغی بنانا ہے، عورت کو مادر پدر آزادی دلانا ہے، عورت کو گھر کے مردوں سے آزادی دلانا ہے، عورت کو اپنے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کے مقابل کھڑے کرنا ہے،عورت کو مردوں کے خلاف بغاوت پر اُکسانا ہے، جبکہ عورت اور مرد دونوں کو ہی نسل آدم کہا گیا ہے ایک مکمل اور خوبصورت معاشرے کی تشکیل تو مرد اور عورت دونوں سے مل کر ہوتی ہے ایسا کسی ملک میں نہیں ہے کہ وہاں صرف مرد ہی مرد ہوں کوئی عورت نہ ہو اور نہ ہی کبھی کہیں ایسا دیکھا گیا ہے کہ کسی ملک میں صرف عورتیں ہی رہتی ہوں کسی مرد کا وہاں پر وجود ہی نہ ہو تو ایک بہترین معاشرہ مرد اور عورت دونوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ “میرا جسم میری مرضی” والی عورتیں یورپین عورت کی آزادی پر رشک کرتی ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ پاکستانی عورت کو بھی وہ ہی آزادی ملے جو یورپ میں عورت کو حاصل ہے۔بات اگر یورپین عورت کی آزادی کی جائے تو یورپی یونین ایجنسی کے کئے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق یورپ کے تمام پینتیس ممالک میں عورت کی اکثریت غیر مخفوظ ہے، یورپی تحقیقی ادارے ایف ۔آر۔ اے نے یہ انکشاف کیا ہے کہ یورپ میں سولہ سال سے لے کر اُنتیس سال تک کی 83%فیصد خواتین نے اپنی عزت کی خفاظت کی خاطر اپنی آمدورفت کم کر دی ہے،ایف ۔آر۔ اے کی ہی رپورٹ کے مطابق ہر سال پورپ میں 2 کڑور 20لاکھ سے زائد عورتیں، کم سن لڑکیاں جسمانی تشدد، زیادتی، اور ہراسانی کا نشانہ بنتی ہیں.تو پھر دے دی جائے ان عورتوں کو یورپی عورت جیسی آزادی تاکہ کہ یہ سب خواتین اپنے قیام و طعام کا بندوبست خود کریں نوکریاں کریں گھر آکر کھانا بنائیں اپنے سارے گھر کے کام باہر کے کام خود کریں اور اپنی عزت کی حفاظت بھی خود کریں۔ اس شدت پسند فیمنسٹ طبقے کا مقصد پاکستانی عورت کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانا نہیں ہے بلکہ پاکستانی عورت کو تباہ کرنا ہے کیونکہ اگر پاکستانی عورت تباہ ہو گی تو پاکستان میں موجود خاندانی نظام تباہ و برباد ہو جائے گا. میں پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ یہ ہی مائیں اگر اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کر دیں تو پھر نسلیں خوشحال اور آباد رہیں گی۔

موجودہ عورت کے بہت سارے بڑے بڑے مسائل ہیں، عورت کو وراثت میں سے حصہ نہ دینا، تعلیم کے مواقع فراہم نہ کرنا، جہیز کے نام پر لوٹ مار کرنا، عورت کو جہیز نہ لانے کی صورت میں زندہ جلا دینا ، طلاق کے بعد دوسرے نکاح کے مسائل وغیرہ. قبائلی علاقہ جات میں عورت آج بھی مظلومیت کا استعارہ ہے، عورت کی قرآن سے شادی، عورت کو ونی کر دینا، بہت چھوٹی عمر میں شادی، گھریلو تشدد، تیزاب گردی، ، عورت کی عزت و ناموس کا تخفظ، یہ سب موجودہ عورت کے مسائل ہیں، جن علاقوں میں شرح نا خواندگی زیادہ ہے وہاں پر عورت کے بے شمار مسائل ہیں اُن علاقہ جات میں عورت کی صحت کا مسئلہ سب سے بڑا ہے. زچگی کے حوالے سے بے شمار مسائل ہیں وہاں پر عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے اور بعض اوقات تو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا۔

موجودہ عورت کے مسائل میں ٹھیک طریقے سے بیٹھنا، موزے ڈھونڈ کر دینا، کھانا گرم کر کے دینا، ڈوپٹہ مرد کی آنکھوں پر باندھنا، سڑک پر اپنی مکمل اجارہ داری جما کر چلنا، شرم و حیا کا تعلق کپڑوں کو چھوڑ کر سوچ سے جوڑنا، میرا جسم میری مرضی جیسے متنازع اور فحش نعرے لگا کر بے حیائی اور فحاشی پھیلانا ہر گز نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عورت کی آزادی اور حقوق کے نام پر ایسے فحش نعرے لگا کر قبائلی اور پسماندہ علاقہ جات کی عورت کے مسائل کا حل ہر گز ممکن نہیں ہے بلکہ عورت کے مسائل میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے. موجودہ عورت کے مسائل کا حل مردوں کو برا بھلا کہنے مردوں کے ساتھ بغاوت کر کے ممکن نہیں ہے سڑکوں پر مردوں کے خلاف نعرے لگا کر کسی بھی عورت کو آزادی نہیں مل سکتی بلکہ ایک مضبوط اور مستحکم معاشرہ ضرور ٹوٹ سکتا ہے۔ آج کی عورت کو صرف وہ ہی حقوق چاہئیں جو اسلام نے آج سے پندرہ سو سال پہلے ہی عطا کر دیے تھے۔ نسائیت کو فخر کرنا چاہیے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے باپ، بھائی،شوہر، بیٹے جیسے خوبصورت اور مخفوظ سائبان عطا کیے ہیں۔ ہمیں فخر ہے اس بات پر کہ ہم عورتوں کی تاریخ میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت زینب رضی اللہ عنہا، مادر ملت فاطمہ جناح، رضیہ سلطانہ، چاند بی بی، طرابلس کی فاطمہ بنت عبداللہ، الجزائر کی جمیلہ، فلسطین کی لیلیٰ بنت خالد جیسی بہادری اور شجاعت سے بھری مثالیں موجود ہیں۔

Facebook Comments