سینٹ الیکشن اور بدنما جمہوری رویے۔۔صدف ظفر

اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایسا ملک جس میں قانون کی بالادستی ایک بنیادی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔۔پاکستان میں قانون سازی کا یہ عمل 1973 کے آئین کے تحت چلتا ہے۔1973 کے آئین کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹری طرز حکومت متعارف کروایا گیا۔جس میں دو ایوانی قانون سازی کا عمل وجود میں آیا۔جس کی بنیاد دو طرح کے ایوانی نظام پر رکھی گئی جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ قومی اسمبلی

2۔ سینٹ

آئین کے آرٹیکل”50″کے تحت مجلسِ شوریٰ یعنی (پاکستانی پارلیمنٹ)تین حصوں پر مشتمل ہے جیسا کہ صدر،قومی اسمبلی اور سینٹ۔۔لیکن صدر کے انتخاب کے لئے دونوں ایوان یعنی کہ  قومی اسمبلی،سینٹ اور انِ کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیاں بھی برابر حصہ لیتی ہیں۔

اس چیز کو مدِنظر رکھتے ہوئے 3 مارچ 2021 کو ایوانِ بالا کا الیکشن منعقد ہوا،جس کے لیے ایک مقررہ شیڈول الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کیا گیا۔اس الیکشن کی اصل وجہ سینٹ کی 107 نشستوں میں سے 52 کا خالی ہونا ہے  اور ان 52 نشستوں میں سے 37 نشستوں کی بحالی کے لیے الیکشن منعقد کروایا گیا۔ اس انتخاب کے لیے چاروں صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران نے سینٹ کے 37 اراکین کو منتخب کرنے کے لئے ووٹنگ کی۔اس الیکشن کے نتیجے میں منتخب ہونے والے سینٹ کے 37 ارکان کو اگلے تین سال یعنی (2021 تا 2024) کے لئے منتخب کیا جائے گا۔

جس میں ایوان بالا کی نشستوں کی تقسیم کچھ یوں ہے کہ اپوزیشن اتحاد 53 نشستوں کے ساتھ ایوانِ بالا کی پہلی بڑی جماعت ہے جبکہ PTI گورنمنٹ 47 نشستوں کے ساتھ ایوانِ بالا کی دوسری بڑی جماعت ہے اور باقی ساتھ آزاد نشستوں کو اس بار الیکشن میں شامل نہیں کیا گیا۔

بالآخر وہ وقت آیا جس کا ہر پاکستانی کو انتظار تھا اور 3 مارچ 2021 کو ایوانِ بالا کے ہر فرد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔جس کے نتیجے میں موجودہ گورنمنٹ اپنے اتحادیوں کے ساتھ 18 نشستوں سے ایوانِ بالا کی پہلی بڑی جماعت نامزد ہوئی جبکہ اپوزیشن اتحاد 13 نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی جماعت نامزد ہوئی۔اس کے ساتھ مزید 6 نشستیں PTI گورنمنٹ کو اتحادیوں کی صورت میں بلوچستان عوامی پارٹی کی طرف سے حاصل ہوئیں۔

ان نتائج کے سلسلے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ بظاہر خود کو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی اتحادی جماعت کہلانے والی PDM نے اپنی بدعنوانی کا زور ایک بار پھر سے آزمایا اور اپنی کرپٹ مافیا اور لوٹ مار سے کمائی گئی دولت سے لوگوں کے ضمیر کو خریدنا شروع کیا۔۔اور پھر یوں ہی لوگوں کے ضمیر کی کھلم کھلا بولیاں لگتی رہیں۔۔لیکن الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا رہا۔

آخر کیوں؟

اور پھر اسی بدعنوانی کے ذریعے پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی دولت کے زور پر ایوانِ بالا کی بڑی سیٹ اپنے نام کروانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔جس پر اپوزیشن کی طرف سے یوسف رضا گیلانی اور حکومت کی طرف سے حفیظ شیخ آمنے سامنے تھے۔۔اور پھر ہمیشہ کی طرح رشوت اور بدعنوانی کامیاب ہوئی اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ایوانِ بالا کی بڑی سیٹ اپنے نام کرنے میں  کامیاب ہوئے اور موجودہ گورنمنٹ کی حفیظ شیخ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جو کہ موجودہ دور حکومت کیلئے ایک بڑا اپ سیٹ تھا۔

اب اس PDM کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ 35 سال سے ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے حامی لوگ،آج ایک ساتھ ایک ہی مینڈیٹ پر اکٹھے ہو گئے ہیں۔وہی PMLN جو کہ یوسف رضا گیلانی کو نااہل ٹھہرانے کے کریڈٹ لیتی تھی اور آج وہی PMLN گیلانی کی جیت کا جشن منا رہی ہے۔تو اس بات کی تائید کچھ یوں کی جاسکتی ہے کہ

“دشمن کا دشمن بھی وقت آنے پر دوست بن سکتا ہے”

انِ سب حالات میں کہیں نہ کہیں الیکشن کمیشن کی نااہلی بھی شامل ہے کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی چیئرمین الیکشن کمیشن نے اس عمل کو  ایک شفاف الیکشن قرار دیا۔۔ جبکہ اعداد و شمار کے مطابق ہر پارٹی کے اتحاد کے ساتھ PTI ایک اکثریتی جماعت تھی۔ تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہماری قوم کے ساتھ ساتھ یہ عدلیہ اور اداروں کی نااہلی بھی ہے کہ اس واضح صورتحال پر بھی کوئی سوال نہ اٹھا سکے۔ پھر وقت پلٹا اور PDM کو منہ کی کھانی پڑی۔۔جب موجودہ صورتحال عوام نے سوال کرنا شروع کیا اور ان کی بد عنوانی کا ثبوت سوشل میڈیا پر ہر جگہ نظر آنے لگا۔۔پھر PDM کی بدعنوانی کو شکست دینے کے لیے موجودہ وزیراعظم(عمران خان)نے ایوانِ بالا سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا۔۔کیونکہ PDM کے مطابق ان کی طرف سے چلائی گئی، تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور حکومت کے اپنے ممبران نے حکومت کو ووٹ نہ دے کر موجودہ گورنمنٹ پر عدم اعتماد کا کھلم کھلا اظہار کیا۔۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس رہی اور سودے بازی جو کہ PDM کی طرف سے کی گئی اس کا کُھلا ثبوت 6 مارچ 2021 کو ساری قوم کے سامنے ملا۔

جب وزیراعظم عمران خان نے یہ اعلان کیا کہ وہ خود ایوانِ بالا سے اعتماد کا ووٹ لیں گے  اور پھر عین اسی دن یہ بھی منظر سامنے آیا کہ اپنی جیت کا جشن منانے والی PDM دوبارہ ہارنے کے خوف سے ایوان بالا چھوڑ کر بھاگ گئے۔

اس کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ اگر وہ ایوانِ بالا کا اعتماد نہ حاصل کر سکے تو وہ حکومت سے دستبردار ہو کر اپوزیشن میں شامل ہو جائیں گے۔۔اس  کے ساتھ یہ بات واضح ہے کہ اپوزیشن اتحاد کا بائیکاٹ نہ صرف موجودہ حکومت کی توہین  تھی ،بلکہ ایوانِ بالا کی بھی یہ توہین تھی۔۔اپوزیشن اتحاد کی جانب سے ہر طرح کے لگائے گئے الزامات جس میں غنڈہ گردی،دہشت گردی اور نازیبا رویہ شامل ہے۔۔یہ  سب ڈھونگ PDM کے تمام اتحادیوں نے نہ صرف اپنی جھوٹی سیاست کو بچانے کے لیے کیا بلکہ تمام اپوزیشن اتحاد نے اس میں ایک دوسرے کا دفاع بھی کیا اس لیے ایوانِ بالا کا بائیکاٹ کرنے کو ترجیح دے کر ایوانِ بالا کی توہین بھی سرِ عام کی۔ پھر اسی اثنا میں 6 مارچ 2021 کا دن PTI کی گورنمنٹ کیلئے  ایک بار پھر کامیابی کی ایک نئی صبح لے کر طلوع ہوا۔اور جب وقتِ مقرر آیا تو عمران خان اپنی موجودہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ 178 اعتماد کے ووٹ لے کر ایوانِ  بالا  میں سرخرو ہوئے۔۔اور یوں PDM کا سارا ڈھونگ اور ڈرامہ بے نقاب ہوا اور اسی کے ساتھ ساتھ حق اور باطل کا فیصلہ ہوا۔

وزیراعظم پر ایوانِ  بالا اور عوام کا بھرپور اعتماد اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے اور انسان کو اپنی حقیقت سے زیادہ دیر منہ نہیں موڑنا چاہیے۔

یہ تھی اس PDM کی بیہودہ سیاست اور کپتان کی جیت۔۔

اس کے  ساتھ  ساتھ میں یہ کہوں گی کہ بس بہت دھوکا کھا لیا اس کرپٹ مافیا سے اب وقت ہے ان کے احتساب کا اور ان کی سرعام سزا کا۔۔جو کہ آنے والے لوگوں کے لئے نشانِ عبرت بنے۔۔ اور پاکستان کو ایسے کرپٹ ٹولے سے پاک کیا جائے۔۔آئیں اس میں پاکستان اور کپتان کا ساتھ دیں اور ایک مضبوط اور وفادار پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔۔

پاکستان زندہ باد۔۔

عمران خان زندہ باد۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

صدف ظفر انگریزی ادب کی طالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی حالات پر گہری نظر رکھتی ہیں-

Facebook Comments