رویے

ہمارے رویے خطرناک حدود سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ہماری گفتگو, ہماری سوچوں میں زہر انتہا درجے کا سرایت کر چکا ہے۔ جو سب سے زیادہ مہلک ثابت ہو رہا ہے وہ مذہبی رویے میں تبدیلی ہے۔ آج اگر کوئی ایک مکتبہ فکر اپنا نظریہ بیان کرتا ہے تو دوسرے کے ساتھ مثبت بات چیت کی بجاۓ نفرت آمیز طریقے سے جواب دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں علمی میدان میں نئی چیزوں کی دریافت کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔
رویوں میں تبدیلی کی ایک وجہ بہت سی مذہبی جماعتوں کا وجود ہے۔ ۔ ۔جب کوئی شخص کسی ایک جماعت سے منسلک ہو جاتا ہے تو وہ یہ نہیں سوچتا کہ دوسری جماعت جو کر رہی ہے اس کی بھی ضرورت ہے۔ بلکہ وہ یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ جو میں کر رہا ہوں صرف یہی دین ہے۔ ۔ ۔دوسرے لوگ بھٹک گئے ہیں۔ ۔ ۔ہم میں سے اکثر کی سوچ یہی ہے، ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہے ہماری آنے والی نسلیں ان منفی رویوں سے محفوظ رہیں۔
اگر آج کوئی داڑھی کے بغیر دین کے کسی موضوع پر بات کرتا ہے تو اس کے ساتھ تو بعض اوقات اتنا برا کیا جاتا ہے جس کا کوئی حساب نہیں۔ ۔ ۔کافر، ملحد کے فتاوٰی لگا دیئے جاتے ہیں چاہے وہ بات ٹھیک کر رہا ہو۔ ۔ ۔یہ سب کچھ صرف” لائسنس “کی عدم دستیابی کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ ۔ ۔
” لائسنس “کے ساتھ الیاس گھمن صاحب جو بھی کریں ان کی حفاظت ہو گی۔ ۔ ۔اقبالؒ جنت کا علیحدہ نظریہ رکھیں وہ ذکر نہیں کیا جاۓ گا۔ ۔ ۔لیکن ایک بات طے کر لی گئی ہے کہ اگر کوئی عام شخص، مخالف یا بنا داڑھی کے کوئی بات کرے گا تو اسے برداشت نہیں کیا جاۓ گا۔۔۔
ہمیں یہ رویے بدلنے کی ضرورت ہے

Facebook Comments

عمیر ارشد بٹ
مرد قلندر،حق کا متلاشی، علاوہ ازیں سچ سوچنے اور بولنے کا عادی ہوں۔ حق بات کہتے ہوۓ ڈرنے کا قائل نہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply