روشنی-رفتار کا مسئلہ(4)۔۔وہارا امباکر

میکسویل کی مساوات کی شاندار کامیابی نے ایک بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ میکسویل کی تھیوری نیوٹونین فزکس میں ریلیٹیویٹی کے اصول کی خلاف ورزی کرتی تھی۔ اس اصول کے تحت رفتار تو ہمیشہ کسی کے مقابلے میں ہی ہوتی ہے۔ مثلاً، اگر چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار پر چلتی ٹرین میں کوئی شخص بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند آگے کی طرف پھیکنے تو اس گیند کی رفتار ٹرین کے باہر کھڑے شخص کے لئے ساٹھ میل فی گھنٹہ جبکہ ٹرین میں سوار شخص کے لئے بیس میل فی گھنٹہ ہو گی۔ لیکن اس کے مقابلے میں میکسویل کی مساوات بتاتی تھیں کہ آبزرور خواہ کسی بھی حالت میں ہو، الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ سب کے لئے یکساں رفتار رکھتا تھا۔ یہ دو یکجائیوں کے درمیان کا تنازعہ تھا۔ دونوں نیوٹونین فزکس کے لئے مرکزی تھیں۔
ایک یہ کہ ہر شے مادہ ہے جس پر نیوٹن کے حرکت کے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرا حرکت اور سکون کی یکجائی تھی۔ اس وقت کے زیادہ تر فزسسٹ کے لئے جواب آسان تھا۔ میٹیرئل کائنات کا آئیڈیا کسی بھی دوسرے آئیڈیا سے زیادہ مقدم تھا۔ لیکن چند ایک کے لئے یہ قابلِ قبول نہ تھا۔ اس اقلیت کیلئے ریلیٹیویٹی کا اصول زیادہ مقدم تھا۔ ان میں سے ایک زیورخ کے نوجوان طالبعلم آئن سٹائن تھے۔ انہوں نے اس مسئلے پر دس سال تک کام کیا اور 1905 میں آخرکار اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اس مسئلے کا حل کسی اور ہی طرف سے ملے گا۔ ہمیں سپیس اور ٹائم کی سمجھ میں یکسر تبدیلی کی ضرورت ہے۔
آئن سٹائن نے اس معمے کو حل کرنے کیلئے وہی زبردست حربہ استعمال کیا جو نیوٹن اور گلیلیو نے حرکت کے لئے استعمال کیا تھا۔ یہ ریلیٹیوٹی کے اصول کا استعمال تھا۔ انہیں پتا لگا کہ الیکٹرک اور میگنیٹک اثرات کا اپنا تعلق بھی آبزرور کی حرکت سے ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میکسویل کی یکجائی اس سے زیادہ بڑی تھی جتنا میکسویل کا اپنا خیال تھا۔ نہ صرف یہ دونوں فیلڈ ایک ہی فینامینا کے الگ پہلو تھے بلکہ آبزرور پر بھی منحصر تھے۔ ایک آبزرور فینامینا کو الیکٹریسیٹی کے طور پر بیان کرے گا جبکہ دوسرا، جو پہلے کے مقابلے میں حرکت کر رہا ہو گا، میگنیٹزم کے طور پر۔ لیکن دونوں اس سے اتفاق کریں گے کہ ہو کیا رہا ہے۔ اور یوں آئن سٹائن کی سپیشل تھیوری آف ریلیٹیویٹی کی پیدائش ہوئی۔ گلیلیو کی حرکت اور سکون کی یکجائی اور میکسویل کی الیکٹریسیٹی اور میگنیٹزم کی یکجائی، دونوں ہی اکٹھے ہو گئے۔
اس سے بہت کچھ حاصل ہوا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ روشنی کی رفتار، آبزرور کی حرکت سے آزاد اور یونیورسل ہونی چاہیے۔ ایک اور یہ کہ سپیس اور ٹائم کی بھی یکجائی ہے۔ اس سے پہلے ان میں واضح فرق تھا۔ وقت آفاقی تھا اور ہر ایک کے لئے ایک ہی تھا۔ آئن سٹائن نے دکھایا کہ نہیں، وقت بھی ریلیٹو ہے۔ ایک دوسرے کے مقابلے میں متحرک آبزرور اس پر اتفاق نہیں رکھیں گے کہ دو واقعات ایک ہی وقت میں ہوئے یا نہیں۔ یہ یونی فیکیشن آئن سٹائن کے 1905 کے پیپر میں واضح طور پر بیان نہیں کی گئی لیکن ان کے استاد ہرمن منکوسکی نے 1907 میں اس کی بنیاد پر لکھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر بھی مقابلے میں یکجائی کے بالکل الگ تصورات اور کوششیں تھیں۔ میکانسٹ فزسسٹ کی طرف سے یونیفائیڈ فزکس کا خوبصورت خیال تھا۔ “ہر شے مادہ ہے”۔ آئن سٹائن نے دوسرا راستہ لیا تھا، جو حرکت اور سکون کی یکجائی کا تھی اور اس کو پانے کے لئے انہوں نے ایک زیادہ گہری یکجائی ایجاد کر لی جو سپیس اور ٹائم کی تھی۔ ایسی چیزیں جو بالکل الگ تصور کی جاتی تھیں، صرف آبزرور کی حرکت کے حساب سے ریلیٹو ہو گئیں۔۔
ان الگ راستوں میں سے کونسا ٹھیک تھا؟ یہ تنازعہ تجربے نے طے کیا۔ اگر آپ کو یقین تھا تھا کہ میکانسٹ درست تھے، تو آپ کا خیال تھا کہ آبزرور ایتھر میں اپنی رفتار کی پیمائش کر سکتا تھا۔ اگر آپ کو یقین تھا کہ آئن سٹائن درست تھے تو آپ کے خیال میں ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ تمام آبزرور برابر تھے۔
آئن سٹائن کے پیپر سے پہلے، کئی بار کوششیں کی گئی جن سے زمین کی ایتھر میں سے حرکت کا پتا لگایا جا سکے لیکن ناکام رہیں۔ ایتھر تھیوری کے سپورٹرز کی طرف سے اس تھیوری کو ایڈجسٹ کیا جاتا رہا۔ ہر ایڈجسٹمنٹ اس چیز کی وضاحت کرتی تھی کہ آخر اس حرکت کا پتا لگانے میں ناکامی کیوں ہو رہی ہے۔ اور یہ کرنا آسان تھا۔ کیونکہ یہ کام میکسویل کی تھیوری سے کیا جا رہا تھا۔ اور میکسویل کی مساوات کی درست تشریح آئن سٹائن کی توقع سے مطابقت ر
کھتی تھی اور یہ تشریح بتاتی تھی کہ ایتھر کے مقابلے میں زمین کی حرکت کا پتا لگانا مشکل نہیں، ناممکن ہے۔ میکانسٹ فزکس کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کے پاس مساوات تو بالکل درست تھیں، لیکن ان کی تشریح غلط تھی۔
اور آئن سٹائن تو ابھی شروع ہو رہے تھے۔ سپیس اور ٹائم کے اکٹھا ہو جانے کا کام ابھی بہت گہرا ہونا تھا۔ جب تک فزسسٹ آئن سٹائن کے اس کام کو سمجھ سکے اور سپیشل تھیوری آف ریلیٹویٹی کو قبول کرنے لگے، آئن سٹائن ان سے بہت آگے بڑھ چکے تھے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply