• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پوپ فرانسس کا دورہ عراق اور مسلم مسیحی تعلقات۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

پوپ فرانسس کا دورہ عراق اور مسلم مسیحی تعلقات۔۔ڈاکٹر ندیم عباس بلوچ

رومن کیتھولک مسیحی برادری کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس پانچ مارچ سے عراق کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ شہر علم و ادب، مرکز فقہاء، عقیدتوں کے مرکز، اس شہر میں آرہے ہیں، جہاں سے دیئے گئے ایک فتوے نے جدید عراق کی بنیاد رکھی۔ نجف اشرف ایک مذہبی شہر ہے، اس کے جوار میں ان انبیاء کی قبور ہیں، جو مسلم مسیحی مذاہب میں مرکز ایمان ہیں۔ عراق زمانہ قدیم سے تہذیبوں کا مرکز ہے، اس نے کئی نئی تہذیبوں کو جنم دیا، وقت کے ساتھ ساتھ ان تہذیبوں کو اپنے دامن میں لے لیا اور آج یہ تہذیبیں دنیا کی توجہ کا مرکز بن رہی ہیں۔ دنیا کے تین بڑے الہامی مذاہب یہودیت، مسیحیت اور اسلام اپنا تعلق فخریہ طور پر حضرت ابراہیم ؑ سے جوڑتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ عراق میں ار نامی جگہ پر پیدا ہوئے تھے اور پھر وہاں سے ہجرت کرکے فلسطین تشریف لے گئے تھے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ عراق وہ سرزمین ہے، جو دنیا کے تمام الہامی مذاہب کے لیے مقدس ہے اور تمام کو جوڑنے کا باعث بن سکتی ہے۔

آج بھی عراق میں جگہ جگہ حضرت ابراہیمؑ سے منسوب یادگاریں محفوظ ہیں اور دنیا بھر سے زائرین ان مقدس مقامات کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ دجلہ و فرات کے درمیان واقع یہ ملک دنیا کا تہذیبی دارالحکومت بننے کے قابل ہے، مگر استعماری قوتوں نے پہلے وہاں ایک ڈکٹیٹر کو مسلط کیے رکھا اور اب داعش اور عدم استحکام کی صورت المیہ سے دوچار ہے۔ عراق کا استحکام خطے میں ترقی کے مواقع لے کر آئے گا اور آج خطے کے مصنوعی حکمرانوں اپنی خاندانی بادشاہتوں کے تحفظ اور خطے کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے عراق میں بدامنی کو ہوا دے رہے ہیں۔ عراق میں بڑے پیمانے پر مذہبی فرقہ واریت اور نسلی اختلاف کا بیج بویا گیا ہے۔ آپ دیکھیے آج بھی عراقی عوام کو شیعہ سنی کے نام پر تقسیم کرکے رکھا گیا ہے اور نسلی اختلاف ایسا کہ آج کردستان عملی طور پر عراق سے الگ ایسے خطے کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں عراقی حکومت کا نام کا ہی کنٹرول ہے۔

اسی بدامنی کا نتیجہ ہے کہ عروس البلاد کہنے والا بغداد، جس نے سائنس و فلسفہ کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا تھا، اب اس کی خبر آئے تو یہی سمجھا جا رہا ہوتا ہے کہ کوئی بم دھماکہ ہوا ہوگا۔ عراق دنیا میں امن کا بہترین مقام بن سکتا ہے اور دنیا کے الہامی مذاہب کے لوگ یہاں مل کر اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ حضرت ابراہیمؑ کے پیغام کو یاد کرسکتے ہیں۔ یہ مشترکہ میراث ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ فرانس میں اسلامک فوبیا عروج پر ہے، عادات نسلوں میں منتقل ہوتی ہیں، فرانس صلیبی لشکروں کی روانگی کا ایک مرکز رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں اسلام کے حوالے سے شدت پسندی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ فرانسسی صدر اور حزب اختلاف کی جماعتیں ایک دو واقعات کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کا قانونی استحصال کرنے پر تلی ہیں۔

اسی طرح یورپ اور امریکہ میں بھی مسلمانوں کو مذہبی تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ایسے میں ایک بڑے مسیحی پیشوا کا دورہ نئے دور کی امید بن سکتا ہے۔ پوپ نے ویٹیکن میں کہا کہ میں خدا کی رضا سے تین روزہ دورے کے لیے عراق جاؤں گا، کیونکہ میں ایک طویل عرصے سے ان تمام لوگوں سے ملنا چاہتا تھا، جنھوں نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ پوپ نے درست کہا کہ عراق آج بھی غیر ملکی افواج کے ہاتھوں زخمی ہے، نیٹو فورسز نے اپنی تعداد مزید بڑھانے کا اعلان کیا ہے، ایسے میں یہاں تشدد کا خطرہ مزید زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ پوپ کا یہ دورہ اہل عراق کے لیے امید ہے کہ وہ نیٹو ممالک اور دنیا کی بڑی طاقتوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں کہ وہ عراق کو عراقی عوام کے لیے چھوڑ دیں۔

عراق کی مذہبی قیادت نے ہمیشہ مسیحیوں کا خیال رکھا، موصل اور دیگر مقامات سے بے گھر ہونے والے افراد کے لیے آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی نے اسی طرح وسائل فراہم کیے، جیسے مسلمانوں کے لیے فراہم کیے جا رہے تھے۔ عراق کے عتبات عالیہ یعنی امام حسین ؑ اور حضرت عباسؑ کے مزارات کی انتظامیہ نے بھی بڑے پیمانے پر ان مسیحی بے گھروں کی مدد کی۔ عراق کے مسیحیوں کی امام حسینؑ سے عقیدت دنیا بھر میں مشہور ہے، وہ مشی میں بڑے پیمانے پر شریک ہوتے ہیں اور صلیب اٹھا کر سید الشہداء امام حسین ؑ کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہا ر کرتے ہیں۔ مسلمانوں اور مسیحیوں کے اچھے تعلقات کا نتیجہ تھا کہ جب حشد الشعبی اور عراق کی مسلح افواج نے موصل اور دیگر علاقوں کو داعش سے آزاد کرایا تو پتہ چلا کہ وہاں داعش نے چرچوں کو بڑا نقصان پہنچایا ہے، صلیبوں سمیت مسیحی علامات کو گرا دیا گیا تھا۔ حشد الشعبی اور عراقی افواج نے فوری طور پر ان چرچز کو بحال کیا۔ ان ایام میں ایک تصویر بڑی وائرل ہوئی تھی، جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ حشد الشعبی کے جوان چرچ پر صلیب کو دوبارہ نصب کر رہے ہیں۔ اس ایک تصویر نے مسیحی مسلم ہم آہنگی کے لیے جتنا کام کیا، اتنا ہزاروں سیمینار نہیں کرسکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے، ایسے میں اس میں بسنے والے تمام مذاہب کے درمیان مکالمہ بہت ضروری ہوچکا ہے۔ پوپ نجف اشرف اتریں گے۔ اگرچہ شیڈول سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر نہیں بتایا گیا کہ وہ نجف اشرف میں آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی حسینی سیستانی سے ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات مسیحی مسلم تعلقات کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اس میں مسیحی اکثریت کے ممالک میں مسلمانوں کو درپیش چیلنجز پر بات ہوگی، اسی طرح مسلم اکثریتی ممالک میں بسنے والے مسیحیوں کو درپیش چیلنجز پر بھی بات ہوگی۔ یہ ملاقات دنیا بھر میں بین المذاہب مکالمہ کو فروغ دینے کا ذریعہ بنے گی۔ چودہ سو سال پہلے نبی اکرمﷺ نے نجران کے مسیحیوں کے ساتھ مکالمہ کی جس سنت کی بنیاد رکھی تھی، اس پر عمل کیا جائے گا۔ جس طرح اس ملاقات کے نتائج میں مسلمانوں کے لیے خیر تھی، ابھی بھی خیر ہوگی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply