عمران خان کی لاجواب تقریر۔۔محمد منیب خان

ایک زمانے تھا کہ واحد پاکستان ٹیلیویژن پہ خبروں کا وقت مقرر تھا۔ اگر میری یادداشت مجھے دھوکہ نہیں دے رہی تو غالباً پانچ بجےپنجابی اور اردو کا بلیٹن آتا تھا۔ سات بجے انگریزی خبریں نشر ہوتی تھیں اور نو بجے اردو میں مفصل خبرنامہ نشر کیا جاتا تھا۔اس دور میں بریکنگ نیوز کا وجود اس شکل میں نہیں تھا جیسا کہ موجودہ دور کے ٹی وی چینلز کا ہے۔ بلکہ سب سے بڑی بریکنگ نیوز تو ہوتی ہی وہ تھی جب کوئی نیوز نہیں ہوتی تھی اور پی ٹی وی پہ ایک مخصوص میوزک چلا دیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں  حکمران (وزرائے اعظم اور آمر) بھی خطاب کے لیے اکثر رات کا وقت منتخب کرتے تھے۔ اعلان شدہ وقت پہ قومی ترانہ، تلاوت کلام پاکاور بعد میں وزیراعظم کا خطاب شروع ہو جاتا تھا۔ اس دور کے حکمران ٹی وی پہ بہت زیادہ خطاب نہیں کرتے تھے البتہ خطاب کامقصد کسی اہم ایشو پہ قوم کو اعتماد میں لینا ہوتا تھا۔ کسی کی کوئی بھی سیاسی وابستگی ہو وزیراعظم کا خطاب سنا جاتا تھا۔  وزیراعظم کی ٹی وی خطاب کی روایت یونہی چلی آ رہی تھی کہ اچانک عمران خان صاحب نے اس کی فریکوئنسی میں اضافہ کر دیا۔قطع نظر اس بات سے کہ آپ کا تعلق کس جماعت سے ہے، آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ عمران خان صاحب کے کثیر خطابات میں کم و بیش ایک جیسا پیغام ہوتا ہے اور یہ ایک جیسی لفاظی لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں موجود ہر دوسرا شخص عمران خان کےخطاب کا متن پہلے سے جانتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بات بات پہ مغربی جمہوریت کا راگ الاپنے والے عمران خان اتنی ہی کثرت سے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے لیکن چونکہ انہیں اس بات پہ شرح صدر ہو چکا ہے کہ اسمبلی میں بیٹھے سب لوگ چور ہیں لہذاوہ ان سے مخاطب نہیں ہونا چاہتے۔ البتہ ان چوروں کو اسمبلیوں تک پہنچانے والوں سے براہ راست مخاطب ہونا ضروری ہے۔ ویسےبھی اسمبلی کا معاملہ تو یہ ہے کہ قائد ایوان کی تقریر کے بعد اپوزیشن کا کوئی ممبر تقریری حقائق کو چیلنج بھی کر سکتا ہے یا وہ یہ پوچھ سکتا ہے کہ اب تک عوام کے لیے کیا کیا گیا۔ جبکہ ٹی وی پہ خطاب کے دوران تو عوام نہیں پوچھ سکتی کہ یہ سارے سچ توہم اب ڈھائی سال سے مسلسل سن رہے ہیں۔ ان کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟ 2016 سے 2018 تک جو شرح افراط زر 4 فیصد کے گرد منڈلارہی تھی وہ 2020 میں تقریباً 11 فیصد تک کیسے چلی گئی؟ اور 2023 آپ کی حکومت کے مکمل ہونے تک یہ توقع ہے کہ یہ شرح 7-8 فیصد کے درمیان ہوگی۔ جبکہ اس دوران لوگوں کی آمدنیوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔

خان صاحب دعوی کرتے ہیں کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ جبکہ ان کی نظروں میں ایک مجرم نواز شریف سکون سے لندن میں بیٹھا اور دوسرا مجرم زرداری ایک روز قبل ہی اسلام آباد کے بام و در کو اپنی موجودگی کا احساس دلا چکا ہے۔ حمزہ شہبازبیس مہینوں کی جیل کاٹ کر باہر ہے۔ استغاثہ فی وقت کچھ  ثابت نہیں کر سکا۔ فواد حسن فواد بھی رہا ہو چکا ہے۔ شہباز شریف،خواجہ آصف اور خورشید شاہ پہ ابھی تک فرد جرم عائد نہیں کی جا سکی۔ رانا ثنا اللہ سے برآمد شدہ ہیروئن بلیک کیٹ ٹیلکم پاوڈرنکلی۔ احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق اور شاہد خاقان عباسی بھی باہر ہیں۔ اور تو اور وہ رکشے والا اور فالودے والا جن کے اکاؤنٹس سے زرداری صاحب کے اربوں روپے نکل رہے تھے وہ بھی کہیں نظر نہیں آ رہے۔ حالانکہ جس شد و مد سے لوگوں کے اکاؤنٹس سےپیسے نکل رہے تھھ میرے دل میں بھی ارمان پیدا ہوا کہ ایک آدھ ارب روپے میری اکاونٹ سے بھی نکل آئیں تو کیا ہی بات ہے۔ میں نہیں کہتا کہ کہ سب معصوم عن الخطا ہیں۔ اس چیز کا فیصلہ کرنے کے لیے جیسے تیسے عدالتیں موجود ہیں۔ لیکن جس شد و مد سے انکوتقریروں میں چور ثابت کیا جاتا ہے اس شد و مد سے استغاثہ کوئی ثبوت عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کر پاتا؟ اب جبکہ ڈھائی سالسے خان صاحب براہ راست اقتدار میں اس دور میں بھی کسی ایک ایسے مجرم کو سزا نہیں ہو سکی جن کو این آر او نہ دینے کا عزم خان صاحب ہر تقریر میں دہراتے ہیں۔

خان صاحب نے انتہائی درد مندی سے نوجوانوں کو سمجھانے کوشش کی کہ سینیٹ انتخابات میں کس طرح پیسہ چلا اور لوگ خریدےگئے۔ البتہ خان صاحب یہ وضاحت دینا بھول گئے کہ 2018 کے انتخابات کے بعد وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کے سارے آزاد امیدوار تحریک انصاف میں کی طرف لڑھک گئے؟ کیا وہ محض جہانگیر ترین سے ثواب دارین حاصل کرنے کےلیے ملے تھے؟ خان صاحب یہ بھی وضاحت کر دیتے کہ جس دن صادق سنجرانی کی عدم اتحاد کی تحریک ناکام ہوئی تھی اس دن کون لوگ بکے تھے اور کس نے خریدے تھے؟ اور خان صاحب نوجوانوں کو انتہائی دردمندی سے یہ بھی سمجھا  دیتے کہ کس طرح جھوٹے بیان حلفی پہ قومی اسمبلی کے ممبر بنے رہنے والےفیصل واؤڈا کو اب سینیٹ میں کیوں بھیج دیا گیا؟ بلوچستان سے سینیٹرمنتخب ہونے والے عبدالقادر کا قصہ بھی نوجوانوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہو سکتا تھا۔ لیکن خان صاحب نے ان سب باتوں کو دہرانامناسب نہ سمجھا۔

خان صاحب نے تقریر میں الیکشن کمیشن کو بھی سخت سست سنائیں۔ کہ گمان ہوا جائے الیکشن کمیشن ہی شفاف انتخابات کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ جبکہ ایک شفاف الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے اندر جسٹس وجیہہ کی سربراہی میں موجود تھا پھر اس جماعتی الیکشن کمیشن کا کیا ہوا؟ اگر نوجوان یہ سوال سوچ لیں تو ان کو خان صاحب کی الیکشن کمیشن پہ تنقید کی وجہ معلوم ہوجائے جسٹس وجیہہ چونکہ پارٹی کے بندے تھے لہذا انکے ضرورت سے زیادہ ایماندار دکھانے کیوجہ سے جماعت نے الوداع کہہ دیا۔ ممکن ہے خان صاحب قومی الیکشن کمیشن سے توقع کر رہے ہوں کہ وہ بھی تحریک انصاف کے حق میں ایمانداری کا مظاہرےکرے جو وہ ضمنی انتخابات اور بعد ازاں سینیٹ میں نہیں کر سکا۔

پاکستان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں جو بھی مسئلہ حل کرنے آتا ہے وہ خود کو مسئلے سے باہر رکھ کر حل ڈھونڈنا  شروع کرتاہے۔ حالانکہ  جو بھی وزیراعظم ہو وہ خود بھی مسئلہ کا حصہ ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا سمجھا نہیں جاتا۔ اگر ایسا سمجھاجانے لگے تو لیڈر کو دیوتا کون مانے گا؟ ہمارے ملک میں سیاستدان تو اب ہوتے ہی نہیں ہیں، دیوتا ہوتے ہیں۔ ہم سب کی جان ان  میں سے کسی نہ کسی ایک دیوتا کے ہاتھ میں ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا میں توقع کر سکتا ہوں کہ ان تحریک انصاف بطور جماعت اورعوام یہ زور ڈالیں کہ ہفتے کے روز خان صاحب قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ خفیہ رائے شماری سے لیں گے ویسے ہی جیسےصادق سنجرانی کے لیے کیا تھا؟ ویسے بھی خان صاحب تقریر میں کہہ چکے ہیں جو سمجھتا ہے کہ میں نااہل ہوں وہ مجھے چھوڑدے۔ تو اب کوئی کسی کو منہ پہ نااہل کہتا اچھا نہیں لگتا لہذا خفیہ بیلٹ ایک قابل عزت راستہ ہے۔ چلیں خان صاحب کو اتنے سخت امتحان میں نہیں ڈالتے البتہ کیا خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینے کے فوراً بعد اپوزیشن کو کہیں گے کہ اب سینیٹ الیکشن بھی ہو گئے،خرید و فروخت بھی ہو گئی، ایوان نے مجھ پہ دوبارہ اعتماد کا اظہار بھی کر دیا تو چلیں مستقبل کے انتخابات کے لیے ریفامز کرتےہیں۔ یقیناً ایسا بھی نہیں ہوگا۔ اگر سینیٹ الیکشن کو شفاف بنانا تحریک انصاف کی خواہش ہے تو یہ تو ہر تین سال بعد ہونے ہیں۔لہذا عین وقت پہ ہڑبونگ مچانے سے بہتر ہے کہ ابھی سے اس پہ سوچا جائے اور پارلیمانی کمیٹی اپنی سفارشات مکمل کرے۔

لیکن یقین رکھیں ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ خان صاحبشو آف ہینڈسے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ اپوزیشن اس کا بائیکاٹ کرے گی۔اور اس کے بعد اپوزیشن اگلے چند ماہ میں سارا زور قبل از وقت انتخابات کے لیے لگائے گی۔ مارچ میں اپوزیشن کا مارچ ہوگا، جون میں حکومت بجٹ پیش کرے گی۔ وہ بجٹ تعین کرے گا کہ انتخابات کا سال 2021 ہوگا یا 2022۔ اس سب کے بعد بھی اگر کچھ نہیں بدلے گا تو میرے محبوب عمران خان کی تقریر کا متن نہیں بدلے گا۔

عدم کا کیا خوبصورت مطلع ہے۔

تہی بھی ہوں تو پیمانے حسیں معلوم ہوتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

حقائق سے تو افسانے حسیں معلوم ہوتے ہیں

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)