چشمہء فیض اب سوکھے نہ تو اور کیا کرے ؟۔۔سید عارف مصطفیٰ

4 مارچ آیا اور گزر گیا مگر جاتے جاتے اپنی طرف سے مجھے ایک برس اور پرانا بھی کرگیا ۔۔۔ “اپنی طرف سے کا جملہ” یوں کہا کہ خواہ اس سے میری عمر کی گنتی میں ایک برس جڑ بھی گیا ہے تو کیا ہوا ۔۔ میرے ولولے تو اب بھی تواں  ہیں، جواں اس لیے نہیں کہا کیونکہ لوگ ایسے جملے کی طاقت کی بنیادوں میں ویاگرا سونگھنے لگتے ہیں اور یوں معاملہ جذبے کی سرشاری کا نہیں ناآسودہ جذبوں کی خواری کا بن جاتا ہے – یہاں ویاگرا کا لفظ محض مجبوری میں استعمال کیا ہے تاکہ معلومات عامہ خصوصاً جدید طبی معلومات سے میری واقفیت کے بارے میں کوئی مغالطے میں نہ رہے االبتہ اس بارے میں طریقہء استعمال اور نتائج و مابعد اثرات کے بارے میں استفسار کی جسارت ہرگز نہ کرے کیونکہ اس تفصیل کی راہ میں پردہ نشینوں کے نام بالکل بھی نہیں آتے۔

کچھ لوگوں کے بارے میں کچھ لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ پیدا نہیں ایجاد ہوئے ہیں ۔۔ چند مردم ناشناسوں کا اس عاجز کے بارے میں بھی یہی خیال ہے ۔۔۔ گو میں انکے اس خیال کو غلط ثابت کرنے کے لیے چوکسی سے کام لینے کی بھرپور کوششیں بھی کرتا ہوں مگر یہ چوکسی کبھی مطلوب مقدار سے کم تو کبھی زیادہ بلکہ بہت زیادہ ہوجاتی ہے اور یوں اپنی بابت اس مفسد نظریئے کی تدفین تاحال نہیں کی جاسکی ہے۔ میں اس دنیا میں آنے کے بعد سے اس سوال کا جواب تلاش کررہا ہوں کہ مجھے کیوں پیدا کیا گیا کیونکہ اب جبکہ عمر کی نقدی خاتمے کے قریب آن پہنچی ہے مجھے پوری طرح سے احساس ہوگیا ہے کہ میرے ہونے سے سوائے چند بچے ہونے کے تاحال کہیں بھی کوئی بھی فرق نہیں پڑسکا ہے تھوڑا بہت فرق البتہ روز دسترخوان پہ ضرور پڑتا ہوگا ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پس یوں سمجھیے کہ دنیا کے سارے چھوٹے بڑے کام اپنے آپ یونہی ہوئے چلے جارہے ہیں اور کبھی کسی کام کے لیے مجھ سے مشورہ تک نہیں مانگا جاتا اجازت لینا تو دور کی بات ہے حالانکہ ہرکسی سے ہمہ وقت سینگ پھنسانے اور ہر کام میں ٹانگ اڑانے بلکہ بیک وقت دونوں ٹانگیں اڑانے کا جو بے پناہ جذبہ میرے اندر موجزن ہے الفاظ اسکے بیاں سے عاجز ہیں ۔۔۔ جہاں تک مشورے و رائے کی بات ہے تو وہ بھی مشورہ لینے والے کی طاقت و برداشت کے اندر بلکہ بہت اور بیحد اندر ہی ہوتی ہے اور طالِب مشورہ کی اوقات و حسب ذوق ہواکرتی ہے لیکن پھر بھی لوگ نجانے کیوں اجتناب کرتے ہیں حالانکہ ان پہلے دیئے گئے مشوروں کی بنیاد پہ محض چھ سات بار رسوائی اٹھانے سے میری فہم کی نسبت مشکوک ہوجانا سراسر زیادتی ہے اور ان چند بدقسمت واقعات کی بناء پہ کسی عمومی کلیے کو تراش لینا چنداں مناسب نہیں ۔۔ تاہم لیکن جب تک  میں برسر زمین موجود ہوں ، مجھ سے استفادے کے سارے امکانات بھی سلامت ہیں۔۔ تاہم میری مایوسی اب دن بدن  بڑھتی جارہی ہے کیونکہ یہ بدقسمت دنیا اس چشمہء فیض سے منہ موڑے بیٹھی ہے اور اسے محض چند آوارہ پرندوں اور کچھ ناآسودہ بھٹکی ہوئی بھیڑ بکریوں کی تشنگی مٹانے ہی کے لئے وقف کر چھوڑا ہے جبکہ میری بیتاب آنکھیں اب بھی روز ہرنیوں کے غول اور مرغابیوں کے جھنڈ کی آس میں پوری کی  پوری کھلی رہتی ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply