جیسے کہ کتاب کے نام سے ہی ظاہر ہے،کہ یہ کتاب ایک سوال ہے۔معاشرے سے، اس سماج کی بنت کے ذمے داروں سے اور اس سوال کے جواب کو کھوجنے کی کوشش کی ہے، برصغیر کی چھ ہزار سالہ تاریخ کے تناظر اور سماج کے گروہوں کے ایک دوسرے سے اپنائے گئے موجودہ دور کے رویوں کے تناظر می لکھی یہ کتاب ان سماجی رویوں کی کہانی ہے، جس کا سامنا وادی سندھ (موجودہ پاکستان) کا بیٹا ہزاروں سال سے کرتا آرہا ہے، اِس سماجی استحصال کے ردعمل میں سندھ واسیوں کی موجودہ نسل کے ایک گروہ (مسیحیوں) نے جو سماجی رویے اپنالیے ہیں، کتاب میں انھیں موضوع بنایاگیا ہے ۔ اس کتاب میں دو نہایت تاریخی دستاویز ایس پی سنگھا کی پنجاب اسمبلی میں آخری تقریر اور جوگندر ناتھ منڈل کا استعفیٰ بھی شامل ہے یہ گجرات یونیورسٹی میں انگریزی زبان میں ترجمے کیلئے بطور ایم فل پروجیکٹ منتخب ہوئی Neglected Christian Children of Indus کے نام سے اسے انگریزی روپ دیا گیا۔ یہ کتاب پاکستانی مسیحیوں کو پاکستانی معاشرے میں درپیش مسائل دستیاب مواقعوں اور کمزوریوں و توانائیوں کا تخمینہ اور مکمل تجزیہ طکمخ کرتی ہے۔ ناظرین اس سوال میں چھپی ہے،معاشرتی بے گانگی کے مرض کی تشخیص اور یہ تشخیصِ مرض بعد میں اس مرض کے علاج کے طور پر لکھی گئی مزید دس کتابوں کی وجہ بنی ہے ۔
یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے جوکہ پہلے ایڈیشن کے مقابلے میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ شدہ ہے اور تحریک شناخت کا منبع بھی ثابت ہوئی۔ تحریک شناخت جو کہ پاکستانی مسیحیوں کی دھرتی سے نسبت آزادی ہند، قیام تعمیر و دفاع پاکستان میں ان کے اجداد اور موجودہ نسلوں کے شاندار کردار کے ذریعے مسیحیوں کی پاکستانی معاشرے میں قابل فخر شناخت کو اجاگر کرنے کی فکری تحریک ہے۔ میں بھی اس تحریک کے دیگر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے رضآ کاروں میں سے ایک ہوں۔اور میرے لئے یہ بھی اعزاز کی بات ہے ،کہ اس کتاب کی سچی کہانیوں کے اکثر کرداروں سے واقف بھی ہوں اور” اپنا کم ” مضنوں کا کردار بھی ہوں ۔اور اس کتاب کی تخلیق کے دوران کئی دفعہ ان کہانیوں کی بنت کے لئے مجھ سے مشورے بھی ہوئے۔( گو کہ یہ مشورے شاذو نادر ہی مانے گئے۔) اور پھر ان کہانیوں کو مجھے شروع میں شوق سے اور پھر بطور سزا کئی کئی بار پڑھنا بھی پڑا ہے۔
(یعنی پروف ریڈنگ) لہذا میں اس کتاب پر رائے دینے کی بجائے آپ کو اس کتاب کے کرداروں سے متعارف کروانے کی کوشش کرتا ہوں۔
اعظم معراج کی ہر کتاب غیر روایتی انداز میں شروع ہوتی ہے۔ انکی حمزہ توف اور امرتا پریتم کی نظموں سے ماخوذ نظم سنہری ققنس سے یہ ایک طویل آزاد نظم ہے جس کے شروع میں اعظم معراج سماجی استحصال کے ہاتھوں پسے ہوئے ہم وطن محروم طبقوں کو یوں مخاطب کرتے ہیں۔
اے وطن عزیز کے محروم وبے شناخت بچوں !
اور آخر میں ان بچوں کو سہنری ققنس سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”جن کی نظر روشنی کے میناروں سے اُٹھتی ہوئی دُور آسمانوں پر ہو اور وہ دن کے اجالوں میں سورج کی طرف لمبی اُڑانیں بھریں تو سمجھ لینا جن مہک دار گھونسلوں سے جواں قُقنس اڑتے ہیں ان گھونسلوں میں میرے بدن کی راکھ تھی“۔ اس نظم نما اظہاریے کی خاص بات یہ ہے جو اس نظم کوسندھی،پنجابی،سرائیکی،پشتو،انگریزی،ہسپانوی،میں ڈھالنے والوں کا کہنا ہے۔ کہ
” یہ نظم گو کہ اعظم معراج نے پاکستانی مسیحیوں کے تناظر میں لکھی ہے۔لیکن اس کا پیغام دینا کہ ہر بے شناخت و محروم انسان کو امیدِ سحر اور حیات نو کی نوید سناتا ہے۔”
دروغ بر گردنِ راوین۔
”پیش لفظ“ کے بعد دیباچہ ہے ،جسے تحریر کیا ہے ،اس عہد کے بڑے خاکہ نگار عرفان جاوید نے یہ دیباچہ بھی پاکستانی مسیحیوں پر ایک مقالے سے کم نہیں لکھا۔اس شاندار تحریر میں عرفان جاوید نے پاکستانی مسیحیوں کے پاکستانی معاشرے میں کردار کے ہر پہلو پر روشنی بھی ڈالی ہے۔ اس روشنی کی کرنیں کبھی عرفان جاوید کے قلم سے اس کتاب پر پڑتی ہیںِ اور کبھی اور یقینا ًیہ شعاعیں کتاب سے نکل کر عرفان جاوید کے لفظوں کے ذریعے ان ادبی حلقوں تک بھی یہ روشنی پہنچائے گی جہاں اس سے پہلے اس موضوع کے متعلق مکمل تاریکی تھی۔۔اس کتاب کی پہلی سچی کہانی۔۔”چاچا یونس“ ہے جو قاری کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے ،کہ کیسے کوئی اس سماجی تہمت کے خوف سے اپنے عزیز سے عرصہ دراز بعد ملنے کی خوشی کو قربان کرتا ہے۔ ؟ کہ کل کوئی میرے عزیز کو مجھ معاشرے کے دھتکارے ہوئے پیشے سے منسلک کی شناسائی کا طعنہ نہ دے اور اس خوف سے وہ بقول شاعر
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
اور یوں ”چاچا یونس“ کرب کے ساتھ اس خوشی کو قربان کر دیتا ہے۔ دوسری کہانی ”یار اسی وی جٹ زمیندار آں“ میں مصنف دوایسے دھرتی کے بیٹوں کے دکھ کو منظر کرتے ہیں۔ جو زبان سے چلائے گئے نشتر کے واروں سے تار تار اپنی روحوں کے گہرے زخموں کا علاج اپنے قدیم پیشے کاشت کاری سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ اور جب شربت کی ریڑھی والا انھیں دھتکارتا ہے تو وہ بے بسی کی تصویر بنے منمناتے ہوئے کہتے ہیں۔۔ ”یار اسی وی جٹ زمیندار آ ں“۔ تیسری کہانی ”مائیکل کا اپنا کام “ میں مصنف اس سارے پس منظر کو بیان کرتے ہیں،کہ کس طرح یہ دھرتی واسی غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرے ، گھرے اور کیسے انھیں ان پستیوں سے نکالا جا سکتا ہے۔ ”افریقن ٹیولپ“ چوتھی کہانی میں سچے واقعے سے ماخوذ اور مصنف کے تخیل میں دیسی اور بدیسی رکھ مکالمہ کرتے ہیں۔یہ مکا لمہ بدیسوں کے ظلم و ستم اور مقامی دیسیوں کی پست ہمتی کو بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد کہانی ہے ”مریض مسیحا“ کی۔ یہ کہانی ہے پاکستانی مسیحیوں کی پستیوں کو دور کرنے کے ان دعوے داروں کی جنہیں نہ انکی محرومیوں کا ادراک ہے نہ انہیں دور کرنے کی نیت بس انکی محرومیوں کی سوداگری میں مختلف روپ دھار کر کبھی سلطان بن کر کبھی فقیر بن کر بقول شاعر مشرق؟
خدا وند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
اس طرح یہ کتاب آگے بڑھتی ہے کبھی ”پاہ فرمان “ کی لاعلمی کبھی جس نے اسکے دماغ میں بھر دیا ہے کہ میرا کام صرف صفائی ہے ”یارچوڑھے نے بلایا“ کا قصہ بیان کرتی ہے ۔ کہ کیسے ایک کم درجے کا پولیس اہلکار مذہب کی بنیاد پر اپنے اعلیٰ عہدے دار کو پیٹھ پیچھے چوڑھا پکارتا ہے۔ کبھی کرسچناں والا کم (مسیحیوں والا کام) کی تعریف کرتی۔ اور کہیں اپنا کم (اپنا کام) اور پھر ”سونے کو مٹی میں بدلنے والے پارس“ کی بدنصیبوں کا رونا روتی ۔ ”مسیحی اسٹیشن ماسٹر کیسے ہو سکتا ہے“؟ کے سوال کا جواب دیتی۔ ”بیٹا یہ کسی بڑے کے گھر ہیں؟“ جیسے معصوم سوال پر آہ و زاری کرتی۔ ”جاؤ یہ تمہارا ملک نہیں! “جیسی دھمکی کا جواب دیتی۔۔
”ہمارے مسیحی لوگوں کے نصیب میں ہی صفائی ستھرائی کا کام کیوں لکھ دیا گیا ہے“ ؟
جیسے بظاہر بے ضرر سوال لیکن سماج کے ٹھیکے داروں کے منہ پر طمانچے مارتی یہ کتاب آگے بڑھتی ہے ۔ اس طرح تاریخ کے جبر سماجی رویوں امیتازی قوانینِ اور انکی ضمنی پیداوار معاشرتی نا انصافی کے نوحے اور دل کو دہلا دینے والے حقائق اور پستیوں کی گریہ زاری کرتی یہ کہانیاں آگے بڑھتی ہیں ۔
مصنف کی خواہش ”کاش میں جون ایلیا جیسا فسادی ہوتا“ اس کہانی میں اعظم معراج سچے واقعے کو بنیاد بنا کر خود احتسابی کرتے ہیں مسیحی مذہبی، سماجی سیاسی راہنماؤں کے بھولے پن اور اس رویے کی جس کام میں وہ جٹے ہیں۔اس سے انکی دلچسپی اور علم صرف مفادات کی حد تک ہی ہے۔ پھر “شناخت “پر تنازع ہوتا ہے.اور مصنف تھوپی گئی شناخت، اور اصلی شناخت، اور اپنائی گئی شناخت، کا المیہ بیان کرتا ہے، کہ کس طرح اپنے بے شناخت و محروم دھرتی واسی اپنے آپ سے چھپتے ہیںِ۔ اور” ذلتوں کے دھبّے خون سے بھی نہ دھلے“ سے گزر کر
”اپنا گریبان چاک“ اور پھر مرض کی تشخیص کرتے اعظم معراج ماہر تشخیص کار کی طرح اس مسیحی سماج کے بالکل اندر کی کمزوریوں کی نشان دہی کرتے ہوئے کہیں ہلکی پھلکی جراہی بھی کرتے ہیں۔ اور ادبی اسلوب قائم رکھتے ہوئے ایک ایسے ریفارمر کا روپ دھار لیتے ہیں۔ جو سماجی علوم سے اخذ نظریات اور اعدادو شمار کی بنیاد پر پاکستانی معاشرے میں پاکستانی مسیحی کو درپیش مسائل خطرات دستیاب موقعوں اور ان کی کمزوریوں اور توانائیوں کا تخمینہ لگاتے ہیں اور اسکے بعد اعظم معراج ” اپنا گریبان چاک “کرتے ہیں اور فلاح کی نیت سے ظالمانہ طریقے سے اپنا اور مسیحی سماج کا سینہ بھی چاک کرتے ہیں اور خود احتسابی کے لئے ہاتھ میں قلم کی جگہ نشر سنبھالے نظر آتے ہیں اور اس طرح کہانی آگے بڑھتی ہے اور…. ”سر ہمیں موقع نہیں ملتا“ کی گردان سے ….”پاکستان کا مسیحی وزیراعظم“ جیسے چونکا دینے والے قصے پر پہنچتی ہے۔ یہاں اعظم معراج اپنے مشاہدے سے ماخوذ اور تخیل سے مزین تحریر سے ان سیاسی مداریوں کو حقائق اور شواہد سے تصویر کا وہ رخ دکھاتے ہیں جو کوئی دیکھنا نہیں چاہتا بس ہولی، کرسمس نوروز اور بیساکھی پر اپنے ان ھم وطنوں کو اپنا بھائی گردانتے ہیں ،اور آئینی طور پر انھیں اچھوت رکھنا چاہتے ہیں۔ساتھ ہی وہ ان اپنوں کے اعمال سے بھی شاکی ہیں۔جو اپنے معمولی فائدے کے لئے لاکھوں کو اچھوت رکھنے میں اشرفیہ کے مددگار ہیں۔
اس کے بعد ”کم علمی،نااہلی، بے ہمتی یا پھر بدنیتی میں“ وہ خود احتسابی کرتے ہیں اور بہت ہی گہرے نشتروں سے کرتے ہیں لیکن حقائق اور شواہد کا دامن کہیں نہیں چھوڑتے اس کے بعد “نغمہ مرگ “میں وہ ہمیں 1948ءمیں لے جاتے ہیں جہاں دیوان بہادر ایس پی سنگھا تقریر کر رہے ہیں .اور باہر درختوں پران کی تقریر پر تبصرے اور نوحا گیری کرتے ہیں پھر مصنف کا تخیل لے جاتا ہے” نوشتہ مرگ“ میں جوگندر ناتھ منڈل جو کلکتہ کے کسی گھر میں بیٹھے استعفیٰ لکھ رہے ہیں سن ہے 1950ءاور ان کے استعفیٰ پر مصنف جسے ”نوشتہ مرگ“ لکھتا ہے اسی گھر کے صحن میں لگے بوڑھے پیپل پر بیٹھے دیسی پرندے اس استعفیٰ پر پہنچایت کرتے ہیں اور آنے والے زمانوں میں دیکھ کر جوگندر ناتھ منڈل کے اس عمل پر اپنی اپنی عقل و دانش کے مطابق بات کرتے ہیں۔ پھر اس کتاب کے مضمون…. ”کشمکش“ میں مصنف داستان گو کی کہانی سناتا ہے وہ داستان گو پاکستانی مسیحیوں کی کمزوریوں ، مایوسیوں ، محرومیوں ، طاقتوں، توانائیوں اور داستیاب موقعوں کا تخمینہ لگاتا ہے اور کبھی اپنے آپ کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے کہ میں کیوں محرومیوں کی سوداگری نہیں کرتا لیکن ساتھ ہی دلیلوں سے ثابت کرتا ہوں۔ اس سوداگری سے چند کا فائدہ ہے ۔جبکہ اُمید سحر کے نغمے اجتماعی بھلائی لاتے ہیں۔ یہ کتاب”کشمکش“ کا مضمون داستان گو کی بلکہ اعظم معراج کی کتابوں کا نچوڑ ہے۔ پھر ”نغمہ شناخت“ ہے جو تحریک شناخت کے مکمل فلسفے کا احاطہ کرتا ہے آخر میں ان ستائیس سچی کہانیوں سے ماخوز قصوں میں اگر کوئی کثر رہ گئی ہے تو وہ”پس لفظ“ میں پوری کرنے کی کوشش ہے مصنف نے۔اور اپنے مذہبی، سیاسی و سماجی راہنماوں سے یوں مخاطب ہے۔”!
کہ آو ان خاک نشینوں کے لئے ان کے آباءکی سرزمین پر عزت سے جینے کے اسباب کریں۔
اس طرح یہ مختصر تلخ سچی کہانی بیان کرتی۔ کتاب کبھی ماضی میں چھ ہزار سال پرانے برصغیر کے سماج کے منظر دکھاتی ہے، اور کبھی معاشرے کے ایسے خاک نشینوں کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔جنہیں معاشرہ سرسری دیکھتا اور مسلسل نظر انداز کرتا ہے ۔
سردار معراج
رضا کار
تحریک شناخت
تعارف:اعظم معراج پیشے کے اعتبار سے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں ۔15 کتابوں کے مصنف ہیںِ نمایاں کتابوں میں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار، دھرتی جائے کیوں، شناخت نامہ، کئی خط ایک متن پاکستان کے مسیحی معمار ،شان سبز وسفید شامل ہیں۔
Facebook Comments