محسن داوڑ کے انٹرویو پہ تبصرہ:۔۔رشید خان آفریدی

مکالمہ نے معروف پشتون لیڈر اور ایم این اے جناب محسن داوڑ کا انٹرویو کیا۔ جناب رشید خان آفریدی نے اس پہ تبصرہ کیا ہے جسے مکالمہ کے اصولوں کے مطابق  شائع   جا رہا ہے۔

محسن داوڑ سے خصوصی انٹرویو
انعام رانا
” یک تحلیل بہ مصاحبہٍ. اقای محسن”
ھر جواب، جواب نیست، اما ھر سوال یک سوال است،

1۔سیاسی پارٹیوں اور تحریکوں میں کچھ نا کچھ،یا گاہے بگاہے اندرونی فکری یا طاقت کی  بنیادو ں پر اختلافات بھی پیدا ہوسکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود پارٹیوں اور تحریکوں کے کچھ متعین اصول بھی ہوتے ہیں اور وہ بنیادی اصول یہ ہے کہ اقلیت اکثریت کے فیصلے کی تابع ہے، لیکن پی ٹی ایم کے  واضح اور اکثریتی فیصلے کے برعکس محسن داوڑ نے الیکشن بھی لڑا اور پارلیمان بھی پہنچا اور ساتھ ساتھ تحریک کے ڈسپلن اور غیر منظم ہونے پر سوالات بھی کرتا  رہااور ڈسپلن کا درس بھی دے رہا  ہے ، اگر  آپ خود اصول  فالو  نہیں کرتے تو اوروں سے اس بات کا مطالبہ کرنے کا آپ کو  کوئی حق نہیں ۔

2۔ محسن داوڑ نے خڑکمر کے ناخوشگوار سانحے کو باکمال مہارت  سے منظور پشتین سے جوڑنے کی  کوشش کی ، گویا اس واقعے کے بعد منظور میں  ہمت یا حکمت کی کمی تھی کہ تحریک کو کیسے لیڈ کریں یا مزاحمت جاری رکھیں ، اس لیے تحریک   بحرانی حالات سے دوچار  ہوئی ، جو بظاہر قیادت کی کمزوری تھی، محسن داوڑ بظاہر یہ تاثر دے رہا ہے ،جو میرے خیال میں غلط ہے۔

3۔ سوال یہ  ہے کہ ،  آیا محسن داوڑ مرکزی قیادت اور پی ٹی ایم کے فیصلے کے مطابق گئے تھے یا  ذاتی یا پاکستانی پارلیمنٹیرین  کی  حیثیت سے؟
خڑکمر دورے پر  آپ نے منظور کو باخبر رکھا تھا؟ یا مشورہ کیا تھا؟
یا شخصی سیاسی سکورنگ اور  ذاتی نمبر بڑھانے کی خاطر گئے تھے، یا آپ منظور کو بائی  پاس کرنے کی کوشش کررہے تھے۔؟

4۔ انعام رانا، کیا  آپ ان تمام مسائل بالخوص پشتون مسائل کا حل پاکستان کی ریاست اور اسکی حدود کے اندر سمجھتے ہیں؟
محسن داوڑ، جی بالکل ہم پارلمان میں ہیں ،اسکا اور کیا مطلب ہے؟
میں تمام مسائل کا حل پاکستان کی موجودہ جغرافیائی  حدود کے اندر ہی چاہتا ہوں اور ان کا حل ممکن بھی ایسے ہی  ہے۔
سو محسن داوڑ کا کارگر نسخہ بس ایک ہی ہے کہ  پاکستانی پارلمان اور جمہوریت چاہے ستر سال اور بھی ربڑ سٹمپ پارلمان، برائے نام جمہوریت یا کنٹرولڈ  جمہوریت کے  نام پر گزر جائے،اور چاہے اس ریاست میں پشتونوں کیساتھ سو سال اور بھی ظلم روا  رہے، یا ابدی پنجابی استعمار کے زیرِ دست اور محکوم بھی رہیں ، لیکن رہے پھر بھی پاکستان کی موجودہ جغرافیائی  حدود کے اندر  ہی ، ماشااللہ کیا ویژن،کیا سیاسی بصیرت یا لازوال دوستی اور وفاداری کی  مثال ہے، میرے خیال میں یہ فکری و سیاسی دیوالیہ پن کے شہکار اقوال ہوں گے۔

5۔انعام رانا سوال کرتے  ہیں ، جب  آپ پنجابی فوج، پنجابی استعمار، جیسی بات کریں تو تعصب کا تاثر تو جائے گا۔
محسن داوڑ۔ اپرئیڈ قوم متعصب ہو ہی نہیں سکتی، البتہ اگر وہ شکوے بھی کرے تو اسے تعصب نہیں شکایت سمجھنا چاہیے۔محسن  داوڑ لفظ “تعصب “سے اتنا گھبرایا ،یا کسی نامعلوم مصلحت کے تحت ٹھوس حقائق کو فقط شکوے کا نام دیا،  آیا پنجابی فوج مقتدر قوت نہیں،؟  یا پنجابی فوج  پنجابی استعمار کا دستہٍ ء خاص نہیں؟ ، یہ محض شکوہ و شکایت نہیں ٹھوس حقیقت ہے۔

6۔ انعام رانا، آپ کے خیال میں ڈیورنڈ لائن ایک موثر شئے نہیں؟
محسن داوڑ۔ دیکھیے کرزئی  نے کہا تھا میں نہ  اس لائن کو مانتا ہوں ،نہ  چھیڑتا ہوں ۔۔۔اگر ہم
” مطلب پاکستان” دشمنی پیدا نہ کرتا تو شاید یہ مسئلہ حل بھی ہوچکا ہوتا۔محسن داوڑ کے کہنے کا یہ مطلب ہے کہ افغانستان دعوے سے دستبردار ہوتا اور ڈیورنڈ لائن کے  آر پار پشتون افغان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرتے،تصدیق اور وضاحت کیلئے سوال و جواب نمبر 4دوبارہ دیکھیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جی بالکل۔۔۔۔میں تمام مسائل کا حل پاکستان کی موجودہ جغرافیائی  حدود کے اندر ہی چاہتا ہوں۔سیانے کہتے  ہیں  کہ سیاست میں حرفِ  آخر نہیں، بیسویں صدی کی   آخری دہائی میں ہم نے کئی  ملک توڑے اور کئی  نئے ملک بنتے دیکھے، کئی  صدیوں سے یہ عمل جاری ہے، اور مزے کی بات یہ ہے کہ قومی آزادی کیلئے جدوجہد کرنا کوئی جرم نہیں، اور حقِ خودارادیت یو این چارٹر میں بھی محفوظ تسلیم شدہ حقیقت ہے، لیکن محسن داوڑ پل بھر میں یہ مسلمہ اصول قوم سے پوچھے بغیر رَد کرتے ہیں ۔اتنے ذہین اور تجربہ کار  آدمی سے ایک مصومانہ سوال کا حق تو بنتا ہے کہ “ارے بھائی یہ  آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟”۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply