زمین اور آسمان کی یکجائی (2)۔۔وہاراامباکر

سولہویں صدی میں ہمارے پاس دو الگ خیالات تھے۔ ارسطو اور بطلیموس کا۔ جس میں سیارے، چاند اور سورج اکٹھے تھے جو آفاق کے کرے پر تیرتے تھے۔ ایک اور خیال کوپرنیکس کی طرف سے آیا جو اس کے ساتھ ہی زمین کو بھی یکجا کر دیتا تھا۔ دونوں کے سائنس پر بڑے اثرات تھے لیکن دونوں بیک وقت درست نہیں ہو سکتے تھے۔
کس کا انتخاب کیا جائے؟ اس میں کی جانے والی غلطی کے بڑے نتائج ہیں۔ اگر زمین کو کائنات کا مرکز تصور کر لیا جاتا تو حرکت کی سمجھ پر اس کے بڑے اثرات تھے۔ آسمان میں سیارے اس لئے سمت بدلتے تھے کہ وہ دائروں سے بندھے تھے جن کی فطرت ان کو گھمائے رکھنا تھی۔ یہ زمین پر اشیا کے ساتھ تو نہیں ہوتا۔ ہم جس چیز کو بھی حرکت دیتے ہیں، وہ رک ہی جاتی ہے۔ یہ آسمانی دائرے زمین جیسے نہیں تھے۔ بطلیموس اور ارسطو کی کائنات میں حرکت اور سکون میں بہت فرق تھا۔
بطلیموس کی دنیا میں آسمان اور زمین بھی الگ تھے۔ زمین پر چیزوں پر قوانین کا اطلاق مختلف تھا۔ بطلیموس کی تجویز میں سات اجسام (سورج، چاند اور پانچ سیارے) دائرے میں گھومتے تھے اور یہ دائرے خود دائروں میں گھومتے تھے۔ یہ ایپی سائیکل تھے اور انتہائی ایکوریسی سے اس وقت کے مظاہر کی پیشگوئی اور وضاحت کر دیتے تھے۔ سورج، چاند اور سیاروں کی یہ مفید یکجائی تھی۔ ارسطوئی فزکس میں آسمان کی اشیاء کے برعکس زمین میں اشیا کی فطرت ساکن رہنے کی تھی۔ زمین اور آسمان کی فزکس الگ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سولہویں صدی کی سائنس کا اچھا علم رکھنے والے کیلئے یہ بہت طاقتور حقیقت تھی۔ یہ فزکس ہر شے کی وضاحت کر دیتی تھی۔ کوپرنیکس کی تجویز، کہ ان کو زمین کے ساتھ اکٹھا کر دیا جائے، کی قبولیت کس قدر مشکل ہو گی۔ یہ پاگل پن والا بے تکا خیال تھا۔ “اگر زمین سیارہ ہے تو ہر چیز اس پر حرکت کیوں نہیں کرتی رہتی۔ یہ ممکن کیسے ہے؟؟ ہمارے صاف مشاہدات کاپرنیکس کو غلط ثابت کر دیتے ہیں! کیا یہ نظر نہیں آتا کہ جو شے آفاقی مداروں میں نہیں، وہ ساکن ہو جاتی ہے۔ اور ہاں، اگر زمین حرکت میں ہے تو ایسا ہمیں کیوں محسوس نہیں ہو رہا!”۔ (آج یہ سوالات اگر ہمیں بچگانہ لگتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے فزکس پڑھی ہے)۔
اور ان کے جوابات سائنس کی سب سے بڑی یکجائی سے ملے۔ یہ حرکت اور سکون کی یکجائی تھی۔ اس کو گلیلیو نے پیش کیا تھا اور یہ نیوٹن کا حرکت کا پہلا قانون ہے۔ “ہر شے رفتار برقرار رکھتی ہے۔ سکون کا مطلب صرف رفتار کا صفر ہونا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کسی چیز کا بتایا جا سکتا ہے کہ وہ حرکت میں ہے؟ ارسطو کا جواب “ہاں” تھا۔ گلیلیو اور نیوٹن کا جواب “نا” تھا۔ حرکت صرف اضافی ہے۔ گلیلیو نے ہمیں ریلیٹیویٹی کا اصول دیا۔ “رفتار کا تعلق آبزور سے ہے۔ اس لئے حرکت اور سکون کا اپنا کوئی مطلب ہی نہیں”۔
یہاں پر اہم یہ کہ یہ صرف ایک ہی رفتار پر سیدھی لکیر میں حرکت کی بات ہے۔ جب ہم رفتار یا سمت بدلتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے۔ اس کو ایکسلریشن کہتے ہیں اور ایکسلریشن ریلیٹو نہیں، ایبسولیوٹ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ طاقتور حکمتِ عملی ہمیں بعد کی تھیوریوں میں بھی نظر آتی رہی۔ آبزور کا کردار اور نکتہ نظر آ گیا۔ جو پہلے ایبسولیوٹ تھا، وہ ریلیٹو بن گیا۔ یہ نایاب یونیفیکیشن تھی اور سائنسی تخلیقی صلاحیت کا اہم ترین کارنامہ تھا۔ جب یہ حاصل ہو گیا تو پھر اس نے ایک بار پھر ہمارا نکتہ نظر ہلا کر رکھ دیا۔
دو چیزیں ایک ہوتے ہوئے بھی اتنی الگ کیوں نظر آتی ہیں؟ اس کا جواب دینے کے لئے بہت اچھی وضاحت کی ضرورت ہے۔ کئی بار اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ بظاہر نظر آنے والا فرق مختلف نکتہ نظر کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار یکجائی غلط ہو جائے تو پھر یہ خیال پیش کرنے والا مشکل کا شکار ہو سکتا ہے۔
برونو نے کہا کہ ستارے سورج کی طرح ہیں۔ لیکن ستارے بہت مدہم نظر آتے ہیں۔ اگر یہ ایک ہی ہیں تو پھر اس کا مطلب کہ یہ بہت دور ہیں۔ اور اگر یہ اتنا دور ہیں تو کائنات بہت بڑی ہے۔ “کیا کہہ رہے ہو بھائی؟” یہ اس وقت تک پاگل پن لگتا ہے جب تک پیمائش نہ کر لی جائے۔ اس خیال کی پیشگوئی یہ ہے کہ جب پیمائش کر لی جائے گی تو معلوم ہو گا کہ ستاروں کا فاصلہ سورج کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
اگر برونو کے وقت میں یہ پیمائش کرنا ممکن ہوتا تو شاید جلا دئے جانے کے انجام سے بچ جاتے۔ لیکن اس وقت وہ طریقہ ہی معلوم نہیں تھا کہ پیمائش کی جا سکے۔ برونو نے جو کام کیا تھا، وہ یہ کہ ایسی پیشگوئی کی تھی، جس کی تصدیق اس وقت کی ٹیکنالوجی سے کئے جانا ناممکن تھا۔ برونو نے ستاروں کو اتنا دور قرار دے دیا تھا جس کو سولہویں صدی میں ٹیسٹ کئے جانا کا طریقہ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی بار یکجائی میں ایسا خیال بھی دیا جا سکتا ہے، جس کو ٹیسٹ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا مطلب لازماً یہ نہیں کہ خیال غلط ہے لیکن اب آپ مشکل مقام پر ہیں۔ اور یہ معاملہ اس سے بھی برا ہو سکتا ہے۔
کوپرنیکس کا خیال کہ “زمین مرکز نہیں” کا مطلب یہ تھا کہ ستاروں کی حرکت کا مشاہدہ نہ ہونے کی وضاحت کی ضرورت تھی۔ اور اس کیلئے بھی ستاروں کا فاصلہ بہت دور ہونا ضروری تھا۔ اور اگر یہ واقعی بہت ہی دور تھے تو پھر یہ نظر کیسے آ رہے تھے؟ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بہت روشن تھے۔ یعنی کہ سورج جیسے روشن۔ یعنی برونو کی یکجائی اور کوپرنیکس کی یکجائی دراصل ایک ہی تھی۔
اور یکجائی کے الگ خیالات اکثر ایک دوسرے کے ساتھ ملکر چلتے ہیں۔
ستاروں کی سورج سے یکجائی، زمین کی سیاروں سے یکجائی، حرکت اور سکون کی یکجائی اکٹھی ایک ہی پیکج کا حصہ ہیں۔
ایک طرف خیالات کا یہ پورا پیکج تھا۔ دوسری طرف ارسطو کی حرکت کی تھیوری۔ اس میں اپنی طرز کی یکجائی کے پہلو تھے۔ جب تک بحث طے نہیں ہو گئی، دونوں اطراف کے بات کو تسلیم کرنے کی اچھی وجوہات تھیں۔ دونوں اطراف کی سپورٹ مشاہدات سے ہوتی تھی۔ کئی بار ایک ہی تجربہ کے نتائج کی تشریح ان میں سے دونوں سے اور مختلف طرح سے کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مینار سے گیند گرائی۔ کیا ہوا؟ یہ زمین پر سیدھی گری اور مغرب کی سمت نہیں چلی گئی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے ثابت ہو گیا کہ کوپرنیکس غلط تھے کیونکہ زمین تو حرکت ہی نہیں کر رہی۔ اگر کر رہی ہوتی تو زمین نیچے سے سائیڈ پر نہ ہو جاتی۔
اور یہی تجربہ گلیلیو اور نیوٹن کے حق میں بھی جاتا ہے اور اس کی وجہ انرشیا کا اصول ہے۔ گیند جب نیچے گرتی ہے تو اپنا موشن برقرار رکھتی ہے۔ زمین کے مقابلے میں اس کا موشن صفر ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ آئیڈیا درست ہے۔ ارسطوئی فزکس کے سپورٹر کا ایویڈنس ہی گلیلیو کی فزکس کا ثبوت ہے۔
نئے بڑے خیال کی قبولیت آسان اسی لئے نہیں کہ پچھلے خیالات کے پیکج، خواہ غلط ہوں، لیکن بے بنیاد تو نہیں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوٹونین فزکس کے حق میں ناقابلِ تردید شواہد آتے گئے۔ زمین کی ستاروں کے مقابلے میں حرکت کا اچھی طرح علم ہو گیا۔ نیوٹونین قوانین اتنی زیادہ بار درست ثابت ہو گئے کہ واپس جانے کا راستہ بند ہو گیا۔
مظاہر کی درست تفہیم نے ہماری سمجھ میں زمین آسمان کا فرق مٹا کر ہماری سمجھ میں زمین آسمان کا فرق ڈال دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن جب تک ایسا نہیں ہوا تھا، مقابلے میں کھڑے خیالات کو سپورٹ کرنے کی منطقی وجہ ہو سکتی ہے۔ فزکس میں اس وقت ہم ایسے وقت میں ہیں۔ اور ہمارے پاس اتفاقِ رائے نہیں۔ اس وجہ سے یہ دور فزکس کا دلچسپ دور ہے۔ صرف یہ کہ ریشنلائزشن اور ایویڈنس میں تفریق ہمیشہ آسان نہیں ہوتی۔ کب وہ وقت آ چکا ہوتا ہے کہ ایک وقت میں اچھا سمجھنے جانا والا آئیڈیا اپنی مدت پوری کر چکا ہے؟ یہ سائنس کا چیلنج ہے۔ اس وقت میں بہت سمارٹ لوگ بھی غلط سائیڈ کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اور ایسا بالکل نارمل ہے۔ کیونکہ ایسے انتخاب کرنا صرف بادی النظر میں آسان ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply