سینیٹ انتخابات: نتائج، اثرات۔۔محمد منیب خان

ہر تین برس بعد مارچ کا مہینہ آتے ہی سینیٹ الیکشن کا ڈھول بجانا پڑتا ہے۔ امسال بھی یہ ڈھول آئینی مجبوری کی وجہ سے بجاناپڑا۔ البتہ حکومت وقت کی آخری دم تک کوشش رہی کہ کسی طرح عدالت سے آئینی تشریح کروا کر ڈھول کو اس طرح نہ بجایا جائے،جیسا کہ آئین میں لکھا ہے۔ تاہم آئین اتنا واضح اور غیر مبہم تھا کہ عدالت عظمیٰ  کے منصفین کیس کے دوران ملی جلی رائے کےاظہار کے باجود فیصلے میں حکومت کے لیے کوئی کرشمہ نہ دکھا سکے۔ حکومت کے سارے خدشات اپنی جگہ درست بھی مان لیےجائیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم آج تک جمہوریت کو اس کی اصل حالت میں ہضم نہیں کر سکے؟ جمہوریت میں پارلیمان ہی نیوکلیس ہوتا ہے لیکن کیا وجہ ہوئی کہ حکومت صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پتلی گلی سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈنے لگی۔ جمہوریت میں اپوزیشن کا وجود ایک حقیقت کے طور پہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور نہ چاہتے ہوئے بھی اپوزیشن کو آئینی اور قانونی تبدیلیوں میں ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے کہ بہرحال اپوزیشن کے پاس بھی عوام کا ہی مینڈیٹ ہوتا ہے۔ خیر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے وہی کیا جو آئین پاکستان میں لکھا ہوا تھا۔

اجمالی طور پہ دیکھا جائے تو سارا کا سارا سینٹ الیکشن بالآخر کامیابی سے منعقد ہو۔ خریدنے اور بیچنے کی جو بازگشت الیکشن سے پہلے سنائی دی الیکشن نتائج نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ پنجاب میں ویسے ہی ووٹنگ کی نوبت نہیں آئی، سندھ، بلوچستان اورخیبر پختونخوا میں بھی کوئی انہونی نہیں ہوئی۔ البتہ مرکز کی ایک سیٹ کا نتیجہ حکومت کے لیے  ناگوار ثابت ہوا۔ یہ ایک سیٹ کامقابلہ اور اس کا نتیجہ مکمل سینٹ الیکشن کو پسِ  منظر میں لے گیا۔ پیش منظر ہے تو بس یہ کہ گیلانی صاحب جیت گئے ہیں۔گیلانی صاحب کیسے جیتےیہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا۔ البتہ ایک بات واضح ہے کہ خفیہ رائے شماری میں لوگوں کےضمیرجاگ جاتے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو چونسٹھ ممبران نے کھڑےہو کر عدم اعتماد کا اظہار کیا ،البتہ جب بات خفیہ رائے شماری تک پہنچی تو تعداد گھٹ کر پچاس رہ گئی۔ لہذا یہ کوئی انہونی نہیں۔البتہ آئین پاکستان کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک میں ممبران اپنی پارٹی پالیسی کے مطابق ووٹ دیتا ہے جبکہ سینٹ الیکشن میں وہ پارٹی پالیسی کا پابند نہیں ،لہذا کسی قسم کی معطلی کی تلوار سر پہ نہیں لٹکتی۔ البتہ یہ اپوزیشن کا کمال تھا کہ 14 ووٹ کم ہونے پر بھی اپنے کسی رکن کو معطل نہیں کیا۔ جو نتیجہ آیا مظلوم بیویوں کی طرح صبر شکر کر کے برداشت کر لیا۔

عمران خان نے حفیظ شیخ کی شکست کے بعد ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ یقیناً ایک اچھا اعلان ہے۔ جو اس وقت حکومت کے مرجھائے ہوئے حمایتیوں کو کچھ صبر اور حوصلہ دے گا البتہ یہ قدم شاید اس خود احتسابی کا راستہ یکسر بند کر دےجس کی امید اس شکست سے پیدا ہوئی تھی۔ خان صاحب کا اعتماد کا ووٹ لینا اخلاقی طور پہ ضروری نہیں تھا کیونکہ اسلام آبادسے تحریک انصاف کی خواتین کی نشست پہ امیدوار  174 ووٹ لے کر کامیاب ہوئی  ہیں، جبکہ وزیراعظم کو محض 171 ووٹ چاہیے ہوتے ہیں۔ خاتون امیدوار کی کامیابی اس بات کی غماز ہے کہ حکومت اور اس کے اتحادی اب بھی اکثریت میں ہیں ،البتہ ان کی کچھ پالیسیاں ایسی ہیں جن سے جماعت کے اندر اور اتحادی جماعتوں کے لوگ ناراض ہیں۔ وہ پالیسیاں جو ممبران یااتحادیوں کی ناراضی کا باعث ہیں ان میں سے بیشتر وزیر خزانہ سے متعلق ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے ہمارے موجودہ وزیر خزانہ کاتعلق تو تحریک انصاف سے ہے ہی نہیں۔ اور نہ ہی وہ مستقل ملک میں مقیم ہیں۔ لہذا ممبران کا ان سے اظہار  لاتعلقی کسی حد تک قابلِ  فہم ہے۔ اصل میں خان صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ ان پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیتے اور اپنے ممبران اور اتحادیوں کی اشک شوئی کرتے تو شاید وہ مزید دو سال سکون سے گزار لیتے۔ البتہ خان صاحب نے بظاہر اخلاقی فتح حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کسی کی نیت کس قدر اچھی ہو، وہ محض ایک اچھی سوچ اور خیال ہے۔ نیت جب تک عمل کے قالب میں نہ ڈھلے وہ شاذ ہی کسی کے لیے سود مند ہو سکتی ہے۔ میں سارے زمانے کی بد گمانیاں ایک طرف رکھ کر یہ مان بھی لوں کہ عمران خان کی نیت صاف ہے توپھر بھی اس اچھی نیت کا ثواب خود خان صاحب کو تو مل سکتا ہے لیکن یہ بطور پاکستانی میرے لیے بے فائدہ ہے۔  ایک عام پاکستانی کے لیے یہ بات اہم ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کے اس پہ کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ڈھائی برس میں عوام کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوا ہے۔ ممبران اسمبلی کا ہاتھ حلقے کی عوام کی نبض پہ ہوتا ہے۔ چاہے کوئی کتنا بھی طاقتورالیکٹیبلسیاستدان ہو بہرحال اس کو حلقے کی عوام کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے۔ خان صاحب کی ڈھائی سالہ بدنظم حکومت سے عام آدمی کے لیے خیر کا شاید ہی کوئی  پہلو برآمد کیا جا سکے۔ لہذا اس سب کا نتیجہ یہی نکلنا تھا جو نکلا ہے۔

میں نجومی نہیں ہوں البتہ سیاست کی ہر لمحہ بدلتی صورتحال میں تجزیوں کے لنڈے بازار میں سے کوئی بھی تجزیہ درست ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن اس وقت کا سیاسی منظر نامہ کسی ان ہاؤس تبدیلی کا اشارہ نہیں کر رہا۔ خان صاحب اعتماد کا ووٹ لے لیں گے۔جس کے بعد یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ وہ اپنی ان پالیسیوں سے رجوع کرنے والے ہیں یا نہیں جو حفیظ شیخ کی شکست کا باعث بنیں۔ اپوزیشن کیوں چاہے گی کہ دو سال کے لیے انکا وزیراعظم آئے؟ البتہ قبل از وقت الیکشن اپوزیشن کی خواہش ہو سکتی ہے۔ وہ قبل از وقت انتخابات کے لیے اپنی اس خفیہ اکثریت کو مستقبل میں کسی اہم موڑ پہ عدم اعتماد کے لیے استعمال کر کے قبل از وقت الیکشن کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ اس سب میںاُنکا کردار ہمیشہ کی طرح اہمیت اختیار کر گیا جو گزشتہ ایک ماہ سے خاموش ہیں۔ ورنہ ضمنی انتخابات میں اتنی سبکی نہ ہوتی۔ بلکہ حفیظ شیخ والا معاملہ بھی محض فون پہ ہی حل ہو سکتا تھا۔ گونگے کا بول پڑنا تو یقیناً اچھا شگون ہوگا پر بولنے والوں کو چپ لگ جانا کبھی اچھا شگون نہیں ہو سکتا۔

اس سارے سیاسی منظر نامے پہ مظفر وارثی کی غزل لکھ رہا ہوں۔ حسب ذائقہ پڑھ لیں۔

ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا

دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا

دعوؤں کے ترازو میں تو عظمت نہیں تُلتی

فیتے سے تو کردار کو ناپا نہیں جاتا

فرمان سے پیڑوں پہ کبھی پھل نہیں لگتے

تلوار سے موسم کوئی بدلا نہیں جاتا

چور اپنے گھروں میں تو نہیں نقب لگاتے

اپنی ہی کمائی کو تو لُوٹا نہیں جاتا

اوروں کے خیالات کی لیتے ہیں تلاشی

اور اپنے گریبانوں میں جھانکا نہیں جاتا

فولاد سے فولاد تو کٹ سکتا ہے لیکن

قانون کو قانون سےبدلا نہیں جاتا

ظلمت کو گھٹا کہنے سے بارش نہیں ہوتی

شعلوں کو ہواؤں سے تو ڈھانپا نہیں جاتا

طوفان میں ہو ناؤ تو کچھ صبر بھی آئے

ساحل پہ کھڑے ہو کے تو ڈوبا نہیں جاتا

دریا کے کنارے تو پہنچ جاتے ہیں پیاسے

پیاسوں کے گھروں تک کوئی دریا نہیں جاتا

اللہ جسے چاہے اُسے ملتی ہے مظفر

Advertisements
julia rana solicitors

عزت کو دوکانوں سے خریدا نہیں جاتا!

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)