میں بیمار ہوں۔۔سلیم مرزا

جانے کیا بات تھی ۔جو پیٹ میں نہیں پچ رہی تھی ۔
ہلکا پھلکا درد شروع ہوا تو لگتا تھا جیسے تنی شارٹ ہوگٰئی ہو ۔ ناشتے میں تیز مرچ مصالحوں سے مزین مولیوں والا پراٹھا کھایا تھا ۔ پیٹ اتنا آگے نکل گیا کہ پینٹ کی زپ بند کرنے کو بائی پاس سے جانا پڑتا ۔
درد بڑھا تو پنجابی “اور توڑ ” شروع کئے ۔
پینٹ اوپر کرکے جتنی زور سے بیلٹ باندھی جاسکتی تھی ۔پیٹ کے پھیلاؤ پہ باندھ دی ۔
گلی میں کرکٹ کھیلتے بچوں کے پاس سے گذرا تو میچ روک کر دیکھنے لگے ۔شاید “دو ٹڈا “پہلی بار دیکھا تھا ۔
میں اور معدے نے طے کرلیا اب کچھ بھی ہو، کچھ نہیں کھانا ۔
دن بھر چائے اور سگرٹ آپس میں مذاکرات کرتے رہے کہ سینٹ الیکشن کا بنے گا کیا ۔؟
رات کو بھانجے کی منگنی تھی ۔وہاں چھوٹا گوشت چھوٹا چھوٹا پکا تھا ۔نیازی کے آنے کے بعد بکرے صرف قصائی کی دکان پہ الٹے لٹکے دیکھے تھے ۔
پھر اس کے بعد حالات ہی سیدھے نہ ہوئے ۔
آخری بار مٹن تب خریدا تھا، جب نواز شریف پانامہ کیس میں پکڑا گیا تھا ۔
“ایک آدھ بوٹی کھانے سے کچھ نہیں ہوگا “؟
اسی چکر میں پورا نان کھا گیا ۔
کھاتے ہی احساس ہوگیا کہ غلطی ہوچکی ہے ۔مزید غلطی کی گنجائش نہیں تھی ۔
ھال سے باہر بےحال ہوکر دوڑ لگائی ۔بیلٹ اور پینٹ کا بٹن بھی کھول لیا ۔پینٹ عوامی مقبولیت کے بغیر بھی محض اسٹیبلشمنٹ کے سہارے گری نہیں ۔پیٹ کا پھیلاؤ ڈی ایچ اے بن چکا تھا ۔
بلٹ بندھی رہتی تو دھماکہ کسی بھی سپل وے کو تباہ کر سکتا تھا ۔جو کسی طرح عوامی مفاد میں نہیں تھا ۔
رات گیارہ بجے گھر پہنچا تو بارہ بج چکے تھے ۔
دائیں بازو کو بھی یاد آگیا کہ اس کا مدت سے استحصال کیا جارہا ہے
چنانچہ درد کندھے سے چل کر دائیں کان میں سرگوشی کرتا ہوا آدھے سر میں پھیل گیا ۔
باقی آدھا سر گوکہ درد نہیں کر رہا تھا مگر پنجابیوں کی طرح بھگت ضرور رہا تھا ۔
کروٹیں بدلتے رہے ساری رات ہم۔
بیگم نے اس  وقت تک ساتھ دیا جب تک اس کے موبائل کی بیٹری چلی ۔۔
“سویرے لے کر جاتی ہوں ڈاکٹر کے پاس “کہہ کر یوں سوئی کہ ڈاکٹر کے کلینک میں ہی ملاقات ہوئی ۔۔۔
کینک میں بیس تیس عورتیں ۔اور دس پندرہ مرد بقاء کی جنگ ہار کے بیٹھے ہوئے تھے ۔
پرچی بنانے والا ایک ایسی خاتون سے بات کر رہا تھا جو حال ہی میں میکے سے واپس آئی تھی ۔۔
اور جانے کیا کھا کے آئی تھی بولے جا رہی تھی ۔۔
تین چار بار توجہ دلائی تو کمپونڈر نے پرچی بناہی دی ۔۔
چھ سو روپے میں پانچواں نمبر ملا ۔میاں بیوی اندر داخل ہوئے ۔
کمرے میں جادوگروں والی مدھم سی لائٹ جل رہی تھی ۔ڈاکٹر خلائی لباس میں نیل آرم سٹرانگ کا چھوٹا بھائی لگ رہا تھا ۔”لباس اور کنٹوپ اسے کچھ کھلا کھلا تھا ”
چہرہ میری طرف گھماتا تو ہیلمٹ کا منہ بیگم کی طرف ہی رہ جاتا ۔
اس نے پیٹ درد کے بارے مجھ سے کچھ سوال کئے ۔بیگم نے ہیلمٹ کو جواب دیے ۔اور وہ بھی بتایا، جو اگر کسی مفتی کو پتہ چل جاتا تو نکاح خطرے میں تھا ۔
میں نے کئی بار بتایا تھا کہ شوہر پہ ہاتھ اٹھانے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے ۔مگر یہ روایت بقول بیگم ضعیف ہے ۔
چنانچہ تاریخ میں اب تک جو جو ٹھیک نہیں ہوا ۔اور  آئندہ جو بھی غلط ہوا اس کا ذمہ دار میں تھا ۔یامیرا پیٹ
بیگم ،ڈاکٹر مذاکرات میں میرا اور میرے درد کا کوئی بھی ہمدرد نہیں تھا ۔بیگم سے کہا اس نے بیگم سے سنا اس نے ۔
مجھ سے صرف اتنا کہا ‘لیٹ جاؤ ”
میں ڈاکٹر کی جرات پہ حیران رہ گیا ۔۔بوٹوں والے کو کہہ رہا تھا، لیٹ جاؤ؟
میں بوٹوں سمیت لیٹنے لگا تو کہنے لگا “اگر بوٹ اتار کے نہ لیٹے تو میں چیک نہیں کروں گا
دل چاہا کہوں “نہ کر، نکال میرا چھ سو ”
بیگم نے گھور کے دیکھا تو جوتے اتار دئیے ۔۔۔
ڈاکٹر کے کہنے پہ شرٹ صرف اتنی اوپر کی جتنا شرعاً حکم ہے ۔
میرے پیٹ کو مجھ سے ہی دس جگہ سے دبوا کر کچھ مزید واہیات سوال پوچھے ۔
“نیند کی گولی کون سی کھاتے ہو” ؟
“جی یہ نیند کی گولی نہیں لیتے ،لیٹتے ہی سو جاتے ہیں ”
بیگم نے جواب دیا تو ڈاکٹر سمجھ گیا مریض سونے جاگنے کی حدوں سے ماورا  ہے ۔
نام ؟۔۔۔۔”سلیم ولد شریف ” ۔۔کاش خالد شریف ہوتا ۔
حسینائیں کتاب چھپوانے کو منتیں کرتیں ۔
مگر میری ایسی قسمت کہا ۔۔
بیگم میڈیکل سٹور تک گئی ہے ۔۔سوچا، اتنی دیر اسٹیٹس اپلوڈ کردوں کہ میں “بیمار ہوں “

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply