ہمارے ملک کی اشرافیہ پر جب بھی زوال کا خطرہ منڈلانے لگا تو انہوں نے عوام کو قابو میں رکھنے کے لیے ہمیشہ مذہبی کارڈ کھیلا. اشرافیہ نے ہمیشہ اپنے جرائم کو چھپانے اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے بے خبر رکھنے کے لیے زیادہ تر مذہب کا غلط استعمال کیا اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں. اس خطے میں چلنے والی سیاسی تحریکوں کا تنقیدی جائزہ لے تو ان میں بھی زیادہ تر عوام کو خوش کرنے اور بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے مذہبی، لسانی اور صوبائی منجن ہی بیچے گئے ہیں. یہاں پر بنیادی مسائل کا حل ڈھونڈنے کی بجائے زیادہ تر لوگ اس بات پر فکر مند رہے کہ چھٹی کے لیے کونسا دن مناسب ہے،مساجد میں لاؤڈ-اسپیکر کا استعمال ہونا چاہیے کہ نہیں، کس فرقے کے اجتماع میں زیادہ عوام تھی؟ تو وہاں پالیسی سازوں کی پالیسیوں پربھی اِسی سوچ کی چھاپ نظر آۓ گی اور اس سوچ کی عکاسی تقریباً ہر محکمے میں نظر آئے گی. ہمارے ہاں اس روگ سے سب سے زیادہ جو نظام متاثر زدہ ہے. وہ تعلیم کا نظام ہے. ہمارا تعلیمی نظام گزشتہ چند دہائیوں سے قابل سائینسدان، ڈاکٹرز، انجینیرز, زرعی ماہرین اور مختلف شعبوں میں قابل لوگوں کی بجائے صرف مختلف زبانوں کے ترجمہ نگار ہی پیدا کررہا ہے. کبھی ہمارے سیاسی و سماجی حلقوں میں اُردو اور انگریزی تنازعہ بنارہتا ہے اور اسی تسلسل میں اسکولوں میں کبھی اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا جاتا ہے اور کبھی ذریعہ تعلیم انگریزی کیا جاتا ہے. کبھی یہ جنگ علاقائی زبانوں کے ساتھ چلتی ہے. کبھی کسی مخصوص ملک کو خوش کرنے کے لیے ان کی زبان کو روشناس کرایا جاتا ہے. لیکن ابھی تک یہ تجربات جوں کے توں چل رہے ہیں. قیام پاکستان سے اب تک ہم نے اس دھرتی کو تجربہ گاہ ہی بنایا ہوا ہے اور اس تجربہ گاہ کے نے نت نئی زبانوں کے ماہرین کے علاوہ کوئی قابل ذکر ایجاد نہیں دی. ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایسا تعلیمی نظام لایا جاتا جس کے زیر اثر پلنے والے افراد میں سے ایسے ماہرین نکلتے جن کے نظریات اور ایجادات کی قائل پوری دنیا ہوتی. پوری دنیا میں ان کا ڈنکا بجتا. لیکن ہمارے پالیسی سازوں اور ان پر اثر انداز ہونے والے افراد کی ترجیحات ہی اس قوم کو لکیر کے فقیر بنائے رکھنا رہی ہے. ہمارے پالیسی سازوں کی منافقت کا یہ حال ہے کہ جن تعلیمی اداروں کے لیے وہ قانون سازی کرتے ہیں ان کے معیار کم ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو یا تو باہر پڑھنے بھیج دیتے ہیں یا پھر ان کا داخلہ اْن نجی اداروں میں کرواتے ہیں یہاں پر ان کی اپنی بنائی ہوئی پالیسیوں کا اطلاق نہیں ہوتا. آپ یہاں سے اندازہ لگالے وہ ہماری آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لئے کتنے مخلص ہیں.
ہمیں اپنی تعلیمی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ضرورت ہے تاکہ تعلیمی نظام میں موجود خامیوں کو دور کرکے اسے ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ لاسکے. لیکن ہم اپنی پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لینے سے پتا نہیں کیوں ڈرتے رہتے ہیں؟ تنقیدی جائزہ کرنے سے ہمیں اپنی غلطیوں کو پکڑنے اور ان کو سدھارنے میں مدد ملے گی. اگر اب بھی کچھ نہیں کیا تو ہمارے ماہرین کاپی پیسٹ ہی کرتے رہیں گے اور ہم ترقی کی اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے اور ہم دنیا کو مزید ایک اور زبان کے ترجمہ نگاروں کی ایک نئی کھیپ کے علاوہ کچھ نہیں دیں گے.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں