موٹیویشنل سپیکرز پر تنقید۔۔سعید چیمہ

چند دن قبل ایک کثیر الجثہ کالم نگار نے تحریر فرمایا تھا کہ آج کل ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر موٹیویشنل اسپیکرز کو خوامخواہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس تحریر میں گویا موصوف خون کے آنسو رو رہے ہیں کہ موٹیویشنل اسپیکرز پر تنقید کی وجہ سے ہم جس بے انصافی کے مرتکب ہو رہے ہیں وہ عذابِ الٰہی کو آواز دینے کے مترادف ہے۔

یہ کالم نگار اگر اپنی کثیر العقل کو بھی پیہم استعمال کرتے تو نکتہ پاتے کہ تنقید وہ خوبصورت جھومر ہے جو ہر صورت معاشرے کے ماتھے پر سجا رہنا چاہیے، تنقید کے بغیر تو معاشرے میں سانس لینا محال ہوجاتا ہے اور نقاد وہ مالی ہوتا ہے جو اپنے الفاظ و تحاریر سے معاشرے کے چمن کو سینچتا ہے، بعض اوقات تو اس چمن کی شادابی کے لیے اس مالی کو لال مائع بھی بہانا پڑ جاتا ہے۔

اب اگر کوئی یہ کہے کہ موٹیویشنل اسپیکرز پر تنقید بند ہونی چاہیے تو اس کے سِوا ہم کیا کہیں کہ اس کی عقل پہ پردہ پڑ گیا ہے۔۔

ان صاحب کی دوسری دلیل یہ تھی کہ لوگ سید قاسم علی شاہ کو ان کی خامیوں نہیں بلکہ خوبیوں کی بنا پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

ایک نقطے کی بات پہلے سمجھ لیجیے کہ خوبی اور خامی کا پیمانہ ہمیشہ تبدیل ہو گا، ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کی خامی کو ایک فرد اس کی خوبی سمجھتا ہو جبکہ دوسرے کے نزدیک وہ واقعی خامی ہو، ایک مثال سے بات واضح کیے دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں اکثر لبرل حضرات اس بات کو اپنی خوبی سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور اسلام کے خلاف بات کی جائے، لبرل حضرات کی یہ خوبی مذہبی طبقے یا دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے لیے خامی ہے، اسی طرح اگر ایک شخص لوگوں کے  دکھاوے کے لیے نماز پڑھتا ہے تو لوگ اس کو خوبی خیال کریں گے جبکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ شدید خامی ہے۔

تو یہ بات ممکنات میں سے معلوم ہوتی ہے کہ موصوف کالم نگار جس بات یا عمل  کو قاسم علی شاہ کی خوبی گردانتے ہوں، دوسروں کے نزدیک وہ ایک خامی ہو، تنقید کس پر نہیں کی جا سکتی، اختلاف کس سے روا نہیں رکھا جا سکتا، بار بار امامِ مالک کا قول سماعتوں سے ٹکراتا ہے، رسالتمآبﷺ کی قبر کی طرف اشارہ کر کے امام نے فرمایا تھا کہ صرف اس قبر والے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، باقی سب سے اختلاف ممکن ہے، امام کے قول کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ہر کسی کی بات مردود ہو سکتی ہے مگر اس قبر والے کی ہر بات مقبول ہے، امامِ مالک کا یہ قول عقل پر پڑے ہوئے پردوں کو سرکا دینے کے لیے کافی ہے۔

اپنے نکتہ نظر یعنی تنقید کے حق میں ہم دوسری دلیل قرآن سے پیش کریں گے، سورہ یونس پڑھیے، دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح حضرت یونس پر تنقید کی ہے،  ایک دوسرے مقام پر سیدنا نوح کو سخت تنبیہ کی جاتی ہے کہ اب آپ نے اپنے بیٹے کے لیے بخشش کی دعا نہیں کرنی، تنقید تو ایسی دل آویز خوشبو ہے جس سے معاشرہ مہک اٹھتا ہے، اب اگرکوئی معاشرے کو تعفن زدہ بنانا چاہتا ہے تو پھر ناقدین کا ناطقہ بند کرنے کا بیڑا اٹھا لے۔

قاسم علی شاہ کے حواری  یہ چاہتے ہیں کہ ان پر تنقید نہ کی جائے، عمران خان کے کارندوں کا مطالبہ ہے ہمارے امیرالمومنین تنقید سے مبرا ہیں، نون لیگیوں کا ایمان ہے کہ آلِ شریف میں سب مقدس ہستیاں ہیں جن پر تنقید کرنے والا گناہگار ہو گا، جیالے یہ سمجھتے ہیں کہ زرداری  اور بھٹو مظلوم ہیں تو مظلوموں پر کیسی تنقید، جمیعت علمائے اسلام اور جماعتِ اسلامی والوں کا خیال ہے کہ ان کے امیر وقتِ قلندر ہیں اور قلندروں پر تنقید تھوڑی کی جاتی ہے، لبرل یہ سمجھتے ہیں کہ اس گھٹن زدہ معاشرے میں ان کی جدو جہد نقار خانے میں طوطی کی صدا ہے، اگر اس طوطی پر بھی تنقید کے نشتر چلائے جائیں گے تو معاشرے کی موت واقع ہو جائے گی، دائیں بازو والوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور نظریاتی سرحدوں کی حفاطت ان کی مرہونِ منت ہے، لہذا دائیں بازو والوں پر تنقید کر کے عظیم لوگوں کے اس ملک کی سالمیت کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب آپ ہی پھر  کسی مشورے سے سرفراز کیجیے کہ تنقید کی جائے تو کس پر کی جائے، معلوم نہیں لوگوں کو یہ غلط فہمی کیوں لاحق ہو گئی ہے کہ جس پر تنقید کی جاتی ہے وہ کوئی برا شخص ہوتا ہے، تنقید تو لوگوں کے نظریات، اعمال، اقوال اور افکار پر کی جاتی ہے، اس سے یہ پہلو کیوں اور کہاں سے اخذ کر لیا گیا کہ جس شخص پر تنقید کی جا رہی ہے وہ ملعون ہے، دعا تو ہر پل یہی کرتے ہیں کہ تنقید کا یہ جو ننھا سا پودا ہے وہ چھتنارے دار درخت بن جائے جو معاشرے کو اپنی ٹھنڈی چھاؤں میں لے سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply