• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سانحۂ کوئٹہ: شہروں کے پھیلاؤ اور دہشتگردی میں تعلق کو سمجھنے کی ضرورت(دوسرا،آخری حصّہ )۔۔۔۔ حمزہ ابراہیم

سانحۂ کوئٹہ: شہروں کے پھیلاؤ اور دہشتگردی میں تعلق کو سمجھنے کی ضرورت(دوسرا،آخری حصّہ )۔۔۔۔ حمزہ ابراہیم

2. شہر جب پھیلتے ہیں تو ان کے ارد گرد موجود زمینوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ پاکستان جیسے غریب ممالک میں کہ جہاں بے روزگاری اور جہالت عام ہے، شہری جائیداد پر قبضے اور شہر میں پہلے سے موجود لوگوں سے جائیداد چھیننے کیلئے مذہبی یا لسانی گروہوں سے تعلق رکھنے والے بے روزگار اور آوارہ نوجوانوں کو مختلف سرمایہ داروں کی طرف سے کسی اقلیت کو قتل کرنے کیلئے پیسہ ملنے لگتا ہے تاکہ وہ اپنی جائیداد سستے داموں بیچ کر چلے جائیں۔
3. علما  یا نسل پرست لیڈر دیہات سے نئے آنے والوں کو اپنی غربت محنت کر کے دور کرنے کے بجائے ان کو شہر میں موجود مخالف فرقے یا نسل کے لوگوں سے ڈرانے کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ہتھیانے کا لالچ دینے لگتے ہیں۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ یہاں ہر اہم عہدے پر یہ نجس ، غدار اور برے لوگ قابض ہیں جبکہ یہ تو آپ کا حق تھا۔ ملک کے ہر مسئلے کی جڑ یہی لوگ ہیں۔ دیہات سے نئے آنے والے نوجوانوں کے پاس اعداد و شمار اور آبادی کے تناسب کی کھوج لگانے اور کامیاب لوگوں کی ذاتی محنت کو سمجھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ پہلے وہ جس گروہ کو صرف آخرت میں جہنم جانے والا سمجھتے تھے، اب اسے اپنی دنیا کیلئے بھی خطرہ سمجھنے لگتے ہیں۔
4. میڈیکل، انجینئرنگ اور دوسرے ٹیکنیکل فنون سیکھنے والے نوجوانوں کی جدید سوشل سائنسز سے ناواقفیت کا فائدہ اٹھا کر انھیں بھی فسطائیت کے ایک اوزار کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ متاثرین تو دہشتگردوں کو ٹیکنیکل مدد فراہم کرتے ہیں اور اکثر نوکریاں حاصل کرنے یا بیرون ملک جانے کے بعد چندہ دیتے ہیں۔ چنانچہ میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم کے اداروں میں مذہب یا قومیت کے نام پر جاہلانہ سیاسی اور سماجی نظریات پھیلانے والے گروہ عام ہیں۔
5. دیہات سے جب لوگ شہر آتے ہیں تو وہ اپنے خاندان سے کٹ جاتے ہیں اور نئے ماحول کو سمجھنے کیلئے بے چین ہوتے ہیں۔ انھیں معاشی استحکام کیلئے بھی کوشش کرنا ہوتی ہے اور ان کے پاس مہنگی کتابیں خریدنے اور انھیں پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کو ان کے سوالوں کے آسان جوابات دینے کیلئے کسی زمانے میں اسٹڈی سرکل ہوتے تھے، اب یہ جوابات مسجد یا کسی پیش گوئیاں کرنے والے اینکر سے ملتےہیں۔

راہ حل

Advertisements
julia rana solicitors london

ان مسائل کے حل کیلئے ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں کچھ تجاویز دی گئی ہیں جن پر قارئین کی طرف سے تبصروں کا انتظار رہے گا۔
الف: رضاکاروں کی تشکیل
پشتون دیہاتی علاقوں میں سیکولر سیاسی جماعتوں کو عدم تشدد کی تعلیمات اور سیاسی شعور میں اضافے کیلئے اسٹڈی سرکل ترتیب دینا ہوں گے۔ نیز دہشت گرد گروہوں کے خلاف مخبری اور ان پر دائرہ حیات تنگ کرنے کے لئے پشتون سیاسی جماعتوں کو ایسے گروہ بنانے ہوں گے جو اپنے علاقوں میں گشت کریں اور متشدد افراد کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں۔ دیہاتوں میں ہر کوئی ایک دوسرے کو جانتا ہوتا ہے اور مشتبہ افراد کی نقل و حرکت آسانی سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ1827ء سے 1831ء تک سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی نے جو پہلی طالبانی ریاست بنائی اس کا سب سے زیادہ نقصان پختونوں کو ہوا تھا۔ دیہاتوں میں رہنے والے پشتونوں کو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف بروقت کاروائی کرنا ہوگی ورنہ یہ عفریت ان کے بچوں کو دہشتگرد بناتا رہے گا۔
ب: سیکولرازم کی ترویج
وقت آ گیا ہے کہ شہری علاقوں میں بالخصوص اور سارے ملک میں بالعموم جدید سماجی اقدار سے ہم آہنگ سیکولرازم اور جدید شہری اخلاقیات کی ترویج کی جائے۔ پڑھے لکھے لوگوں اور این جی اوزکو عام فہم زبان میں مختلف سماجی مسائل، بالخصوص دہشتگردی، کے بارے میں صحیح معلومات عوام تک پہنچانی ہوں گی۔ انہیں عوام کو سمجھانا ہو گا کہ علماء کی حکومت تباہی لائے گی۔
ج: سیکورٹی اداروں کی اہمیت
ماضی میں اصلی دہشت گردوں کی شناخت چھپانے کیلئے سیاسی علما  پہلے دہشت گردی کو بلیک واٹر کے سر تھوپتے رہے۔ پھر اسے ڈرون حملوں کا ردِعمل کہا جانے لگا۔ آجکل دہشت گردوں کے سہولت کار دہشت گردی کے پیچھے وردی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں دہشت گردی کے پیچھے سیاسی مفتی ہیں۔ دفاعی اداروں کی غیر ذمہ داری یا کمزوری کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردی کے اصل محرکات کو چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چوکیدار اگر قاتل کو نہ روک سکے تو اس کی سرزنش کرتے کرتے اصلی قاتل کو نہیں بھول جانا چاہیے۔ سیاسی علما  جانتے ہیں کہ ان کے اور اسلام آباد کے درمیان واحد رکاوٹ پاک فوج ہے۔ دہشت گردی کے خلاف بیانیے کی جنگ میں ان حقائق کو عوام کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ طور پر دہشتگردوں کی معلومات اکٹھی کرنے اور انٹرنیٹ پر شائع کرنے یا سیکورٹی اداروں تک پہنچانے کا کام بھی کرنا ہو گا۔
د: داخلی ہجرت
ہزارہ نسل کشی کا نشانہ بننے والے کچھ خاندانوں نے آسٹریلیا اور کینیڈا کی طرف ہجرت کی ہے۔ لیکن یہ ہجرت لمبی مسافت کی وجہ سے بہت مشکل ہے۔ پھر یہ ممالک چند ہزار افراد سے زیادہ مہاجرین کو پناہ بھی نہیں دے سکتے۔ بڑھتی ہوئی اربنائزیشن کی وجہ سے تشدد بڑھے گا۔ ایسے میں ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو پنجاب اور سندھ کی طرف ہجرت کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ پنجاب کی آبادی بارہ کروڑ اور سندھ کی آبادی پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے اور ان صوبوں کی کامیابی اور ترقی کی بڑی وجہ انکا ملٹی کلچرل ہونا ہے۔ پنجاب میں مقامی قوموں کے علاوہ بلوچ اور پشتون بھی بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ چند لاکھ ہزارہ کے لیے پنجاب اور سندھ میں بہت جگہ پائی جاتی ہے۔ ارباب اختیار کوان ہزارہ خاندانوں کے لیے پنجاب اور سندھ کی طرف ہجرت کو آسان بنانا چاہیے۔ ہزارہ برادری کے لوگ محنتی، تعلیم پر توجہ دینے والے اور صاف ستھری سماجی زندگی گزارنے کے قائل ہیں۔ ان کے آنے سے پنجاب اور سندھ کی صنعتوں کو اچھی ورک فورس ملے گی۔
ر: ٹیکنیکل تعلیم کے اداروں میں سماجی شعور کی ضرورت
پاکستان کے انجینئرنگ اور میڈیکل کی تعلیم کے اداروں میں اسلامی جمیعت طلبہ، تحریک بیداری اور اس قسم کی کئی کلٹس ان اداروں کو خصوصی شکارگاہیں بنائے ہوئے ہیں۔ عرب ممالک میں اخوان المسلمین اور القاعدہ کے بہت سے کارکن انجنیئر یا ڈاکٹر ہیں۔ ان اداروں میں پڑھنے والے بچوں کو جدید انسانی سماج کی تاریخ اور اقدار پر ایک سمسٹر کا کورس لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانا چاہئیے۔ نہ صرف ان اداروں میں مختلف مبلغین گشت کرتے ملتے ہیں بلکہ یوٹیوب اور فیس بک کی مدد سے بھی کانٹا لگایا جا رہا ہے۔ ان اداروں میں پہنچنے والے بچے بارہویں جماعت تک مطالعہ پاکستان اور اسلامیات پڑھ چکے ہوتے ہیں۔ اب ان مضامین کی جگہ تاریخ، منطق اور سوشیالوجی کا مختصر کورس کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ عوام کے ٹیکس سے تیار ہونے والی یہ افرادی قوت سماج دشمن مفسدین کے ہاتھوں ضائع ہونے سے بچ جائے۔
ہ: شہری پولیس کو مضبوط بنانے کی ضرورت
شہری پولیس نے ہمیشہ کیلئے شہر میں ہی رہنا ہوتا ہے۔ اگر امن و امان کی صورت حال خراب ہو تو اسی پولیس کی صلاحیت میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ شہروں میں اگر عارضی طور پر ایسے اداروں کو لایا جائے جن کا کام سرحدی علاقوں سے تعلق رکھتا ہے تو وہ واپس جانا پسند نہیں کرتے۔ شہری ماحول سے ناواقف محکمے کے اہلکار بعض اوقات جذبات میں آ کر پولیس کے کسی افسر کو اغوا بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان پولیس نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ شہروں میں پولیس کی تعلیم و تربیت میں اصلاحات اورانکی تنخواہ اور نفری میں اضافے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سانحۂ کوئٹہ: شہروں کے پھیلاؤ اور دہشتگردی میں تعلق کو سمجھنے کی ضرورت(دوسرا،آخری حصّہ )۔۔۔۔ حمزہ ابراہیم

  1. پہلے حصے کو پڑھنے کیلئےاس لنک پر کلک کریں:
    https://www.mukaalma.com/119424/

    صفحہ اول/نگارشات/سانحۂ کوئٹہ: شہروں کے پھیلاؤ اور دہشتگردی میں تعلق کو سمجھنے کی ضرورت(حصّہ اوّل)۔۔۔۔ حمزہ ابراہیم
    سانحۂ کوئٹہ: شہروں کے پھیلاؤ اور دہشتگردی میں تعلق کو سمجھنے کی ضرورت(حصّہ اوّل)۔۔۔۔ حمزہ ابراہیم

    27 February 2021ء
    یہ تحریر 823 مرتبہ دیکھی گئی۔

    3 جنوری 2020ء کو بلوچستان کے علاقے مچھ میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کی رہائش گاہ پر مسلح افراد نے حملہ کر کے گیارہ ہزارہ مزدوروں کو الگ کیا، ان کے ہاتھ پشت پر باندھے اور ان کو ذبح کر کے ویڈیو بنا لی۔ اس واقعے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی کہ جس کے کارکنان ماضی میں خود کو لشکر جھنگوی یا سپاہ صحابہ کہتے رہے ہیں۔ کوئٹہ میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے کے وجہ سے ہزارہ برادری پر کئی خونین حملے ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ہزارہ برادری صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع کرم میں بھی پائی جاتی ہے جو کوئٹہ کی طرح ایک پختون اکثریتی علاقہ ہی ہے، لیکن وہاں ان پر اس قسم کے بے رحمانہ حملے نہیں ہوتے کیوں کہ کرم کی پختون اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دہشتگردی ہزارہ -پختون نسلی تصادم نہیں بلکہ اسکی نوعیت مذہبی ہے۔ کوئٹہ جیسی ہی صورت حال ڈیرہ اسماعیل خان کی شیعہ آبادی کو بھی درپیش ہے ۔ پاکستان میں گزشتہ ستر سال میں شیعہ شہریوں پر ہونے والے حملوں میں سے اسی فیصد حملے شہروں میں ہوئے۔ اکیسویں صدی میں مذہبی دہشتگردی میں اضافہ ہوا تو صوفیا کے مزارات کو شرک، کھیل کے میدانوں کو لہو و لعب اور تعلیمی اداروں کو کفر کے مراکز قرار دے کر اڑایا جانے لگا۔ معاشی سرگرمیاں معاشرے کو اختلاف رائےسے پاک کرنے کے تجربات کی بھینٹ چڑھ گئیں، شہروں کی افرادی قوت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان آئی ٹی انڈسٹری لگا کر یا کورونا جیسی بیماریوں کی ویکسین بنا کر معاشی خوشحالی کا سفر طے کرنے کے بجائے دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے کو ٹھنڈے ذہن سے سمجھنے کی کوشش کی جائے اور تلخ حقائق کو قبول کرتے ہوئے اس خونریزی کے خاتمے کیلئے نئے راستے تلاش کئے جائیں۔ یہ مضمون ایسی ہی ایک کوشش ہے اور اس نئی راہ کی تلاش میں غلطیوں کا امکان بھی ہے۔ امید ہے کہ سماجی علوم کے ماہرین اس موضوع پر تحقیق کریں گے اور بہتر تجزیہ اور تجاویز پیش کریں گے۔

    بلوچستان اور کوئٹہ
    2017ء کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ تیئس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جن میں سے بائیس لاکھ لوگ کوئٹہ میں رہتے ہیں۔ کوئٹہ کی آبادی میں پانچ لاکھ افراد ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو 1893ء میں افغان بادشاہ امیر عبد الرحمن خان کے مظالم سے تنگ آ کر اس شہر میں آنا شروع ہوئے جو اس وقت انگریزوں کے زیرِ انتظام ہونے کی وجہ سے اس شیعہ مسلم اقلیت کیلئے پناہ گاہ ثابت ہوا۔ بلوچستان کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے کا بیالیس فیصد ہے اور آبادی میں اس کا حصہ چھ فیصد تک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے بیچ دور دور تک آبادی کا کوئی نشان نہیں۔ بلوچستان کے اکثر علاقے تعلیمی اور معاشی اعتبار سے نہایت پسماندہ ہیں۔ بلوچستان کی چالیس فیصد آبادی پختون ہے جو دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ ساٹھ فیصد بلوچ آبادی اٹھارہ قبائل پر مشتمل ہے جس میں سب سے بڑے مری، بگٹی اور مینگل ہیں اور وہ قبائلی رسوم و رواج پر کاربند ہیں۔ پختون آبادی کی اکثریت کوئٹہ اور قندھار کے بیچ دیہاتی علاقوں میں رہتی ہے اور یہی دیہاتی علاقے افغان طالبان کی پناہ گاہیں بنے ہوئے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی کی طرح کوئٹہ بھی پختون بیلٹ سے بہتر مواقع کی تلاش میں شہر آنے والے دیہاتیوں کی منزلِ مقصود بن چکا ہے۔ پختون دیہاتوں سے ان شہروں کی طرف ہجرت کی پہلی لہر افغانستان پر روسی حملے کے دوران پیدا ہوئی اور دوسری بڑی ہجرت امریکا پر القاعدہ کے حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے نتیجے میں ہوئی۔ شومئی قسمت کہ ان دونوں بحرانوں کے دوران پختون دیہاتوں میں مذہبی علماء کی جہادی تبلیغ زوروں پر تھی اور وہاں جدید انسان دوست ثقافت کے بجائے سیاسی دیوبندیت کو لوگوں کی شناخت بنایا جا رہا تھا تاکہ انھیں جنگ میں کام لایا جا سکے۔ اس تبلیغ سے متاثر ہونے والے جو لوگ شہر آ گئے وہ یہاں جہاد کی تلاش میں نکل پڑے۔ دوسری طرف جو لوگ دیہاتوں میں رہ گئے تھے ان میں سیاسی دیوبندیت اپنی جڑیں مضبوط کرتی گئی اور نہ صرف وہاں مذہبی عسکریت پسندی پھیلی بلکہ انتخابات میں بھی ان علاقوں سے صوبائی اور وفاقی نشستوں پر دیوبندی علما منتخب ہونے لگے۔

    ماضی میں شہر وں کی آبادی چند ہزار افراد تک محدود رہتی تھی اور اکثر لوگ دیہاتوں میں رہتے تھے۔ پچھلے سو سال میں جدید ادویات کی ایجاد کی وجہ سے بچوں کی اموات کی شرح کم ہوئی جس سے دنیا کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ گئی۔ لیکن گاؤں میں زراعت کیلئے درکار زمین تو اتنی ہی تھی جو ماضی میں ہوتی تھی۔ سائنس کی بدولت شہروں میں جدید کارخانے لگے تودیہاتوں سے روزگار کی تلاش میں شہروں کی طرف ہجرت میں اضافہ ہوا۔ یوں آج کل کے شہروں میں کئی لاکھ لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور ماضی میں جس طرح کی آبادی کو شہر کہا جاتا تھا وہ اب قصبوں میں پائی جاتی ہے۔ جدید شہروں کی پیچیدہ زندگی کو سمجھنے اور اس سے جڑے مسائل کا حل کرنے کیلئے ماضی کے علوم کے بجائے جدید مغربی علوم سے رہنمائی لینا ہو گی۔ دنیا بھر میں سماجیات کے محققین اربنائزیشن ( یعنی شہروں کے پھیلاؤ) اور اسکے نتیجے میں ہونے والی وائلنس(یعنی تشدد اور دہشت گردی) کے درمیان تعلق پر مقالے لکھ رہے ہیں۔ ان مقالوں کی روشنی میں کوئٹہ اور ڈیرہ کے شہری شیعوں کے خلاف ہونے والے حملوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شہروں میں کمزور گروہوں کے خلاف تشدد کے کچھ اسباب یہ ہیں:
    1. اکثریت سے تعلق رکھنے والی فسطائی جماعتوں، کہ جن کے پروگرام میں اقلیت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی، کو اقلیت غدار اور اپنے سیاسی عزائم کی راہ میں خطرہ معلوم ہوتی ہے۔ وہ اقلیت کو ختم یا کسی کونے میں محصور کر کے شہر کو مثالی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں۔ سماج کے مسائل کے اصلی محرکات تلاش کرنے کے بجائے اقلیت کی سازش کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ لوگوں کو اقلیت کے خلاف غصہ اور غیرت دلائی جاتی ہے۔ پاکستان کی فرقہ واریت کا یہ مادی و سیاسی پہلو اکثر تجزیہ نگاروں کی نظر سے اوجھل رہا ہے۔

Leave a Reply to حمزہ ابراہیم Cancel reply