عارف خٹک کی “چھٹکی”۔۔ڈاکٹر فاخرہ نورین

عارف خٹک کی بنیادی پہچان محبت ہے، پڑھنے والوں نے اس کے زورقلم کے نتائج واقعات کے تڑکے دار بیان، جزئیات کے ساتھ جغرافیائی اور رسوماتی تفصیلات سے بھرپور خاکہ نگاری جو کبھی کبھی خاکہ اڑانے کی کوشش بھی بن جاتی ہے، نستعلیق ناک نقشے کی حامل اردو میں اچانک ہی پختون یا پشتون لہجے کی جھلک اور صرف لہجے ہی نہیں لسانی ساخت کی تبدیلی میں جغرافیے کے دخول کی صورت میں دیکھی ہے ۔خٹک پختونخوا سے پنجاب ، پنجاب سے سندھ اور سندھ سے بلوچستان کی سرحدیں صرف موضوعات ہی نہیں اسلوبی سطح پر بھی پھلانگتا اور الانگتا رہتا ہے۔ لیکن یہ متلون مزاجی اس کے بنیادی خمیر یعنی محبت پر کبھی بھی حاوی نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ جب محبت تحریر کرنے کی باری آئی، اس نے کسی لسانی و صوبائی تعصب کو راہ نہیں دی ۔ محبت کی تلاش میں روس کی سرزمین سے پنجاب کے دیہاتوں تک کا سفر جو صعوبتوں اور دیوانگی بھرا سفر ثابت ہوا، محبت کے لئے اس کے میلان طبع کو ظاہر کرتا ہے ۔
انسانی جذبات میں محبت کی حیثیت باقاعدہ ایک قدر کی ہے جو کسی بھی علاقے، رنگ، نسل اور نظریے سے اہم اور برتر ہے۔ چنانچہ روس کی سرزمین جہاں سے نظریہ اور بغاوت ہی نہیں معیشت اور جنس باآسانی برآمد کی جا سکتی تھی، عارف خٹک نے بڑی محنت سے وہاں سے بھی صرف محبت لانے پر اکتفا کیا ۔اردو میں روس کی سرزمین کے حوالے سے غالباََ یہ پہلا ناول ہے جو روسی مصنوعاتی منڈی سے مشرق کا پسندیدہ مال یعنی محبت خریدنے کا بہی کھاتہ ہے۔بہت سے قارئین یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ روس مارکس ، لیو ٹالسٹائی اور دوستو وسکی کی زمین ہے ،زار کی رازدار ہے، واڈکا اور سستی جنسی اجناس میں بڑے بڑوں کا سہارا ہے ،تو ایسے میں صرف محبت کو موضوع بنانا مناسب اقدام نہیں ۔ لیکن عارف خٹک ایک بڑی منڈی سے اپنے مطلب کی چیز خرید لانا جانتا ہے ۔
واحد متکلم مرکزی کردار اور چھٹکی صرف دو محبت بھرے انسانی کردار نہیں بلکہ ملکی تناظرمیں ایک امید اور خواب کی علامت بن جاتے ہیں۔بھلے صدیوں طویل غلط فہمیاں اور مصائب راستے کی دیوار ہوں، اجنبی دیاروں میں ان جانے جذبات اور لمحات غالب آ کر لمحاتی دوری کا سبب بنیں، محبت اپنے چاند چہرے سے سیاہ بادل جھٹکنا جانتی ہے ۔صرف اسے عارف خٹک کی نگاہِ شوق کی ضرورت ہے جو “چھٹکی” کو تلاش کر ہی لیتی ہے۔بس کسی ایک لمحے میں نفرت اور تعصب کو رک کر سوچنے اور غور کا موقع تو دیا جائے ، محبت کی شریعت میں ہر اندھیر کا حل موجود ہے اگرچہ یہ حل قدرے دیر سے سامنے آتا ہے ۔
محبت کے سفیر کا کھلی بانہوں سواگت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply