مذہبی اجارہ داری کا طلسم۔۔نعیم اختر ربانی

عالمی قوتیں جب ملک پاکستان کو تسخیر کرنے کے خواب دیکھتی ہیں۔ اپنے دائرہ اختیار اور شکنجے میں لانے کی بابت غوروخوص کرتی ہیں۔ اس پر اندرونِ خانہ یا کلی حکمرانی کا تہیہ کرتی ہیں۔ تو پاکستان کا سب سے زیادہ مضبوط پہلو اس کا فکری اساس (یعنی کلمہ طیبہ) پر قائم ہونا رکاوٹ بنتا ہے۔ یہ ان کے خوابوں کے شہر کو مسمار کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور حقیقت کی دنیا میں رہ کر ایسے اقدامات کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ جن کی بنا پر وہ پاک وطن پر اپنی حکمرانی کے خواب کو پورا کرنے کی جسارت کر سکیں۔

اس فکری اساس کو ختم کرنے یا کمزور سے کمزور تر کرنے کی کوششیں پہلے دن سے ہوتی چلی آرہی ہیں اور آئندہ بھی اسی رفتار سے جاری رہیں گی۔ مگر ملک پاکستان میں ایک ایسا نظام بھی موجود ہے جو اس   اساس کو تقویت دیتا ہے۔ ایسے افراد مہیا کرتا ہے جو بلا خوف و خطر ، بلاترددِ جان و مال اس فکری اساس کو زندہ و جاوید رکھیں۔ اور تاحشر اس کے مضبوط رہنے کی کوششیں جاری رکھیں۔

یہ نظام نہ صرف افرادی قوت فراہم کرتا ہے بلکہ ایک مخصوص فلسفے کو بھی پروان چڑھا رہا ہے اور خواص سے عوام تک اس کی مقبولیت کے ترانے سننے کے لیے بے چین ہیں۔

یہ نظام چاہتا ہے کہ یہ فکری اساس کسی صورت بھی نگاہوں سے اوجھل یا نظروں سے دور نہیں رہنا  چاہیے۔ مفادات کی جنگ ہو یا شہوات کا کھیل بہرصورت اس کی اساسی تعمیر میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے اور اس فکر کے تمام عمدہ پہلوؤں کی بلند و بالا عمارتیں ہمیشہ قائم رہیں اور ان پر سجائے  چراغ جستجو کی طرح کبھی گل نہ ہوں۔

لیکن عالمی قوتوں کو یہ نظام ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اپنی قائم کردہ اقتداری چالوں کے ذریعے اس نظام کو اس حالت و کیفیت  تک لے جانا چاہتا ہے جہاں سے وہ دوبارہ کبھی نہ اٹھ سکے یا کم از کم ان افراد کی کھیپ تیار کرنے سے باز آ جائے جن کی وجہ سے فکری اساس کی نیک نامی اور جگ نامی قائم رہتی ہے۔ اسی لیے فیٹف نے حکومت پاکستان سے کی گئی گذارشات میں یہ بھی کہا کہ “ملک پاکستان میں موجود مدارس و مساجد کو ویلفیئر ٹرسٹ کا درجہ دیا جائے” اس گزارش کو غلامانہ ذہنیت رکھنے والے مقتدر حلقوں نے حکم سمجھا اور ایسے اقدامات شروع کردیئے کہ جن کی بنا پر عالمی قوتوں کی آنکھ بھی ٹھنڈی ہوجائے اور پاک وطن میں موجود اس نظام کے برسرآور افراد کی آنکھوں میں دھول بھی جھونکی جائے۔ مگر افسوس کہ ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور مذہبی حلقوں نے تاخیر سے ہی سہی لیکن اس اقدام کی بھرپور مذمت کی اور الگ الگ گروہوں میں رہتے ہوئے ایسے یکجان ہو کر آواز بلند کی کہ ایوانِ بالا میں براجمان شخصیات پر خوف طاری ہوگیا۔ انہوں نے بھی قدیم اور جدید پشتی قانون “لڑاؤ اور حکومت کرو” کے مطابق اس نظام کے منتظمین کو ٹکڑوں اور گروہوں میں تقسیم کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان افراد کو چنا جو اندرونِ خانہ چند تحفظات رکھتے تھے یا کسی ذاتی عناد اور دنیوی مفاد کی لو میں جل رہے تھے۔

گویا بندر کے ہاتھ میں تیلی آ گئی۔ تو اس نے اس نظام کو بھسم کرنے کی کوشش کی جو اس کے فیصلوں اور احکامات کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ”ہم خلافِ شریعت اقدامات اور قوانین کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ اگر اس فیصلے کو واپس نہ لیا گیا تو ایوانوں میں براجمان افراد کی نیندیں حرام کر دیں گے” مفادات کی جنگ میں شکست کھانے والوں کو تازہ کمک اس طرح پہنچائی گئی کہ انہیں اجارہ داریوں کی مسندیں عطا کی گئیں اور راتوں رات اسفل سے اعلی ٰ بنا دیا۔

اس فیصلے پر داد دینے والوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ مذہبی نظامِ تعلیم اور مذہبی سیاست پر چند لوگوں نے اجارہ داری قائم کرلی تھی۔ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اس نظام ، نام اور مقام کا بے لاگ استعمال کرتے اور تاثر یہ دیتے کہ ہم نے یہ سب مذہب کے مفاد کے لیے کیا ہے۔ حالانکہ اس سے خود مذہب کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سالمیت اور وقار کو نقصان پہنچتا تھا۔

لیکن ان مقتدر افراد کے دل میں رائی برابر بھی خوف خدا نہ آیا اور اگر کوئی صاحبِ فراست اس بابت کچھ کہنے کی جسارت کرتا یا درست راہ دکھانے کی کوشش کرتا تو اسے دھتکار دیا اور اگر کوئی زیادہ بحث و تمحیص کی صورت اختیار کرتا تو اسے قدیم اور روایتی حربے یعنی فتوے کی زد میں لایا جاتا۔ مگر جب سے حکومتِ پاکستان نے ان افراد کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے دوسرے لوگوں کو بھی ان جیسے اداروں کی مسند عطا کی تو اس پر کوئی سوال نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس فیصلے کو خوش آئند قرار دینا چاہیے۔

دراصل اس موقف کی بنیاد ہی غلط ہے کہ اجارہ داریوں کے خاتمے کے لیے نئے اجارہ داریاں قائم کی جائیں۔ تاریخ اور تجربہ گواہ ہے کہ جب بھی اجارہ داریوں کے مقابلے میں نئی منڈیاں قائم کی گئیں۔ تو وہ مقتدر حلقوں اور افراد کے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے تھیں۔ ان کی وجہ سے پہلے سے موجود اجارہ داری کے برسرآور افراد کو ذاتی یا ان کے اعلامیے اور بیانیے کو نقصان تو پہنچا مگر نئی منڈیوں نے پہلے لوگوں سے زیادہ کوئی کام نہ کیا اور محض اپنے محسنوں کے مفادات کے تحفظ میں اپنی صلاحیتیں ، وقت اور سرمایہ صرف کرتی رہیں۔ بالآخر وقت کے ساتھ ساتھ ان کا وجود بھی مثل خاک ہو گیا۔

دوسری چیز جو اس بیانیے کو کمزور کرتی ہے یہ ہے کہ حکومت نے اس فیصلے کے لیے صحیح وقت کا انتخاب نہیں کیا۔ یہ وہ وقت ہے کہ جب پہلے سے موجود تمام تعلیمی وفاقوں نے حکومتی فیصلے (وقف املاک ایکٹ) کو یکسر مسترد کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ کسی صورت بھی اسے تسلیم کرنے کی سوچ بھی اپنے دماغ میں نہیں لا سکتے۔ تو گویا حکومت پاکستان نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے نئے پانچویں وفاقوں کے اجراء کا اعلان کیا۔ اور انہیں اسناد جاری کرتے ہوئے یہ تاثر دیا گیا کہ اگر تم اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کی کوشش نہیں کرتے تو ان افراد کو حکومتی سرپرستی میں مقام ارفع تک لایا جائے گا اور تمہاری بالائی منزل پر جہاں اب تمہارا ڈیرہ ہے لا بٹھایا جائے گا۔ کیونکہ حکومت نے اسناد جاری کرتے ہوئے یہ کہا کہ پندرہ سے بیس دنوں تک نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے گا لہذا یہ کہنا کہ یہ قابلِ تعریف اقدام ہے ہرگز درست نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بجا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تعلیمِ دین پر اجارہ داریوں کی زنجیر ٹوٹنی چاہیے۔ تاکہ نئے آئیڈیاز کو تجربہ گاہ میں میسر ہو۔ نوجوان تازہ ولولے ، جوش و جذبے ، ہمت و استقامت اور شجاعت کے ساتھ اس کام میں بہتری لائیں۔ تعلیمی مراحل میں ارتقائی سفر کا آغاز ہو اور قدیم روایات سے جدید تقاضوں کی طرف پیش قدمی کا کوئی ساماں ہو۔ لیکن اس کے لیے اجارہ داری پر اجارہ داری قائم کرنا اور فرقہ بندی کی فضا بنا کر تعریفوں کی راہ ہموار کرنا کسی صورت بھی درست نہیں اگر کوئی خیر خواہی کا جذبہ رکھتا ہے تو اسے مذہبی اجارہ داری کے طلسم کو یوں توڑنا ہو گا کہ کھل جا سم سم کی آواز تک نہ آئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply