شعور! پل پل سیکھتی مشین۔۔۔ احمد نصیر

ہم انسانوں میں سب سے  خاص  چیز شعور ہے۔ ایک یہی چیز ہے جو ہمیں باقی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ باقی جانداروں کے پاس بھی ذہن ہوتا ہے۔ جس سے وہ اپنی پوری زندگی کو ڈرائیو کرتے ہیں۔ لیکن ان میں صرف ذہن ہوتا ہے۔ وہ اپنے حواس سے معلومات کو اخذ (perceive) کرتے ہیں اور عمل (act) کرتے ہیں۔ جبکہ ہم اپنے شعور کی وجہ سے نہ صرف معلومات کو perceive کرتے ہیں بلکہ ایکٹ کرنے سے پہلے ہمارا سسٹم بہت باریکی سے اسے پروسس کرتا ہے اس کے بعد ہم ایکٹ کرتے ہیں۔ یعنی ہم ایکٹ کرنے میں اختیار رکھتے ہیں۔ یہ اختیار ہی شعور ہے۔ شعور خیالات اور احساسات سے مل کر بنتا ہے۔ ذہن میں خیال آتا ہے جسے فیلنگز approve یا رَد کرتی ہیں۔ ان فیلنگز کی بنیاد ہمارے ماضی کے تجربات اور ہمارا علم ہوتا ہے۔

شعور ویسے مشین نہیں ہے۔ یہ دماغ کے اندر نیورونز کی منظم فائرنگ کا نام ہے۔ شعور کیا ہے؟ یہ سوال سائنس و فلسفہ کے بڑے سوالوں میں سے ایک ہے۔ ایک اور مزے کی بات کہ ابھی تک یہ بھی کلیئر نہیں کہ شعور سوال فلسفہ کا ہے یا سائنس کا۔ مختلف بحثیں ہیں۔ بہرحال جو بھی ہے ابھی تک کوئی بھی شعور کی جامع اور تسلی بخش وضاحت نہیں کر پایا۔ تاہم یہ بالکل واضح ہے کہ شعور نام کی کوئی چیز وجود رکھتی ہے۔

شعور وجود میں آنے کے پہلے لمحے سے سیکھنا شروع کرتا ہے اور تب تک یہ سیکھنے کا عمل جاری رکھتا ہے جب تک کہ جسمانی وجود کی موت نہیں ہو جاتی۔ ہمارا ذہن ایک ریکارڈنگ ڈیوائس ہے۔ جو کچھ ہمارے ساتھ یا ہمارے سامنے گھٹتا ہے وہ اپنے مکمل اثر اور ہماری اس وقت تک کی اس کے بارے میں جو بھی perceptions ہوتی ہیں ان کے ساتھ ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ اس ریکارڈنگ میں وہ واقعہ، اس کا اثر اور ہمارا نقطۂ نظر باہم نتھی ہو کر ہمارے بائیولوجیکل سسٹم کی میموری میں الگ الگ جگہ save ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے مائنڈ اور باڈی کا سسٹم اس قسم کے ہر واقعے پر اسی ریکارڈنگ کے مطابق ری ایکٹ کرتا ہے۔

ہماری کھوپڑی کے اندر نیورونز اور نیورو ٹرانسمیٹرز کی ایک پیچیدہ گیم ہے۔ جو سارے ذہنی اعمال تخلیق کرتی اور پروسس کرتی ہے۔ زندگی کی ساری سٹوری یہاں سے ڈرائیو ہوتی ہے۔ ہماری زندگی کے تمام اعمال ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا شعور کنٹرول کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن اس شعور کو کون ڈرائیو کرتا ہے؟ شعور کو “میں” ڈرائیو کرتا ہوں۔ میں یعنی “انسان” نہ کہ میں عاجز۔۔۔ لیکن یہ ہر جگہ نہیں۔ یہ تو اس شعور کی سب  سے بہترین حالت ہے کہ کوئی اپنے شعور کو خود ڈرائیو کر رہا ہو۔ عام طور پر تو یہی ہوتا ہے کہ ہمارے شعور کو ماحول ڈرائیو کر رہا ہوتا ہے۔ ایک بچہ کسی مخصوص ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ پھر اسی ماحول کے مطابق پرورش پاتا ہے اور اسی ماحول کے طور طریقوں پر زندگی گزارتا سفر ختم کرتا ہے اور مر کر اگلے جہان سدھار جاتا ہے۔ اس کے نظریات، عقائد، مذہب، سیاسی وابستگیاں پوری زندگی وہی رہتی ہیں جو اس کے والدین کی ہوتی ہیں۔ یا ایک بار خودکار طریقے سے بن جاتی ہیں۔ یہ شعور کی ادنیٰ  ترین حالت ہے۔

آپ نے باغ بھی دیکھا ہو گا اور جنگل بھی۔ باغ خوبصورت ہوتا ہے کیونکہ مالی نے ایک ترتیب سے پیڑ پودے لگائے ہوتے ہیں، وقت پر شاخ تراشی کرتا ہے اور ہر طرح سے ان کا خیال رکھتا ہے۔ جبکہ جنگل میں درخت خودبخود اُگتے ہیں بغیر کسی ترتیب کے پروان چڑھتے ہیں۔ ہماری شخصیت بھی اسی طرح بنتی ہے۔ اگر ہم خود اس کا خیال نہیں رکھتے، اپنی عادتیں، اپنے نظریات خود نہیں بناتے تو ہمارے ایکشنز پر ہمارا کنٹرول نہیں ہوتا۔ ہماری زندگی پر ہمارا کنٹرول نہیں ہوتا۔

ہمارا مائنڈ سیٹ بنا ہوا ہے کہ ایک وقت تک ہمیں grow ہونا ہے اس کے بعد ہمارا حیاتیاتی جسم گروتھ کا سفر ختم کر کے تنزلی کی طرف جانا شروع کرے گا۔ یعنی صحت اور فزیکل فٹنس کے مسائل پینتیس چالیس سال کی عمر سے بتدریج زیادہ ہونا شروع ہوتے ہیں۔ یہ دیکھا دیکھی ہو رہا ہے۔ 90 فیصد سے زیادہ آبادی اسی پیٹرن پر جئے جا رہی ہے۔ مجموعی طور پر چونکہ ہم جس خطہ میں رہتے ہیں اس کی مجموعی پرفارمنس اچھی نہیں۔ معاشرے میں ہر لیول پر منفی جذبات اور منفی نظریات حاوی ہیں۔ جھگڑے، رولے، تنازعے، کرپشن، دونمبری، دھوکہ، بے وفائی یہ سارے ہماری اتنی قیمتی زندگی کو بے رحم ریلے میں بہا کر ہماری زندگی کے آخری لمحے کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔ ہم بے اختیار ہیں۔ مکمل بے اختیار۔ زندگی کی اتنی بُری سٹوری تو ہم نے سوچی بھی نہیں تھی جو ہماری تقدیر بنی ہوئی ہے۔ زندگی تو بنانے والے کا سب سے بڑا شاہکار ہے۔ ہم پھر اس عظمت کو زندگی میں کیوں نہیں دیکھتے؟ زندگی کی وہ صورت ہمیں آج تک کیوں نہیں نظر آئی؟ جواب ہے کہ ہماری توجہ اس طرف نہیں جا رہی۔ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ہم ذمہ داریوں میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ اپنے لئے وقت ہی نہیں۔

ہم شعوری زندگی نہیں جی رہے۔ آٹومیٹک اور بے اختیار زندگی جی رہے ہیں۔ وقت کا تیزرفتار ریلہ ہی ہمارا ناخدا ہے۔ اسی کے رحم و کرم سے کچھ بن پایا تو کریں گے۔ نئی انوکھی یا اس تیز ریلے سے باہر کی چیز ہمارے لئے نہیں۔ ہم کسی اور سٹیٹ میں ہیں۔ ہمارا سروائیول ہماری بقا اس تند و تیز ریلے کو پوری قوت سے پکڑے رہنے میں ہے۔ سروائیول کی اس منہ زوری نے ہمیں چوبیس گھنٹے حالتِ جنگ میں رکھا ہوا ہے۔

آج ہم نے ذہن کے کام کرنے کے اصولوں پر AI یعنی ارٹیفشل انٹیلیجنس بنا لی ہے۔ جو کہ اگلے وقتوں کی اہم ترین ٹیکنالوجی بننے والی ہے۔ AI میں بھی ہم بس ذہن تک بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ روبوٹس دیے گئے ٹاسک پر عمل کرتے ہوئے مطلوبہ کام کر سکتے ہیں لیکن وہ اپنی طرف سے کچھ بھی تخلیق نہیں کر سکتے۔ آج ہم سمجھ چکے ہیں کہ AI کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ “مقصد” ہے۔ ہم روبوٹس کو مقصد نہیں سمجھا سکتے۔ اس لئے وہ پوری طرح independently کوئی کام سرانجام نہیں دے پاتے۔ یہ خصوصیت واحد انسان کے پاس ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے ارادے اپنے اختیار سے کچھ بھی تخلیق کر سکتا ہے۔ یہ واحد شعور ہے جو خدا نے بنایا یا مروجہ جدید سائنس کے حساب سے شائد خود ترقی کرتے تخلیق ہوا۔

انسان کائنات کی واحد مخلوق ہے جو سابقہ علم اور عقل کے خلاف بھی عمل کر سکتی ہے۔ اس عمل کی سمت درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ شعور تربیت یافتہ ہوا تو سمت درست ہو گی اور جھاڑ جھنکاڑ کی طرح خود رو ہوا تو اس عمل کی سمت غلط بھی ہو سکتی ہے۔

مجموعی طور پر ہمارے معاشرے میں اچھائیوں کی بنسبت برائیوں اور مسائل کی تعداد زیادہ اسی وجہ سے ہے کہ ہمارے شعور تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ اچھائی کو ہر کوئی پسند کرتا ہے اور برائی کو ناپسند۔ حتیٰ کہ کرپٹ ترین لوگ بھی برائی کو ناپسند کرتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ شروع دن سے معاشرے میں برائیوں اور مسائل کی تعداد ہی زیادہ رہی؟ ہم غیبت، جھوٹ، دھوکہ، لالچ، بغض، حسد جیسی صفات سیکھنے کسی سکول میں نہیں جاتے جبکہ انسانیت کی معراج اعلیٰ صفات سکھانے کے لئے ادارے ہیں، ریفارمرز ہیں، دانشور ہیں، پیغمبر اور آسمانی کتابیں ہیں۔ ہمارا ذہن اس طرح ڈیزائنڈ ہے کہ ہمیں روانی میں چل رہی عام روش سے ہٹ کر چلنے میں اپنے سروائیول کے لئے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے چار لوگ کوئی عمل کریں۔ چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ ہم بھی اسے اختیار کر لیں گے۔ یہ آٹومیٹک نظام ہے جو چلتا آ رہا ہے۔ اگر ہمارا شعور تربیت یافتہ نہیں ہے تو ہمارے پاس اچھائی برائی کی پیمائش کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنی غلطیاں نظر ہی نہیں آتی۔ ہمارا ذہن کبھی ہمیں یہ نہیں کہتا کہ تم غلط کر رہے ہو۔ یہ تو ہمارے لئے survival threat ہو گا۔ ہمارے سسٹم میں ایک میکنزم ہے جسے نفسیات کی اصطلاح میں ڈیفنس میکنزم کہا جاتا ہے۔ مختصراً ایسے سمجھیں کہ ہمارے اندر ایک وکیل ہوتا ہے جو ہمارے برے عمل کو مجبوری، وقت کی ضرورت اور دوسرے کی غلطی بتا کر قانونی قرار دیتا ہے۔ ہمارے ذہن کی بنیادی ذمہ داری ہمارا سروائیول ہے نہ کہ اچھائی برائی کی تمیز کے قضیے۔ یہ کام شعور کا ہے۔ تربیت یافتہ شعور کا۔

ہمارے ساتھ بہت بڑی ٹریجڈی ہے کہ ہم نے آج تک اپنے آزاد اختیار free will کو سمجھا ہی نہیں۔ ہم نے آج تک اپنے شعور کو اپنے شعور سے دیکھا تک نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ہم میں اور ایک جانور میں کوئی فرق بھی نہیں۔ ایک بکری بھی درخت کو دیکھتی ہے اور ایک انسان بھی۔ لیکن بکری صرف درخت کو دیکھتی ہے جبکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہم درخت کو دیکھ رہے ہیں۔ ابھی تجربہ کریں کہ سامنے اس سکرین کو دیکھیں اور ساتھ محسوس کریں کہ آپ اسے دیکھ رہے ہیں۔ آس پاس کی آوازوں کو سنیں اور ساتھ محسوس بھی کریں۔ منہ کے ذائقے کو ناک میں آتی smell اور جسم سے ٹچ ہوتے ہر احساس کو ایک ہی وقت میں محسوس بھی کریں اور ذہن سے خود کو نوٹ بھی کریں۔ یہ ہیں آپ۔۔۔۔ زندگی کو دیکھیں۔ کائنات کو دیکھیں۔ اپنے اندر اور باہر کی کائنات کو۔۔۔۔ یہ سب بے مقصد نہیں۔ آپ، آپ کی زندگی بے مقصد نہیں۔ اگر آپ یہ سب پہلی بار محسوس کر رہے ہیں پھر بھی آپ بہت خوش نصیب انسان ہیں کہ کسی لمحے آپ کو زندگی کا احساس ہوا۔ یہ زندگی کا عقلی احساس ہے جو کائنات میں موجود مخلوقات میں صرف اور صرف ہم انسانوں کا خاصہ ہے۔ خصوصی وقت نکال اپنے تمام عقائد، نظریات، سیاسی وابستگیوں اور عادات کو سخت عقلی کسوٹی پر پرکھیں کہ یہ آپ کی اپنی ہیں یا قریبی لوگوں سے مستعار لی ہوئی۔ آٹومیٹک سے باہر نکلیں۔ اپنی زندگی کو اپنے اختیار میں لائیں۔ تھوڑے ہی وقت میں آپ کو زندگی کے حقیقی رس کا ذائقہ آنے لگے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہماری زندگی میں جتنے بھی مسائل ہیں ان سب کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہمارا یہ آٹومیٹک نظام، ہمارا یہ غیر تربیت یافتہ شعور۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply