• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امریکن ایمبسی کو انہتر میں کیسے اور کیوں جلایا گیا؟۔عامر کاکازئی

امریکن ایمبسی کو انہتر میں کیسے اور کیوں جلایا گیا؟۔عامر کاکازئی

جنرل چشتی کے بقول جنرل ضیا بھٹو کی پھانسی اور انتخابات سے انکار کے بعد خوشامدیوں میں پھنس گیا تھا۔ ٹوڈی حضرات ہر روز اس کو نئے نئے  طریقے بتاتے تھے، عوام میں مقبول ہونے کے۔ ایک طریقہ ان چپڑ قناتیوں نے یہ بتایا کہ جنرل ضیا عوام میں گھل مل جاۓ اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ روز جنرل ضیا سائیکل پر باہر نکل جاتے اور لوگوں میں بغیر سیکوریٹی کے گھل ملِ جاتے۔ پہلے تو وہ صرف گھر سے آفس تک جانے لگے۔ پھر سائیکل پر پنڈی صدر اور راجہ بازار تک بھی پہنچ گۓ۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح وہ ایک پاپولر عوامی جنرل کے طور پر مشہور ہو جائیں گے۔

یہ یاد رہے کہ بہت بڑی تعداد میں فوجی سول لباس میں جنرل ضیا کے  آس پاس ہی  رہتے تھے کہ سیکورٹی کا مسئلہ نہ پیدا ہو۔جنرل چشتی بتاتے ہیں کہ بیس نومبر 1979 کو صبح صبح سعودیہ میں خانہ کعبہ پر حملہ کی خبر پاکستان بھی پہنچ گئی تھی۔ جس وقت جنرل ضیا سائیکل چلاتے ہوۓ فوارہ چوک تک پہنچے تو کچھ لوگ جمع تھے، انہوں نے جنرل ضیا سے پوچھا واقعہ کے بارے میں پوچھا تو جنرل نے بتایا کہ ان کی سورس کے مطابق امریکہ نے خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ لوگوں نے یہ سنتے ہی امریکہ مردہ باد اور جنرل ضیا زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے اور مشتعل ہجوم اسلام آباد کے ڈپلومیٹک انکلیو کی طرف روانہ ہوگیا۔

اسلام آباد سول ایڈمنسٹریشن نے کافی کوشش کی جلوس  کو  روکنے  کی۔ مگر جلوس بہت بڑا اور حد سے زیادہ برا فروختہ ہو چکا تھا۔تقریباً تین بجے جنرل ضیا نے جنرل چشتی کو فون کیا اور گھبرائے  ہوئے انداز میں کہا کہ کچھ کرو کہ اس سے پہلے کہ جلوس ایمبسی پہنچ کر اس کو نقصان پہنچاۓ۔ جنرل چشتی نے انکار کرتے ہوۓ کہا کہ یہ سب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل سرور کی ڈیوٹی ہے۔ مگر جنرل ضیا نے کپکپاتی آواز میں جنرل چشتی سے درخواست کی کہ سب اس جلوس کو روکنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ مرشد ایمبسی جل رہی ہے۔ کچھ کرو۔۔کچھ دیر سوچنے کے بعد جنرل چشتی نے کہا کہ وہ فورس بھیجتے ہیں۔ اور خود بھی اس طرف کا وزٹ کرتے ہیں۔ جب جنرل چشتی کے جوان چار بجے ایمبسی پہنچے تو وہ جل چکی تھی۔ جنرل ضیا نے  معافی کے ساتھ پاکستان کے خزانے سے 250 ملین روپے ہرجانے کے طور پر امریکی ایمبیسی کو دیے۔

امان اللہ خان جنہوں نے تقریباً چالیس سال امریکی ایمبسی   میں پولیٹیکل ایڈوائزر کے طور پر کام کیا، اپنی کتاب tight rope walk میں کچھ اس طرح سے ایمبسی کے جلنے کا ذکر کرتے ہیں:

“نومبر 1979 میں تقریباً بیس ہزار کالجوں اور یونیورسٹی کے طالب علم اور عام عوام نے امریکی ایمبسی پر حملہ کیا۔ اس کی وجہ اکیس نومبر کی صبح ایک ایرانی ریڈیو کی اردو رپورٹ تھی کہ امریکہ نے خانہ کعبہ پر بموں سے حملہ کر دیا ہے اور امریکہ اس قبضہ کے پیچھے ہے۔ مگر کسی نے بھی ان کو یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ حقیقت میں یہ قبضہ سعودیہ عرب کے اوطیبہ قبیلے کا ایک ملا تھا جس کا نام تھا جوہامن بن سیف لاو یبی، اس کا بہنوئی محمد عبداللہ القہاطانی (جس نے اپنے  آپ کو امام مہدی ہونے کا اعلان کیا تھا) نے کیا۔ ان میں کچھ مصری، پاکستانی، یمنی اور امریکی مسلمان تھے۔ جن میں زیادہ تر سعودیہ عرب کے اوطیبہ قبیلے کے جوان اور مدینہ یونیورسٹی کے بے روزگار طالب علم تھے۔ ان کی تعداد تقریباً پانچ سو تھی”

ان باغیوں کے کچھ مطالبات تھے کہ امریکہ کو تیل کی سپلائی  روکی جاۓ اور تمام غیر مسلمانوں کو حجاز مقدس سے نکال باہر کیا جاۓ۔ باغیوں نے پہلے تہہ خانہ پر قبضہ کیا، اس کے بعد تمام میناروں پر قبضہ کیا گیا۔ ان کے پاس ہتھیاراور کھانا وافر مقدار میں موجود تھا۔ پہلے تو سعودی حکومت نے ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس میں ناکامی میں انہوں نے پاکستانی، فرنچ اور امریکی حکومت سے درخواست کی کہ اپنے کمانڈوز بھیج کر کعبہ پر سے قبضہ چھڑوایا جاۓ۔ پاکستان  اور فرانس نے کچھ کمانڈوز کے دستے بھجے جن کی قیادت فرانس کا کمانڈو لیفٹیننٹ پال بوریڈ کر رہا تھا، جو کہ اس قسم کی صورت حال کا ایکسپرٹ تھا۔ایک عجیب سی صورت حال یہ بھی تھی کہ چونکہ غیر مسلم خانہ کعبہ میں نہیں گھس سکتے تو عارضی طور پر تمام غیر مسلم کمانڈوز کو پہلے مسلمان کیا گیا۔ اس بات کا انکشاف لارنس رائت نے اپنی کتاب (the looming tower : al-qaeda and the road to 9/11. ) میں کیا ہے۔

یہ قبضہ بیس نومبر سے چار دسمبر تک جاری رہا۔ ایک شدید لڑائی کے بعد باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس لڑائی  میں تقریباً دو سو پچپن انسان ہلاک ہوۓ۔ ان میں حاجی، فوجی اور باغی شامل تھے اور پانچ سو کے قریب زخمی ہوۓ۔

امان اللہ صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ “جیسے نیرو بانسری بجا رہا تھا اور روم جل رہا تھا، اسی طرح جنرل ضیا، اس وقت سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے راجہ بازار میں سائیکل چلا رہا تھا۔ اس وقت ایمبسی کو بچانے کے لیے کوئی  فوج، پولیس یا لوکل ایڈمنسٹریشن میں سے وہاں نہیں تھا کہ امریکی اور پاکستانی سٹاف کو بچایا جا سکے۔ میرا اپنا خیال تھا اور ہے کہ جنرل ضیا چاہتا تھا کہ امریکی ایمبسی جل جاۓ۔ اس نے جان بوجھ کر امریکی اور پاکستانی سٹاف کی سیکورٹی کو نظر انداز کیا۔ اس وقت کوئی  نہیں آیا سوائے ایک ہیلی کاپٹر کے جو کچھ دیر تک ایمبسی کے اوپر منڈلاتا رہا اور صرف جائزہ لے کر واپس چلا گیا۔ اس حملے میں تین امریکی اور تین پاکستانی ہلاک ہوۓ۔ کچھ ہلاکتیں حملہ آوروں میں سے بھی ہوئیں۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ جب وہ ایمبسی پہنچے اور حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش کی تو ایک جاننے والا ایجنسی کا بندہ آیا اور ان کو کہا کہ اپنی جان بچاؤ، کیونکہ اس بھیڑ میں ایجنسیوں کے بندے بھی ہیں ، جو تمہیں جانتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمیں مروا دیں۔ مگر انہوں نے جانے سے انکار کر دیا کہ کل کو ان کو ایک بھگوڑے کے نام سے پکارا جاۓ گا، جو مصیبت کے وقت اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو چھوڑ کو بھاگ گیا۔” جلوس والوں نے پہلے ہر چیز لوٹی حتئ کہ شراب کی بوتلیں بھی نہ چھوڑیں۔ پھر انہوں نے ایمبسی کی گاڑیوں سے پٹرول نکال کر پوری ایمبسی جلا دی۔ (یہ تھے مسلمان جنہوں اسلام کے نام پر شراب تک نہ چھوڑی)۔

امان اللہ صاحب کے مطابق جنرل ضیا نے بعد میں معافی مانگی اور 23 ملین یو ایس ڈالر امریکی ایمبسی کو ہرجانے کو طور پر ادا کیے۔

یہ تھی ایک چھوٹی سی جھلک کہ کیسے ہمارے فوجی ڈیکٹیٹر حضرات ہمارے امن کے ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اپنے ذاتی عناد کے لیے ملک کو تئیس ملین یو ایس ڈالر کا ٹیکہ لگانے میں بھی کوئی  ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔

اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل کتابوں سے مدد لی گئی ہے۔

1۔شیخ عزیز کا مضمون ڈان میں۔ اپریل انیس 2015

Tightrope walk  by amanullah2۔

3۔ the looming  tower: al-qaeda and the road to 9/11 by Lawrence Wright

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply