میرا جسم میری مرضی۔۔ناصر خان ناصر

اللہ میاں کا بنایا ہوا کمپیوٹر “انسان”، خود انسان کے اپنے بنائے کمپیوٹر سے زیادہ دیر پا ہے۔ خدائی کمپیوٹر کو صرف خوراک اور پانی درکار ہے۔
اس خوراک میں کیا شامل ہو، اکثر اوقات انسان کی اپنی فطرت خود اسے بتا دیتی ہے۔ ہر انسان کا کبھی کبھار خوامخواہ کوئی خاص شے کھانے کو جی چاہنے لگتا ہے، اگر آپ اسے افورڈ کر سکتے ہیں تو برائے مہربانی اپنے دل کی آواز سن کر وہ شے ضرور کھا لیا کریں، شاید جسم کو اسی شے میں موجود کیمیکلز کی کمی پڑ گئی  ہو۔
باقی رہے غذائی  ماہرین اور ان کی روزانہ بدلتی ہوئی  تھیوریاں تو لڈو کہنے سے منہ میٹھا نہیں ہوتا۔
گھائی کی میری، توے کی تیری۔۔۔
ان مت ماروں کو تو خود خبر نہیں کہ اگر گڑ سے مرے تو زہر کیوں دیجیے۔
کبھی کہا جاتا ہے دودھ مت پیو، یہ نقصان دہ ہے۔
چار مہینے بعد نئی  ریسرچ کہتی ہے کہ دودھ پینا ہر انسان کے لیے نہایت ضروری اور مفید ہے۔
پھر یہی کا یہی کھیل انڈوں کے ساتھ ہوا۔ گھر کی مرغی دال برابر۔
کہا گیا کہ روزانہ انڈے کھانا صحت کے لیے سخت برا ہے، نگوڑے انڈے کولیسٹرول پیدا کرتے ہیں۔
پھر خبر آئی ، نہیں انڈے تو نہایت کارآمد ہیں، ان سے پیدا شدہ اچھا کولیسٹرول نہایت ضروری ہے۔ کھائیے گڑ شکر سے مگر گلگلوں سے پرہیز۔۔۔
پھر دیسی گھی کھانے کی مناہی ہوئی ، ہم نے دیسی گھی کے بھرے کنستر پھینک دیے اور سبزیوں سے نکالے تیل کی بڑی بوتل خرید لائے۔ اسے برا بھلا کہا گیا تو سرسوں کا تیل خریدنا پڑا کہ کسی کو بینگن بیالے، کسی کو ان پچ۔
اس کے بعد تو بھائیو! لائن ہی لگ گئی ۔ زیتون کا تیل، سورج مکھی کا تیل، ناریل کا تیل۔۔۔ تیرا میرا۔۔۔ تیراں میراں کا تیل، یہ تیل وہ تیل۔۔۔
تیل بدلتے بدلتے اپنا ہی تیل تو کیا نکلتا کہ ان تلوں میں تیل نہیں، البتہ جبڑوں کی ہڈیاں ضرور نکل آئیں۔
اب کہتے ہیں کہ ساری کی ساری تحقیقات غلط تھیں، اصلی گھی کا سا سواد اور فائدے کسی اور شے میں نہیں۔ مار اوئے ڈپٹی۔۔۔
اب اپنی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی   میں۔۔۔
تازہ جوس ہمیں بچپن سے پسند تھے، ساری عمر ہر گھر میں مالٹوں کا باغ لگوایا اور سیزن میں تازہ جوس نکال نکال نکال کر پئے۔ اب یہ نامعقول کہتے ہیں کہ جوس مت پیو، تازہ پھل کھا لو۔ کہے کھیت کی، سنے کھلیان کی۔۔۔
برے ہردوار تیرتھ یاترہ بُری نہیں، گنگا اشنان بُرا ہے۔
مگر کیوں؟
یہ نہیں کہتے، منہ میں گھنگنیاں بھر کر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ چار چھ مہینے بعد خود اپنے ہی سابقہ بیان سے بدلنے میں آسانی رہے۔
ان غذائی  ماہرین نے گہیوں کی بال نہیں دیکھی مگر کبھی کہتے ہیں گہیوں مت کھائیے، پھر گہیوں کے ساتھ گھُن بھی پس جاتا ہے کہ بھلے اسے کھائیں مگر چھان کر مت کھائیں۔ مہینوں چھان بورا ملی بے سوادی روٹی کھانے کے بعد پتا چلا کہ یہاں بھی کشمش کی طرح تنکے موجود ہیں۔
اب پتہ چلا کہ مکئی کے آٹے کی روٹی بہتر تھی۔ لو بھئی ۔۔۔
اللہ اللہ کر کے وہ شروع کی تو چاول چھڑوا دیے۔۔۔
یہاں غنچہءخاطر شگفتہ ہوا تو کہا گیا کہ چاول بھی ہاتھ سے چھنے اور بلا دھوئے پکائیے وگرنہ ساری غذایت ضائع ہو جاتی ہے۔
لو کر لو گل۔۔۔
آلو چھیل کر کھائیے، سیب ان چھلے بہتر ہیں،
سیب چھیل کر کھائیے، آلو ان چھلے۔۔۔ وگرنہ وٹامن نہیں ملیں گے۔
گُربہ مسکین اگر پر داشتے
تُخم گنجشک از جہاں برداشتے
اب ہم نے تہیہ کر لیا ہے کہ من چاہی اور منہ مانگی ہر شے کھائیں گے۔
اچھا ہے جو دل چاہے وہی کھائیے، بھلے کھانے کی مقدار کم کر لیجیے مگر ورائٹی میں جان ہے، بھلے جان کو کوئ سی شے جان سے زیادہ پیاری ہو، جان جان کر ہر انجانی شے کھائیے اور جان بنائیے۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔۔۔ ہمیں پتہ ہے کہ یہ مثل یہاں بے محل ہے مگر کیا پتہ پدی کے شوربے میں کیا ہو جو مرغ مسلم میں نہیں۔
بھے، سوہانجنا، چقندر، سنگھاڑے، لونڑک مریڑی، کچنار، ڈیلے، کھمبیاں، پیہوں ہر نایاب شے اب ہمیں مرغوب ہے۔ پا پا، پیشن فروٹ اور بیل کے نایاب پھل بھی منگوا کر چکھ لیے ہیں۔
ہم اب ہر کھانے میں طرح بہ طرح کے فروٹ، سبزیاں، گوشت ہر چیز مگر کم مقدار میں بدل بدل کر کھاتے رہتے ہیں۔ دل و دماغ بھی چلتے ہیں اور ٹانگوں نے بھی جواب نہیں دیا۔ غذائی  ریسرچ اور اس کی ساری روز کی بنیاد پر بدلتی ہدایات گئیں چولہے بھاڑ میں۔۔۔
میرا جسم میری مرضی۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply