سائنس میں (اور سستے رومانوی ناولوں میں) سب سے بڑی کامیابی یکجائی ہے۔ سب سے بڑی سنسنی خیز دریافت یہ ہے کہ دو الگ سمجھی جانے والی چیزوں کو ایک کر دیا جائے اور یہ پہچان لیا جائے کہ یہ اصل میں ایک ہی چیز کے الگ پہلو ہیں۔ اگر یہ ممکن ہو جائے تو یہ سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔
یکجائی کی ہر تجویز حیرت کا پہاڑ لے کر آتی ہے۔ “سورج صرف ایک ستارہ ہی ہے!” تصور کریں کہ سولہویں صدی میں جیورڈانو برونو کے اس خیال کو سننے پر کیسا ردِعمل آیا ہو گا۔ شاید کسی نے کہا ہو کہ “اس سے احمقانہ خیال بھلا اور کیا ہو سکتا ہے؟”۔ اس وقت کی کاسمولوجی کے مطابق، “سورج تو آگ کا گولہ ہے جو زمین کو گرم کرتا ہے۔ ستارے آسمانی کرے پر سوراخ ہیں جن سے روشنی چھن کر آتی ہے”۔ یکجائی کا یہ تصور اس وقت کے مروجہ ورلڈ ویو میں فٹ نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر یہ ٹھیک تھا تو اس کا مطلب یہ کہ آپ کے سارے پچھلے خیال تہس نہس ہو گئے۔ “اگر ستارے سورج ہیں تو کائنات ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ آسمان صرف سر کے اوپر نہیں”۔ تصور کریں کہ اس سولہویں صدی کے ایک شخص کا، جس کو یہ نئی سوچ بتانے کی کوشش کی گئی ہو گی۔ صاف انکار کے سوا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ معاملہ صرف حیرت کا نہیں۔ اس سے زیادہ بڑا ہے۔ یہ معاملہ اس سے نکلنے والے نتیجے کا ہے۔ “اگر ستارے سورج ہی ہیں تو ان کے گرد سیارے بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ لازم نہیں کہ ہم کائنات میں اکیلے ہوں”۔ اور اس کا نتیجہ سائنس سے بڑھ کر نکلتا ہے، “کیا؟؟؟ ہم کائنات کا مرکز نہیں؟؟”
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ برونو کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکجائی کے بڑے خیالات پر پوری نئی سائنس کھڑی ہو سکتی ہے۔ کئی بار یکجائی ہمارا دنیا کو دیکھنے کا طریقہ ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ ڈارون سے پہلے عام طور پر جانداروں کی ہر نوع اپنی ابدی کیٹگری تصور کی جاتی تھی۔ “کیا؟؟ مشترک جد؟؟ سب کچھ ایک ہی ہے؟ ایک ہی بڑا خاندان؟؟”۔ لیکن حیرت اور انکار کی کچھ مدت سے نکل کر بائیولوجی کبھی واپس پہلے جیسی نہ رہی۔
یکجائی کا طاقتور خیال طاقتور دریافتیں بھی لے کر آتا ہے۔ “اگر ہر جاندار زندگی کی ایک ہی لڑی میں ہے تو بنا بھی ایک ہی طرح ہو گا!!” ہاں، ایسا ہی ہے۔ جانور، پودے، فنگس، بیکٹیریا ۔۔ سب بہت مختلف ہیں لیکن اپنی اصل میں خلیوں کے گروپ کے الگ صورتیں ہی ہیں۔ ان کی تعمیر کے کیمیائی پراسس، ان کے پاور کے نظام ۔۔۔ زندگی کے منظر میں کچھ بھی مختلف نہیں۔ چوہوں، مکھیوں اور مٹر کے پودوں پر تجربات بھی ہر قسم کے زندگی کے بڑے بھید کھولنے لگے۔
خوبصورت یکجائی سے اس خوبصورت دنیا کی خوبصورت تّک بننے لگی۔ ہمیں اس کی سمجھ آنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکجائی کے خیالات اس قدر طاقتور اس لئے ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب سے بنیادی خیال ہیں۔ جذباتی مباحث، نئے ورلڈویو ان بنیادوں پر بنتے ہیں۔ لیکن کیا ہر یکجائی کا خیال درست رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اور یہ سائنس کے کئی مباحث کا دل ہے۔
ایک وقت میں کیمیادانوں نے خیال دیا کہ حرارت بھی مادہ ہے۔ یہ فلوگسٹون کا خیال تھا۔ حرارت اور مادے کی یکجائی کا غلط خیال تھا۔ ٹھیک یکجائی یہ تھی کہ حرارت توانائی ہے جو مادے کے بنیادی بلاکس یعنی ایٹموں کی حرکت کا نتیجہ ہے۔ لیکن جس وقت فلوگسٹون کا خیال پیش کیا گیا، اس وقت تک مادے کی اپنی یکجائی (بذریعہ ایٹم) ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔ یہ مادے اور حرارت کو اکٹھا کرنے کا قبل از وقت خیال پیش کر دیا گیا تھا۔ اور غلط تھا۔
فزکس اس طرح کی کہانیوں سے بھرپور رہی ہے۔ یونیفائیڈ تھیوریاں، جو ٹھیک نہ نکلیں۔ مثلاً، “روشنی اور آواز ایک ہی ہیں”۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ دونوں مادے کا ارتعاش ہیں۔ چونکہ ہوا کا ارتعاش آواز ہے، اس لئے ان کو اکٹھا کرنے کیلئے نئی قسم کا مادہ “ایتھر” تجویز کیا گیا۔ اس خیال کا گلا آئن سٹائن نے اپنی تھیوری کے ذریعے گھونٹ دیا۔ اور اس کی جگہ پر نئی یکجائی دے دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلی نصف صدی میں تھیورسٹ اسی سمت میں کام کرتے رہے ہیں۔ سٹرنگ تھیوری، سپرسمٹری، ہائیر ڈائمنشن، لوپ وغیرہ یہی کچھ ہے۔ سوال صرف اتنا سا ہے کہ کیسے پتا لگے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا نہیں؟
کسی بھی یکجائی کے اہم فیچر میں سے ایک حیرت ہے۔ “کیا؟؟ یہ بھی ایک ہو سکتے ہیں؟؟” یہ حیرت اس لئے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمیں پہلے سے ہی پتا ہوتا۔ سائنس میں اس وقت موجود اسٹیبلشڈ ورلڈ ویو سے بڑی مزاحمت مل سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کے نتائج ڈرامائی ہو سکتے ہیں۔ نئی بصیرت، نئے خیالات کا سیلاب آ سکتا ہے۔ یہ ترقی اور سمجھ کا انجن بنتے ہیں۔
ان کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اچھی یونی فیکیشن سے ایسی پیشگوئیاں ممکن ہو جاتی ہیں جو اس سے پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں۔ نئے تجربات کے دروازے کھل سکتے ہیں جن کو صرف اس نئی تھیوری کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اور تصدیق کے لئے ہمیں بڑے شواہد کی ضرورت ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فزکس میں یکجائی کی گہری ضرورت ہے۔ ایسا کوئی بھی قدم ہمارے لئے بڑا فکری قدم ہو گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زندگی اتنی آسان نہیں۔ خیالات مختلف ہو سکتے ہیں اور مختلف خیال اپنے بالکل الگ راستے پر لے جا سکتے ہیں۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں