فقط موت مجھے بھاتی ہے۔۔عاصم کلیار

زندگی کے ختم ہو جانے سے پہلے
راز پا سکتا نہیں
اور جب مر جاؤں
راز کا اک جزو بن جاؤں گا میں
۔۔۔۔۔
کون ڈھونڈے گا مجھے؟
آہ یہ لاچارگی،یہ بے بسی
(زاہد ڈار)
ڈار صاحب آپ تو مرنے سے برسوں پہلے اُس روز ہی مر گۓ تھے جب آپ کی انا کی شاخ سرنگوں ہوئی تھی، آپ اندر سے ٹوٹ کر بکھرنے لگے تھے جب کہ سمیٹنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ مایوسی کے طویل عہد کو تو آپ نے تنہائی کے قلعے میں محصور ہو کر کسی طور جھیل ہی لیا تھا مگر زندگی کے چند آخری برسوں میں آپ اپنا دست سوال سب کے آگے بڑھا کرجینے کے منہ پر طمانچے مارتے رہے، سو سانس کی ڈور پہلے اُلجھی اور پھر آخر میں ٹوٹ ہی گئی۔
وہ دوست جن کے ساتھ مدتوں آپ کا رات دن کا ساتھ رہا آخری برسوں میں( بشمول میرے) اُن سب نے آپ سے گریز پائی کا رویہ اختیار کر لیا تھا خدا خوش رکھے عبداللٰہ کو جس نے بکھرتے ہوۓ”فالتو آدمی”کو آخری دم تک سکھ پہنچانے کی کوشش کی۔
ڈار صاحب!
آپ سے پہلی ملاقات کچھ سال اوپر دو دہائیاں قبل پاک ٹی ہاؤس کے ستون کے ساتھ دھری میز پر ادب کی دنیا کی ایک معروف خاتون کے توسط سے ہوئی تھی سفید براق کھلے بر کے پاجامے پر ہلکے نیلے رنگ کی قمیض آپ پر کیسی اچھی لگ رہی تھی چوڑے فریم کی عینک پر کالے سفید ملجگے بال ہاتھ میں کتاب تھامے آپ اس کی ورق گردانی کر رہے تھے سچ پوچھیں تو آپ ایک مجسم کیفیت کا نام تھے. ادب کے کمسن شوقین نوجوان پہلی ہی ملاقات میں بے دام ہی آپ کے اسیر ہو جاتے جب کہ جنسِ مخالف کے لۓ عمر کی کوئی قید نہ تھی ہر عمر کی عورت کو میں نے آپ کے ساتھ چہلیں کرتے دیکھا. سچ تو یہ ہے کہ اس پہلی ملاقات کے بعد آپ کی میز پر بیٹھنا میرے لۓ واجب ہو گیا تھا پاک و ہند کا جو بھی نامور ادیب لاہور آتا وہ آپ سے ملاقات کے لۓ پاک ٹی ہاؤس پہنچ ہی جاتا زندگی کی وحشتوں سے آپ نے شراب،عورت اور کتاب میں پناہ ڈھونڈی. بھٹو صاحب کے دور میں شراب مہنگی کیا ہوئی کہ آپ نے بادہ و ساغر کو ہمیشہ کے لۓ ہی توڑ دیا بعد میں یار لوگ گلاس پر گلاس خالی کرتے مگر آپ پانی اور ٹوموٹل سے حلق تر کرتے رہتے ،عورتیں خوش وقتی کے لۓ آپ کی مجلس سے لطف اندوز تو ضرور ہوتیں مگر اس معاشرے میں صرف اور بھی صرف ایک شاعر سے کوئی عورت بھلا شادی کیسے کرتی شاعری بھی تو برسوں سے ترک کر رکھی تھی کتاب بھی کب تک ساتھ نبھاتی سب کچھ تو آپ نے پڑھ لیا تھا سو آنکھوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا عینک تو آپ صرف گرد و غبار سے آنکھوں کو محفوظ رکھنے کے لۓ پہنتے تھے جب بینائی کمزور ہو گئی،تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجاۓ آپ نے وہ عینک بھی ہمیشہ کے لۓ اُتار کر رکھ دی تھی ۔
معصوم فطرت ڈار صاحب آپ کے روٹھنے کی تو کوئی حد ہی نہ تھی برسوں کے یارانے منٹوں میں توڑ دیتے انیس ناگی آپ کا ہم جماعت اور دوست بھی تھا وہ ٹیڑھا ہونے کے باوجود آپ کی موجودگی میں دبا دبا سا رہتا ،روایت ہے کہ مظفر علی سید کے ہارٹ اٹیک کا سبب بھی آپ ہی بنے تھے۔
کسی بھی وقت آپ اپنی میز سے بھری محفل میں کسی بھلے آدمی کو بے دخل کرنے کا فرمان جاری کر دیتے مجھ پر آپ کی جانب سے یہ عتاب کبھی بھی نازل نہ ہوا، اس زمانے میں میرا قیام گورنمنٹ کالج کے نیو ہاسٹل میں تھا آپ کرشن نگر سے کبھی کبھی میرے پاس ہاسٹل آ جاتے امرتا شیر گل اور رلکے کے بارے آپ نے مجھے انہی دنوں کچھ کتابیں دی تھیں ہم ہاسٹل سے نکل کر سنگ میل نیاز صاحب کے پاس پہنچ جاتے ،ہنس مکھ مرحوم اعجاز احمد سے آپ کی بہت دوستی تھی، نیاز صاحب اور اعجاز کے بعد سنگ میل کے کرتا دھرتا افضال صاحب کا شمار بھی آپ سے محبت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔
انتظار حسین،اکرام اللہ، مسعود اشعر اور حمید شاہد تو ٹی ہاؤس ہفتہ وار ہی آتے تھے لیکن سلیم شاہد کے مرنے کے بعد ٹی ہاؤس بند ہونے سے پہلے ہی آپ کے لۓ ویران ہو گیا تھا سلیم شاہد ہی کی کسی کتاب پر جلسہ تھا آپ نے برسوں بعد گل محمد کی طرح جنبش کی اور اپنی میز سے اٹھ کر ٹی ہاؤس کی دوسری منزل پر جلسے میں شرکت کے لۓ پہنچے میرے ساتھ عاصم کشور بھی تھا میں نے اس دن آپ کا مزاج دیکھتے ہوۓ تنہائی کا نسخہ دستخط کے لۓ سامنے رکھا پہلے تو آپ نے کچھ بھی لکھ کر دینے سے صاف انکار کر دیا پھر عہد ضیا میں “لفظوں کا سلسلہ” سے حذف ہونے والے مصرعے لکھ کر کتاب میرے حوالے کر دی، ایک بار میں میری نوٹ بک پر آپ نے قلم کی لکھائی کو جانچنے کے لۓ”مشکل ہے بہت مشکل” لکھا تو میں نے آپ کے لکھے ہوۓ یہ الفاظ بھی کاٹ کر تنہائی کے پہلے ورق پر چسپاں کر دیے تھے۔
ٹی ہاؤس کے بند ہونے سے ہم اہل مجلس بے گھر ہوۓ عمران خان کا والد باکسروں کے گروپ سمیت میکڈانلڈ بیٹھنے لگا میں نے ڈار صاحب کے ساتھ بپسی سدھوا کی آرٹ گیلری کے چھوٹے سے چاۓ خانے میں پناہ ڈھونڈی ،وہی ایک بار آپ کے طفیل معروف مصور تصدق سہیل سے بھی ملاقات ہوئی تھی، سیگرٹ نہ پینے کی پابندی بھلا آپ کیسے برداشت کرتے، سو وہاں سے اٹھ کر ہم ڈینٹل کالج کے ہاسٹل کی کنٹین میں بیٹھنے لگے ،ادھر ہی ایک بار بیٹھے ہوۓ آپ نے گورنمنٹ کالج کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا تھا کہ میں یہاں ایف۔اے کا طالبعلم تھا، اپریل میں گندم کے خوشے سبز سے سنہری ہو رہے تھے اور ہمارے سالانہ امتحان تھے میں نے امتحانات سے بچنے کے لۓ پیدل ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا ،بارڈر سکورٹی کو چکما دے کر لدھیانہ پہنچا ،بچپن کا دوست منموہن دوسرے شہر امتحان دینے گیا ہوا تھا ،کچھ دنوں بعد جب واپس پیدل بارڈر کراس کر کے پاکستان پہنچا تو مسلوں نے مجھے پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا، 1954 میں بڑے بھائی حامد ڈار نے دو ہزار رشوت دے کر کسی طور اس کیس سے میری جان چھڑائی منموہن بطور کلچرل سیکرٹری جب برسوں بعد پاکستان آیا تو وہ آپ کو ڈھونڈتے ہوۓ کسی طور ٹی ہاؤس پہنچ ہی گیا تھا۔
مظفر گڑھ اور کراچی میں کچھ عرصہ کے لۓ آپ نے معمولی نوعیت کی ملازمتیں بھی کیں،کراچی میں سارتر کی کتاب خریدنے کے لۓ صرف ایک وقت کا کھانا کھا کر پیسے جمع کر رہے تھے کہ نقاہت سے بے ہوش ہو گۓٔ، یوں نوکری سے تو ہمیشہ کے لۓ جان چھوٹی کتاب کے ساتھ ریل میں بیٹھ کر لاہور پہنچے ،پھر قصور کے پھیرے یا ایک بار ایبٹ آباد کا سفر اور باقی تمام عمر بے عملی کے فلسفے پر قائم رہے، مگر بے عملی کے طویل دورانیے  میں صرف مطالعہ ہی آپ کا ایک مشغلہ تھا، اس کے علاوہ بھلا آپ کر بھی کیا سکتے تھے ،ویسے افسوس تو اس بات کا ہے کہ آپ نے اپنے مطالعے سے کسی کو فیض یاب نہ کیا ،سو عمر بھر کی یہ ریاضت بھی غارت ہی گئی۔

انتظار حسین کی بیگم کے انتقال کے بعد ان کا گھر ہم دوستوں کی نئی آماجگاہ بنا برسوں یہ معمول رہا کہ روز شام ڈھلے ہم دو چار دوست وہاں پہنچ جاتے تھے آپ گھر سے بے دخل ہو کر ٹھکانے بدلتے رہے، پھر انتظار صاحب کے گھر کے پاس ایک پرائیويٹ ہوسٹل میں کمرہ لے کر رہنے لگے، انتظار حسین کے گھریلو ملازم ہارون کے تند و تیز جملوں کے باوجود آپ رات کا کھانا اور آخری پیشاب کرنے کے بعد وہاں سے اپنے کمرے کے لۓ رخصت ہوتے، اس محفل میں سے پہلے عقیل روبی نے ہمیشہ کے لۓ رختِ سفر باندھا پھر انتظار حسین ہی نہ رہے تو آپ نے لاہور میں کتابوں کی معروف دوکان ریڈنگز کے کیفے میں ڈیرے جما لۓ، صبح سے شام تک وہاں مظلومیت کی داستان بنے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی بے سود کوشش میں مگن رہتے ،آخری چند برس آپ نے جس سحر نامی خاتون کے گھر بسر کیے رات ہوتے ہی اُس کے گھر جانے کا خوف آپ پر سوار ہو جاتا ،اب اس کا نام لینے کی بجاۓ آپ اسے مریم کی والدہ کہہ کر پکارنے لگے تھے، ریڈینگز کے کیفے میں آپ کے ساتھ دو چار مہینے بیٹھنے والے عمیر غنی اور حسنین جمال نے آپ کے بارے شخصی و تاثراتی مضمون لکھ کر شہرت حاصل کرنے کی سستی کوشش کی کاش ان کو کوئی بتاتا کہ انتظار صاحب نے فالتو آدمی اور چراغوں کا دھواں میں آپ کا تذکرہ کر کے کچھ اور لکھنے کے لیے سب دروازے ہی بند کر دیے ہیں۔

آپ کئی  بار میرے گھر ٹھہرے اور سچ تو یہ ہے کہ آپ رہنے کے دوران اکثر مجھے زچ کرتے کبھی صبح چار بجے ہمارے بیڈ روم کا دروازہ پیٹنے لگتے اور کبھی رات دو بجے جانے کے لۓ ضد کرتے مگر لوگ پھر بھی آپ سے پیار کرتے تھے سرراہ چلتے ہوۓ ذہین آنکھوں والے رامیش نامی نوجوان نے ایک روز مجھے روکتے ہوۓ پوچھا آپ زاہد  ڈار کو جانتے ہیں مجھے ان کی کتاب فوٹو کاپی کے لۓ چاہیے، آپ کے مرنے پر اس نے کیسی شاندار نظم لکھی ہے۔
مایوس بھگوان (آقا زاہد ڈار کے لیے)

تنہا
خامشی کے پنجرے میں قید
وہ چیختا رہا

اس کی آنکھوں سے
آنسو نہیں
کتابوں کی روشنائی چھلکتی
اور بڑھادیتی
نم خوردہ رخساروں کی پیاس۔۔۔

پیاس !
جسے بجھا سکتی تھی
حقیقت
اپنے بدن کے چشموں سے

حقیقت کی تجسیم،
ایک عورت کے بدن میں،
بھوگ جاتی ہے منش کا کُل جیون
یا اس سے کچھ زیادہ۔۔۔

تنہائی  کی سیاہی سےبھرا
وزنی قلم
ہاتھ سے گرنے کے بعد
کانپتی انگلیوں سے
وہ لکھتا رہا
ہوا کے نادیدہ صفحوں پر
محبت اور مایوسی کی نظمیں
جن میں
سانس لیتی ہے
وہ عورت!

شہر کے پیڑ
سر پیٹتے،
اپنی جڑیں کھودتے ہیں۔۔۔۔
کیوں کسی شاخ نے
اس کی خاطر
عورت کی بانہوں  کا سوانگ نہیں رچایا؟

ایک خوبصورت ننگی لڑکی کو
منصب خداوندی پر بٹھانے کے بعد
فالتو دنیا کا
آخری لازم آدمی بھی
روپوش ہوگیا۔۔۔۔

میں نے گورنمنٹ کالج سے ڈگری کی تکمیل کے لۓ آپ کی شاعری پر ایم فل کا مقالہ لکھنے کا فیصلہ کیا ،سہیل احمد خان صدر شعبہ تھے اس زمانے میں وہ اپنی تمام ادبی بصیرت اور پائپ کے ساتھ ایک کمرے میں مقید فرد واحد پر توجہ مرکوز کیۓ ہوۓ تھے، سو آپ کی شاعری میں عورت اور درخت کے استعاروں کے بارے اشارہ کر کے مقالے کی تکمیل سے پہلے ہی وہ ملک راہی عدم ہوۓ اور آپ نے بھی تو مقالہ کے سلسلے میں میری مدد سے صاف انکار کر دیا تھا آپ کے بڑے بھائی حامد ڈار نے تھیسیس کے دوران میری راہنمائی کی ،انہوں نے ہی بتایا کہ ہمارے والد یامین ڈار آزادی کی خواہش لۓ جیل میں ہی مر گۓ مگر ہمارے چاچا غالبًا ابراہیم ڈار ہندوستان میں وزیر بنے ،ابراہیم ڈار کی دلیپ کمار سے بھی دوستی تھی آپ کی طرح حامد ڈار کو بھی مصوری اور عورتوں کی مجلس بھاتی، بیدی کو آپ منٹو سے بھی بڑا کہانی کار مانتے جبکہ عینی آپا کو اردو کی سب سے مہان ادیب تسلیم کرتے، عینی آپا جب اسّی کے عشرے میں ہندوستان سے پہلی بار پاکستان آئیں تو آپ لاہور سے فیصل آباد ان کے ساتھ جانے کے لیے بضد تھے، پہلے تو صاحب کار نے جگہ نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو ساتھ لے جانے سے انکار کیا پھر عینی بی نے تمام سفر خاموش رہنے کی شرط عائد کرتے ہوۓ آپ کو گاڑی میں بٹھا ہی لیا، آپ دوستوں کے فقروں کے لۓ خود کو تختہ مشق بنا کر کس قدر خوش ہوتے تھے۔

ایک بار انتظار حسین نے آپ کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ کہا کہ عسکری صاحب اور میں نے نظام اور سات رنگ میں مضمون لکھ کر اس کو بطور شاعر پرموٹ کرنے کی اپنی سی  کوشش کی مگر یہی ہی ٹھس ثابت ہوا تو ہم کیا کرتے، ایک دوست نے کہا کہ میرا جی کی تقلید میں آپ کو زیادہ سے زیادہ چالیس سال کی عمر میں مر جانا چاہیے تھا ایسی باتیں سن کر سب سے بلند قہقہ آپ کا ہی ہوتا ،یہ تذلیلِ ذات تھی یا ملامتی انداز ،خدا ہی جانے؟

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کے لۓ جینے کی سب راہیں معدوم ہونے لگیں۔
پہلے گھر سے بے گھر ہوۓ۔
پھر سب بہن بھائی ایک ایک کر کے رخصت ہوۓ۔
جو دوست پرانے تھے انہوں نے دور بستیاں آباد کر لیں۔
عمر بھر کی جمع کی ہوئی متاع یعنی کتابیں آپ کی زندگی میں فٹ ہاتھ پر پہنچ گئی  تھیں ،وہ شکر ہے کہ وہاں سے آپ کی ڈائریاں باقر شاہ سے ِسخن شناس کے ہاتھ لگیں، جو تدوین کے بعد ان کی اشاعت کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اب شہرت کا تاج تارڑ اور امجد کے سر ہے اور ناصر عباس جیسے کانفرنسی نقاد وزن میں شعر پڑھنے سے قاصر ہیں۔
ایسے میں آپ پڑھتے بھی تو کیا شایا  آنے والے برسوں میں زندگی آپ کے لۓ مزید سنگ دل ہو جاتی اچھا ہوا جو آپ مر گۓ ۔۔۔۔ مگر نہیں آپ تو ایک مجسم کیفیت کا نام تھے سو آپ کیسے مر سکتے ہیں ہم آپ کو دیکھ نہیں سکتے تو کیا ہوا محسوس تو کرتے رہیں گے۔

Facebook Comments