مشت زنی یا بچوں سے جنسی زیادتی۔۔قاری الطاف ادیزئی

آپ سکول مدرسہ کے استاد یا طالب علم ہیں، آپ مکینک یا دوکاندار ہیں، آپ ڈرائیور یا کنڈیکٹر ہیں، چوکیدار یا یونہی ویہلے بے روزگار ہیں، ساتھ میں بیوی نہیں یا بیوی ہے ،پر مریض ہے یا آپکے لئے کافی و شافی نہیں تو جانوروں کیساتھ انگڑائیاں لینے ،راستہ چلتے باپردہ عورتوں کی  ایڑیوں سے آنکھ کی طاقت سے پانی نکالنے، مسجد کے باتھ رومز یا پبلک ٹوائلٹس یا کسی ویران جھونپڑی میں چھوٹے بچوں کا ریپ کرنے، بچوں کو شفقت کے بہانے اپنی  گود میں بٹھاکر لذت لینے، اپنے ساتھ کام کرنے والے یا رہنے والے کم عمر لڑکوں، ماتحتوں، شاگردوں ر،وم میٹ  پر ہاتھ صاف کرنے ،انکا  مستقبل برباد کرنے سے اچھا ہے کہ  انسان استمناء کرے ،چند قطرے پانی بہا دے، یوں ہارمون کا پریشر بھی کم ہو جائے گا اور  آپ کی حیوانیت  بھی کم ہو جائے گی، جس آیت سے علما   کرام اسکی حرمت کی دلیل پکڑتے ہیں وہ یہ کہ مومنین کی  صفات میں ہے کہ

وَالَّـذِيْنَ هُـمْ لِفُرُوْجِهِـمْ حَافِظُوْنَ (29) ↖
اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

اِلَّا عَلٰٓى اَزْوَاجِهِـمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُـهُـمْ فَاِنَّـهُـمْ غَيْـرُ مَلُوْمِيْنَ (30) ↖
مگر اپنی بیویوں یا اپنی لونڈیوں سے، سو بے شک (اس میں) انہیں کوئی ملامت نہیں۔

اس آیت میں صراحتاً  ہاتھ سے پانی نکالنےکا تو ذکر نہیں، پر یہ کہ مومن اپنی بیوی اور لونڈی کے علاؤہ دوسری  چیزوں سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتے ہیں۔

واللہ  علم، مفہوم یہ کہ مومن کبھی زنا کے قریب نہیں جاتا ،اپنی بیوی اور لونڈی کے علاؤہ غیر محرم مرد عورت جانور وغیرہ سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔

استمناء میں نہ تو انسان غیر محرم کے پاس جاتا ہے ،نہ تو کسی بچے کا ریپ کرتا ہے اور نہ  ہی  کسی جانور سے فحش کرتا ہے۔

باقی کوئی بھی وہ عمل جو انسانی زندگی پر غلط اثر انداز ہوجائے اپنی  حد سے تجاوز کرے ،وہ ناپسندیدہ اور ناجائز ہے ،وہ دن رات تلاوت کیوں نہ ہو جو آپکو آپکے عائلی و سماجی زندگی کے فرائض سے غافل کردے ،وہ تلاوت بھی آپ کیلئے جائز نہیں، یہ تو پھر بھی ایک مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے۔

سئل ابن عباس رضی الله عنه عن رجل يبعث بذکره حتی ينزل فقال ابن عباس ان نکاح الامة خير من هذا و هذا خير من الزنا.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنے آلہ تناسل سے کھیلتا ہے، حتی کہ اس کو انزال ہو جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ باندی سے نکاح کرنا اس سے بہتر ہے اور یہ عمل یعنی ہاتھ سے پانی نکالنا زنا سے بہتر ہے۔

باقی قیامت کے دن ہاتھ حامل ہونے کی حدیث ضعیف ہے۔
أما عن الحديث الذي ذكره السائل، فقد أخرجه البيهقي في شعب الإيمان عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: “يجيء الناكح يده يوم القيامة ويده حبلى” ولكن الحديث قد ضعفه أهل العلم، وضعفوا كل ما في معناه
قیامت کے دن استمناء کرنے والے کا ہاتھ حمل سے ہوگا یعنی اس میں بچہ ہوگا یہ حدیث ضعیف ہے

دوسری حدیث ناکح الید ملعون اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا ملعون ہے یہ حدیث بھی ضعیف ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں یہ نہیں کہتا کہ یہ پسندیدہ عمل ہے، میں یہ کہتا ہوں کہ جب آپ کو پتہ ہو کہ میرے جسم میں پانی کے یہ چند قطرے حد سے تجاوز کر گئے اور آپ یہ سمجھتے ہو کہ مجھے ذی روح تو چھوڑو دیوار اور درخت میں بھی جنس دکھتی  ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ کل سکول کالج مسجد مدرسہ ورکشاپ بیٹھک چوراہا گلی ویران کھنڈر میں ذلیل ہونے اوپر کسی کونے میں لگے کیمرے میں ریکارڈ ہونے  ،پھر لوگوں کے ہاتھوں چھترول ہونے ،بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنانے، پھر اپنی حیوانیت  چھپانے کی خاطر ان معصوموں کی جان لینے ان کو کھیت میں پھینکنے جلانے سے اچھا ہے، اس متجاوزہ پانی کو ہی باہر نکالو تاکہ آپکے  شر سے  انسانیت محفوظ ہو جائے ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply