امین الامت اور حضرات شیخین(حصّہ اوّل)۔۔احمد خلیق

ان لکل امۃ امینا و ان امین ھذہ الامۃ ابوعبیدۃ بن الجراح ۔

ہر اُمت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس اُمت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔ (بخاری و مسلم)

جی ہاں!یہ تذکرہ ہے امت محمدیہ (علی صاحبہا والصلوۃ والسلام) کے ان جلیل القدر صحابی کا کہ جن کی امانت و دیانت کی گواہی خود صادق امین و سید المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان مبارک سے دے رہے ہیں، بایں ہمہ ان کی شخصیت و کردار میں زہد و تقویٰ ، سادگی، انصاف پروری، رحم دلی، اخلاقی بلندی، مساوات، عاجزی و انکساری و علی ہذا القیاس دوسرے اوصاف درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ بقول حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ۔۔

“خدا کی قسم!میں نے کوئی ایسا اللہ کا بندہ نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ کینے سے پاک ہو اور ان سے زیادہ نیک دل اور ان سے زیادہ شر و فساد سے دور رہنے والا، اور ان سے زیادہ آخرت سے محبت کرنے والا اور ان سے زیادہ تمام لوگوں کی بھلائی چاہنے والا ہو…‘‘

نیز فرمایا: ’’اے ابو عبیدہ! میں تمہاری ضرور تعریف کروں گا اور (اس تعریف کرنے میں)کوئی غلط بات نہیں کہوں گا۔اللہ کی قسم جہاں تک میں جانتا ہوں آپ ان لوگوں میں سے تھے جو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں اور جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جو جہالت کی بات کا ایسا جواب دیتے ہیں جس سے شر ختم ہو جائے اور جو مال خرچ کرنے کے موقع پر خرچ کرنے میں نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ضرورت سے کم خرچ کرتے ہیں بلکہ ان کا خرچ اعتدال پر ہوتا ہے۔ اللہ کی قسم!آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو دل سے اللہ کی طرف جھکنے والے اور تواضع کرنے والے ہیں، جو یتیم اور مسکین پر رحم کرتے ہیں اور خائن اور متکبر قسم کے لوگوں سے بغض رکھتے ہیں (حیاۃ الصحابہ۔ حصہ اوّل)۔

بلا شبہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے خراج تحسین میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے صحیفۂ سیرت و اخلاق کا جامع عکس پیش کر کے رکھ دیا ہے۔

چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی کا احاطہ کرنا ایک مختصر سے مضمون میں مشکل ہے، سو عنوان بالا کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ تاریخ اسلام کے ان تین بزرگ ترین صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کے واقعات پڑھ کے اندازہ ہو سکے کہ ان کے درمیان کیسے ( خالصتاً اللہ کے لیے)محبت، اخوت اور اخلاص کا اظہار ہوتا تھا، وہ ایک دوسرے کو کس قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اصل مدعا کی طرف آنے سے پہلے ہلکا سا تعارف ضروری محسوس ہوتا ہے۔

مختصر تعارف:

عامر نام، ابو عبیدہ کنیت، امین الامتہ لقب، گو والد کا نام عبداللہ تھا، لیکن دادا کی طرف منسوب ہو کر ابن الجراح کے نام سے مشہور ہوئے، سلسلہ نسب پانچوں پشت میں فہر پر جا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ حلیہ میں دراز قامت، دبلے پتلے، لمبوترے چہرے، ابھرے سینے اور چھدری داڑھی والے تھے جبکہ رخسار پچکے ہوئے گوشت سے خالی۔ آپ رضی اللہ عنہ سابقون الاولون میں سے تھے، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر ہی حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ عشرہ مبشرہ کے دس چنیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل اور دو دفعہ ہجرت (حبشہ اور مدینہ منورہ) کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔ غزوۂ بدر میں اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنے سگے باپ کو قتل کیا۔ اور عہد فاروقی میں رومیوں کے مقابلے کیلئے  بھیجی جانے والی افواج کے سپہ سالار اعظم بنائے گئے اور اسی مناسبت سے فاتح شام کہلائے، بعد ازاں فتح کے وہیں کے عامل(گورنر) بھی مقرر ہوئے ۔

غزوہ احد:

تاریخ اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل کتب کے مطالعہ سے ہمارے علم میں ہے کہ غزوۂ احد میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کفار مکہ کے ایک  ہلے کی زد میں آ کر زخمی ہو ئے۔ چہرہ مبارک خون آلود ہوا(جسے مالک بن سنان رضی اللہ عنہ نے چوس کے نگل لیاتھا) اور رخسار انور میں خود کی دو کڑیاں دھنس گئیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جو خیر کے ہر کام میں سب سے آگے ہوتے تھے نے انہیں نکالنے کے لیے  ہاتھ بڑھایا کہ اسی اثنا میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بھی آ حاضر ہوئے اور گویا ہوئے: ’’اے ابو بکر!اس سعادت کو میرے حصے میں آنے دیں  بعینہٰ کڑیاں مجھے نکالنے دیجیے”۔

ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کا یہ والہانہ پن دیکھ کر رک گئے اور پیچھے ہٹ آئے۔  ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور ہاتھ کی بجائے دانتوں سے پکڑ کے ان کڑیوں کو نکالا جس سے یکے بعد دیگرے دو دانت شہید ہو گئے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ قریش میں تین اشخاص اپنی ظاہری خوبصورتی مع اچھے اخلاق کے لیے مشہور تھے۔  صدیق اکبر، عثمان غنی اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہم۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا دانتوں کے گرنے سے حسن میں فرق آ جاتا لیکن کہنے والے کہتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے کہ جن کے سامنے کے دو دانت نہ ہونے کے  باوجود خوبصورتی گھٹنے کی بجائے اور بڑھ گئی، اور کیوں نہ بڑھتی جبکہ یہ خدمت اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم میں قربان اور نچھاور ہوئے تھے۔ اسی موقع پر اللہ کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت سے سرفراز فرمایا۔

سقیفہ بنی ساعدہ:

یہ اسلامی تاریخ کا اہم اور قابل ذکر واقعہ ہے کہ جس میں تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی فراست، دور اندیشی اور بروقت اقدام سے امت کو ایک بڑی آزمائش سے بچا لیا۔

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تجہیز و تکفین میں مشغول تھے کہ اسی اثنا میں عمر رضی اللہ عنہ کو سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت سے متعلق انصار کے اجتماع کی اطلاع ملی۔ آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو باہر بلا بھیجا، پہلے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے تامل کا اظہار کیا لیکن جب حالات کی سنگینی کا پتہ چلا تو معاملات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کر کے ساتھ چل دیے۔  راستے میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لیا اور یہ تینوں سقیفہ بنی ساعدہ کی جانب چل پڑے۔ انصار قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے حق خلافت میں پُرجوش  نظر آئے۔ وہاں  پہنچنے پر عمر رضی اللہ عنہ نے تقریر کی غرض سے کھڑا ہونا چاہا لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں بٹھا دیا، اور پھر ایسی جامع و مدبرانہ تقریر کی کہ فضا میں چھائی کشمکش کی کیفیت فرو ہو گئی۔ آخر میں فرمایا کہ’’دیکھویہ عمر بن الخطاب موجود ہیں، جن کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان کی ذات سے خدا نے دین کو معزز کیا ہے، یہ دیکھو ابو عبیدہ بن الجراح موجود ہیں جن کو امین الامت کا خطاب عطا کیا گیا ہے، ان دونوں میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو بیعت کر لو۔‘‘(سیر الصحابہ۔جلد دوم)

لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں یہ دونوں حضرات خلافت کے سزا وار ہوتے، سو دونوں نے بڑھ کے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی (بعض روایت کے مطابق بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ نے بیعت میں سبقت لی ، پھر عمر و ابو عبیدہ رضی اللہ عنہما نے پیروی کی)۔

بیعت سے ما قبل ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے ایک پُر اثر جملے  نے بھی انصار کو کسی غلطی میں پڑنے سے باز رکھنے میں مدد دی، فرمایا: یا معشر الانصار انکم کنتم اول من نصر فلا تکونوا اول من غیر…

یعنی: ’’اے گروہ انصار!تم نے سب سے پہلے (اسلام کے لیے) امداد و اعانت کا ہاتھ بڑھایا تھا، اس لیے تم ہی سب سے پہلے افتراق و اختلاف کے بانی نہ ہو جاؤ۔‘‘(سیر الصحابہ۔جلد دوم)

علاوہ ازیں خلافت کے معاملے پر حضرات شیخین کے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے الگ الگ مکالمے بھی ہوئے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ سے کہا ۔ ’’ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے تاکہ میں آپ سے بیعت ہو لوں،  کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور آپ اس امت کے امین ہیں۔‘‘

ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا کہ میں اس شخص سے کیسے آگے بڑھ سکتا ہوں کہ جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے ہمارا امام بنایا ہو (یعنی آپ رضی اللہ عنہ ہی ہمارے دینی و دنیاوی مقتدا اور امام ہیں)۔ لگ بھگ دوسرا مکالمہ بھی انہی الفاظ کے ساتھ ہوا جس میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ پہ واضح کر دیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نا ممکن ہے کہ ان کے علاوہ کوئی اور خلافت کا حقدار سمجھا جائے۔

سپہ سالار:

13ھ میں خلیفہ اول نے شام کے محاذ پر جہاد کی غرض سے مختلف لشکر ترتیب دیے، اور چند جید صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو ان کا امیر مقرر کیا۔ حمص کی جانب جانے والے لشکر کا امیر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو بنایا گیا۔ روانگی سے قبل ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو بعض مفید ہدایات دیں اور اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی، پھر فرمایا: ’’ابو عبیدہ میں نے خوب اچھی طرح دیکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں کس عزت اور محبت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اور ان کے حضور میں تمہاری کتنی قدر و منزلت تھی۔ اس وجہ سے میری نگاہ میں تمہاری بڑی وقعت ہے۔ میں خدائے عزو جل کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آج تمام روئے زمین پر میں کسی شخص کو بھی تمہارے اور عمر بن خطاب کے برابر نہیں سمجھتا۔ ہر اس انسان کی عزت جو مجھ سے ملتا ہے میری نظر میں تمہاری وقعت سے کم ہے۔ جاؤ اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہو…‘‘

نیز لشکر کی روانگی کے وقت ایک دفعہ پھر وعظ و نصیحت کی، اور ان الفاظ میں مدح فرمائی’’ــ…  مجھے یقین ہے کہ تم ان نیک اور پاک نفس لوگوں میں سے ہو جو ہر وقت اپنے خدا سے ڈرتے رہتے ہیں جو دنیا کی آلائشوں میں نہیں پھنستے اور جنہوں نے آخرت کو ہی اپنا توشہ بنایا…‘‘(عشرۂ مبشرہ از بشیر ساجد)

اسی طرح جب خلیفۃ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیس بن مکشوح کی سرکردگی میں ایک دستہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی جانب بطور کمک بھیجنے لگے تو ان سے یوں گویا ہوئے:

’’میں تم کو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی ما تحتی میں بھیج رہا ہوں۔ وہ اس خوبی کے انسان ہیں کہ جب ان کے ساتھ کوئی زیادتی کرتا ہے تو وہ اس سے نرمی اور محبت سے پیش آتے ہیں،جو ان سے بد سلوکی کرتا ہے وہ اس سے نیک برتاؤ کرتے ہیں، جو ان کے ساتھ دشمنی کرتا ہے وہ اس کے ساتھ دوستی کرتے ہیں۔ وہ اپنے ما تحتوں پر نہایت مہربان ہیں اور ان کے ساتھ رفق و مدارات سے پیش آتے ہیں اور انہیں کوئی حکم ایسا نہیں دیتے جس میں ان کا فائدہ نہ ہو۔ (ایضاً)

اللہ اللہ!افضل البشر بعد الانبیاء کی زبان سے امین الامت کے مقام و مرتبہ کا ایک سے زائد موقع پر بیان ان کے شرف و مجد کیلئے کافی ہے، کیونکہ یہ نا ممکن ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جو صدق و صفا کے مجسم پیکر تھے، کسی کی بے جا تعریف کرتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments