لوگ دوسروں کو پھولوں کی طرح جینے کا مشورہ دیتے ہیں ۔۔۔لیکن میرے خیال میں دو دن کی زندگی ہے دو ہی اصولوں پر جیو
رہو تو پھول کی طرح، بکھرو تو خوشبو کی طرح۔۔
پھول کتنا خوبصورت ہوتا ہے، لطیف، رنگین، خوشبودار۔ پھول کے حسن اور خوشبو سے انسان کتنا متاثر ہوتا ہے۔ اسے گھر میں اُگاتا ہے اور اس سے محظوظ ہونے کے لئے باغ کا رخ کرتا ہے۔ لیکن کبھی انسان نے یہ سوچا کہ پھول اور انسانی وجود میں ایک گہری مماثلث ہے۔
پھول کی طرح جینے سے مرا د ہے کہ اپنی زندگی کی مہک سے دوسروں کی زندگی میں خوشبو، رنگ اور خوشیاں لائی جائیں تاکہ تمام انسان پھولوں کی طرح مہکتی زندگی گزار سکیں۔
پھول کانٹوں میں رہ کر بھی اپنی خوبصورتی، اپنا رنگ، اپنی فطرت میں کمی نہیں آنے دیتے۔ اسی طرح انسان کو مصیبتوں اور مسائل میں گِھر کر اپنے حسنِ اخلاق اور لطافت میں کمی نہیں لانی چاہیے۔ کنول کا پھول تو گندگی میں سے نکل کر پانی سے اوپر آجاتا ہے۔ ایک پُرعظم اور محنتی انسان بھی خراب حالات کے باوجود خود کو صحیح راہ پر گامزن کر کے نہ صرف ان حالات کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے بلکہ اس کی سیرت اوروں کے لئے مثال بن جاتی ہے۔
جس طرح پھول کو اپنے مفاد کے لیے توڑ دیا جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ مسل دیا جاتا ہے اسی طرح دلی،تمناؤں ،امیدوں ،محبتوں اور جذبوں کا گلا دبوچ دیا جاتا ہے۔ یہ ظلم ایک انسان ہی دوسرے انسان پر ڈھاتا ہے لیکن پھول تو کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
ایسے انسان بھی ملتے ہیں جو برائی کے بدلے بھلائی، دوسروں کے مال و جان عزت و آبرو کی حفاظت، حسد نفرت عداوت دشمنی نفع اور نقصان سے پاک ہو کر پھول کی طرح جیتے ہیں اور اپنے کردار کی خوشبو پھیلا کر اداس چہروں پر خوشیاں بکھیرتے ہیں۔ یہ انسان فانی ہونے کے بعد بھی اپنے کردار اور اعمال سے آنےوالی نسلوں کو اپنی مہک مہیا کرتے رہتے ہیں۔
ہر منزل اور منظر پر ہمیں ایسے بہت سے پھول نما انسان نظر آتے ہیں جو لوگوں کی دکھ بھری زندگی میں خوشی کے رنگ بھر دیتے ہیں۔ ان لوگوں کے حصے میں صرف چاہتیں بانٹنے کا ہی کام آتا ہے وصول کرنے کا نہیں۔ یہ لوگ پھولوں کی طرح خوبصورت اور سچے ہوتے ہیں ۔دکھوں کا مداوا کرنے کا نام عبادت ہے۔ رب کو جانے والے تمام راستے مخلوق کے دل میں سے گزرتے ہیں۔ دلوں کو جیتنا مقصد بنائیں ورنہ دنیا جیت کر سکندر بھی خالی ہاتھ ہی گیا تھا۔
مولانا جلال الدین رومی کہتے ہیں کہ
“اگر میرا علم مجھے انسان سے محبت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجے بہتر ہے ”
لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ایسے زمانے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں صرف معاشی کامیابی ہمیں قابل عزت اور قابل رشک بنا رہی ہے ہماری انسانی خصوصیات اور خوبیاں نہیں۔ ہم اس دنیا میں یوں رہتے ہیں جیسے کبھی جائیں گے ہی نہیں اور پھر خموشی سے یوں چلے جاتے ہیں جیسے کبھی یہاں تھے ہی نہیں۔
پھول کی زندگی مختصر مگر خوبصورت ہوتی ہے۔ یہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ خوبصورت طرز سے جیو چاہے مختصر جیو۔
Facebook Comments
بہت ہی عمدہ مضمون ہے ہمارے لئے دعاء کریں ہمارا ابھی ابتدائی دور ہے اور ابھی ہم سیکھنے کی ڈگر پہ ہیں۔