اکّڑ بکّڑ بمبے بو(حصّہ اوّل) ۔۔رفعت علی خان

جانے کہاں یہ جملہ پڑھا تھا کہ اپنے یہاں بچے ، بچپن سے سیدھے بڑھاپے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جوانی  انہیں چھو کربھی نہیں گزرتی ۔ اس کا مطلب شاید یہ تھاکہ ہمارے ہاں زندگی اس قدر مشقت آزما  ہے  کہ ہوش سنبھالتے ہی ہم روزگار کےچنگل میں جکڑے جاتے ہیں۔ بات شاید یہی سچ ہے۔ ۔لیکن میرا  دل کہتا ہے کہ وہ بچے پھر بھی اچھے رہے۔
آپ ان بچوں کو کیا کہیں گے جو پیدا ہوتے ہی بڑے ہوگئے اور بچپن کا منہ بھی نہ دیکھا۔۔
جی ہاں ، میں آج کے ، اس دور کے  بچوں کی بات کررہا ہوں،جن کے بارے میں ہم یہ کہتے پھولے نہیں سماتے کہ”بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے “۔

اور سچ تو یہ ہے کہ جس اسمارٹ فون یا آئی پیڈ کے سر پیر کا میں سمجھ نہیں پاتا، میرا اڑھائی  سالہ نواسہ جانتا ہے کہ اس میں اسکے پسندیدہ کارٹون، نرسری رہائمز اور اینگری برڈ اور ٹیمپل رن جیسے بے شمار کھیل کیسے تلاش کیے جاتے ہیں اور انہیں کیسے کھیلا  جاتا ہے۔ مجھے اپنے موبائل فون  یا کمپیوٹر یا ٹیلیویژن میں کوئی بات سمجھ نہیں آتی تو پاس کھڑے کسی بچے سے پوچھ لیتا ہوں کہ میرا تعلق اس نسل سے ہو، جو اتنی ، سادہ، بے خبر بلکہ بے وقوف ہوا کرتی تھی، جب گھروں میں کسی اونچی جگہ رکھے ریڈیو کو بھی ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی اور صرف ایک دو لوگ جنہیں ریڈیو   چلاناآتا تھا وہی اسٹیشن بدل سکتے تھے یا آواز اونچی کرسکتے تھے۔

آج کا بچہ ذہانت، فطانت، عقل ، سمجھ بوجھ ہر چیز  اتنی  رکھتا ہے جو ہمیں کہیں نوجوانی میں جاکر ملی تھی۔ یہ بچے اپنے تئیں خوش نصیب ہیں کہ انہیں جدید ٹیکنالوجی میسر ہے۔ جس گھر میں ذرا سی بھی معاشی فراغت میسر  ہو وہاں کے بچے ہاتھوں میں آئی پیڈ، اینڈرائیڈ فون اور نجانے کیا کیا لئے گھومتے رہتے ہیں۔ دیاروں پر ٹنگے ایل سی ڈی یا پلازمہ ٹی وی سے دنیا جہاں سے اپنے مطلب کے پروگرام ڈھونڈ لیتے ہیں۔ پلے اسٹیشن کے ذریعے دنیا کا ہر کھیل کھیل سکتے ہیں۔
اور کیا کچھ نہیں ہے جو انہیں میسر نہیں ہے، سوائے اس کے، جسے بچپن کہتے ہیں۔

آج کا باپ اپنے بچے کو یہ سب کچھ اس لئے لے کر دیتا ہے کہ اسے گھر سے باہر سڑکوں اور گلیوں پر چنگھاڑتے، دھاڑتے بے ہنگم ٹریفک سے ڈر لگتا ہے۔ اسے ڈر لگتا ہے کہ اس کا لعل باہر کسی انجانی گولی کا نشانہ نہ بن جائے۔ اور وہ چاہے بھی تو بچے کو کہاں کھیلنے بھیجے کہ جہاں کبھی کھلے میدان ہوتے تھے وہاں اب مکان، بازار اور دوکانیں بن گئی ہیں۔ وہ گھر جن کے صحن اور مکینوں کے ذہن کھلے ہوتے تھے اب مرغی ، کبوتروں کے ڈربوں اور کابک جیسے فلیٹوں میں بدل گئے ہیں۔

آج کا بچہ برگر، فرنچ فرائز اور آئسکریم کھاکر بھی شاکی رہتا ہے اور ہم وہ بے وقوف تھے ، کسی دن ماں جنہیں بچی ہوئی روٹی (اگر ہم ان خوش نصیب گھروں میں سے ہیں جہاں روٹی بچ جاتی تھی) کو نچوڑ کر ، اس پر چینی چھڑک کر اور ذرا سا دودھ ڈال کر ہمیں دیتی تو یہ “ملیدہ”ہمارے لئے دنیا جہاں کی نعمتوں سے بڑھ کر ہوتا ، یا پھر کبھی روٹی پر ہلکا سا گھی  لگا  کر اور اس پر چینی یا کھرچا ہوا گڑ ڈال کر ایک رول سا بنادیتی جس کے سامنے آج کے سوئس رول بھی ہیچ ہیں۔

ماں گھر کے کاموں میں جتی ہوتی اور ابا دفتر میں سر کھپا رہے ہوتے اور ہم  سکول سے گھر آتے ہی بستہ ایک طرف پھینک یونیفارم اتار، جوتے یا چپل ایک طرف ڈال، گلی میں نکل جاتے۔ پھر سارا دن نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھان رہے ہوتے۔ گلیوں میں ننگے پیر گھوم رہے ہیں، کہیں کوئی کانٹا چبھ گیا انگلیوں سے پکڑ کر خود ہی کھینچ نکالا، کسی کانچ کے ٹکڑے سے پیر کٹ گیا، کمیٹی کے نلکے سے پیر دھو لیا، ایسی  ہلکی باتوں کی کبھی رپورٹ گھر پر نہیں کی۔

مٹی کے سنے پیر اور کالے ہاتھوں کے ساتھ گھر آتے ہی پہلا حکم ہوتا پہلے ہاتھ پاؤں دھو کر آؤ،  سکول کا کام  یعنی تختی دھوکر، اس پر نئی چکنی، ملتانی مٹی پوت کر دھوپ میں سکھانے رکھنے کے بعد اور حساب کے ماسٹر کے دیے ہوئے سوال ، سلیٹ پر نکال کراب ہم فارغ ہیں۔

لڑکیاں بالیاں تو گھر کے کسی کونے کھدرے میں یا کہیں دو متوازی کھڑی چارپائیوں پر چادر ڈال کر ، آپا آپا، یا ، گھر گھر کھیل رہی ہیں۔ مٹی کے بنے کھلونا چولہے پر دیگچی چڑھائے، ہنڈکلیا پک رہی ہے۔ ایک طرف اماں کے ہاتھ کی بنی گڑیا بٹھائی ہوئی ہے۔ کبھی جی میں آئی اور روز کے جیب خرچ (جو دو یا ایک پیسہ ہوتا) سے پیسے بچا کر گڑیا کی شادی رچارہی ہیں۔ پاس پڑوس کی سکھیوں کو دعوت دے دی گئی ہے اور انتہائی سنجیدگی سے تیاریاں ہورہی ہیں۔ دلہن اور دولہا کے جوڑے بن رہے ہیں ، شادی بیاہ کے گیت گائے جارہے ہیں۔ شادی کے دن کچھ کھانے پینے کا انتظام بھی ہے اور ویسی ہی سادگی ہے جیسے ان دنوں کی سچ مچ کی شادیوں میں ہوتی تھی۔ دلہن کو رخصت کرتے ہوئے ویسے ہی رونادھونا ہورہا ہے جیسا ان کی اپنی بدائی پر ہوگا۔

شام ہوئی ، کھانے سے فارغ ہو کر پاس پڑوس کے بچے بچیاں کسی ایک بڑے گھر کے صحن یا گلی میں اکٹھے ہو کر ، کوڑا جمال شاہی، پہل دوج، یا ، کھو کھو، کھیل رہے ہیں۔
اور یہ دیکھیں ذرا کہ ساتھیوں کا انتخاب کیسے ہورہا ہے یا ٹیم کیسے بن رہی ہے۔ سب دائرہ بنائے اور ہاتھوں کی پشت جوڑے کھڑے ہیں ، ہاتھ اوپر اٹھائے جارہے ہیں، کسی کا ہاتھ ہتھیلی کی طرف سے تو کسی کا پشت کی طرف سے اٹھا ہوا ہے۔ جی ہاں   “پگّم پگائی” ہورہی ہے۔

یہ تو ایک طریقہ ہوا۔ یہ دیکھیں کیا ہو رہا ہے دو ہم عمر، گلے میں ہاتھ ڈالے ، دوسروں سے کچھ ہٹ کر ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیوں میں کچھ طے کر رہے ہیں پھر ویسے ہی پلٹ کر گلے میں ہاتھ ڈالے دونوں ٹیموں کے کپتان (جو عام طور پر سب سے بڑے بچے ہوتے تھے) کے پاس آکر ایک خاص سر میں آواز لگاتے” ڈاک ڈاک کس کی ڈاک” کپتانوں میں سے ایک کہتا یا کہتی، میری ڈاک !۔ جواب میں کہا جاتا” کوئی لے راجہ کوئی لے رانی” کپتان جسے لیتا وہ اس کی طرف ہوجاتا۔ ایسے ہی دوسری جوڑی آتی، کوئی  لے سپاہی کوئی چور۔۔
اور یہ ذرا یہ بھی دیکھیں۔ کتنے سریلے انداز میں کہا جارہا ہے” ہم پھول چمن سے آتے ہیں ، آتے ہیں، دوسری جانب سے پوچھا جاتا ہے ، تم کس کو لینے آتے ہوآتے ہو؟ ہم نیلو کو لینے آتے ہیں آتے ہیں۔ اب نیلو الگ ہو کر دوسری طرف چلی گئی۔

یہ فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے کہ کیا کھیل کھیلا جائے گا۔ آنکھ مچولی کھیلیں۔ لاؤتم چور بنے ہو ، تمھارے آنکھوں پر دوپٹہ باندھ دیں۔ یہ بہت ہوگیا، آؤ  چھپن چھپائی یا ایمپریس کھیلیں (یہ نام کہاں سے آیا، آج تک سمجھ نہیں آئی)۔ اب طے ہورہا ہے کہاں چھپ سکتے ہیں اور کہا ں کی  نہیں ہورہی ہے ۔

آج لنگڑی ٹانگ کھیلیں یا اونچ نیچ ، گھر کے آنگن یا گلی کے بیچ ایک بڑا سا دائرہ بنا کر کھیل کے میدان کا تعین ہوگیا۔ اس سے باہر گئے تو آؤٹ، جی نہیں ، مر گئے، یعنی کھیل سے باہر ہوگئے۔
اوریہ لڑکیاں جو دائرے میں ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے گھوم رہی ہیں اور درمیان میں ایک یا دو تین لڑکیاں ہیں۔ اور ایک  آواز ہو کر گا رہی ہیں۔
“ہرا سمندر، گوبھی چندر، بول میری مچھلی کتنا پانی ؟”
جواب ملتا ، اتنا پانی، اس سے آگے بھی کچھ ہوتا تھا جو اب یاد نہیں رہا۔
اور دروازے کی منڈیر پر بیٹھی یہ دوبچیاں بائیں یاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے محراب سی بنائے داہنے ہاتھ سے ایک گِٹّا چھال کے اس محراب سے چھوٹے چھوٹے چکنے پتھر گزار ہی ہیں۔۔یہ گُٹّے کھیلے جارہےہیں۔
اور گلی کے بیچوں بیچ دو لڑکیاں ایک دوسرے سے چار چھ گز دور کھڑی یہ رسی گھمارہی ہیں. اور یہ دیکھیں تیسری نے دوپٹہ گلے سے گھماکر کمر میں لپیٹا، شلوار کو ذرا اونچا کھونس لیا، چپل ایک طرف پھینک اور رسی کے بیچ  آکر کودنا شروع کردیا۔ یہ لو یہ دوسری بھی اس کے ساتھ شامل ہوگئی۔

رسی سر ےسے  اوپر اور پاؤں کےنیچے سے گزر رہی ہےاور ان بچیوں کے پیروں کی دھمک اور ایک مستی کے سے عالم میں سر کی جنبش، لگتا ہے
رقص میں ہے سارا جہاں.

اور یہ کیا کہ لڑکے لڑکیاں ساتھ کھیل رہے ہیں، توبہ، یوں تو آج کے روشن خیال اور ماڈرن زمانے میں بھی نہیں ہوتا۔ جی ہاں یہ بچے بالے جی میں کوئی کھوٹ نہیں رکھتے، انہیں ان بھید بھاؤ کی کوئی خبر نہیں جن سے آج کا بچہ بچہ واقف ہے۔ اور پھر یہ کہ جو کچھ ہورہا ہے گھر والوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ یوں نہیں کہ بچہ فیس بک یا ای میل پر کس سے “چیٹنگ”کر رہا ہے ، گھر والوں کو کوئی خبر نہیں۔

کھیل کے تھک گئے یا رات زیادہ ہوگئی، اماں کی پکار آئی اور گھر چلے آئے۔ سب چیزوں سے فارغ ہو کر، پھر کسی دری ، چوکی یا پلنگ پر جمع ہوکر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہیں اور اب ہم بہن بھائی ہی رہ گئے ہیں یا پھر کوئی عم زاد، خالہ یا ماموں زاد جو ہمارے ہاں رہنے آئے ہیں یا جن کے یہاں ہم گئے ہوئے ہیں، وہی رہ گئے ہیں۔ اپنے اپنے دونوں ہاتھ سامنے رکھے بیٹھے ہیں اور سب سے بڑی باجی ہر ایک کے سینے یا ہاتھ پر اشارہ کر کے کہہ رہی ہیں۔
اکّڑ بکّڑ بمبے بو
اسی نوے پورے سو
سو میں لگا تاکا
چور نکل کے بھاگا
اب جس کے سامنے یہ ،مصرعہ، ختم ہوتا وہ چور بن جاتا یعنی کھیل سے خارج
یہ اکڑ بکڑ اپنے اپنے محلوں اور گھروں میں مختلف شکلوں میں ہوتا۔ چور نکل کے بھاگا کے بعد بھی بہت کچھ کہا جاتا۔

، سپاہی بن کر آؤں گا ۔ اچھے کھانے کھاؤں گا ، ریل بولی چھکا چھک، ڈبل روٹی بسکٹ۔
جی نہیں یہ کوئی بے معنی بول نہیں ہیں۔ ہم بچے ان کا مطلب اچھی طرح جانتے تھے، اب بڑے ہو کر بھول گئے۔

اب بستروں پر بیٹھے ہیں ، سب نے شہادت کی انگلی اپنے اپنے سامنے چادر پر رکھی ہے ، بڑی آپا کہ رہی ہیں۔ چیل اڑی، سب کی انگلیا اٹھ گئیں۔ کوا اُڑا، انگلیاں پھر اٹھیں، بلی اڑی، کچھ انگلیاں رک گئیں۔ ایک انگلی اٹھ گئی، سب نے ٹھٹھے لگائے اوہو بلی بھی اڑی، چلو ہاتھ آگے کرو۔ مجرم نے معافی مانگنے کے اندازمیں ہاتھ آگے بڑھائے اور سامنے والے نے اسکے ہاتھ پر زور دار چپت لگائی۔۔ اور کھیل یونہی چلتا رہا۔ نئے نئے کھیل تجویز ہورہے ہیں، کبھی ایک دوسرے کا کان پکڑ کر آگے پیچھے ہورہے ہیں۔ کبھی سب سے کہا جا رہا ہے لکڑی لاؤ، سب نے پیر آگے کردئیے، اب کہا، تیل دو، کسی نے ہاتھ بڑھا کر خیالی تیل دے دیا جو لکڑیوں پر چھڑک دیا گیا اب ماچس مانگی گئی اور ، شوں، کی آواز کے ساتھ آگ لگائی گئی سب نے زور زور سے پیر ہلائے اور ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے۔
ایسے ہی کھیلتے کھیلتے نیند کا غلبہ شروع ہوگیا۔ بستر میں گھس کر بھی ، آسہیلی بوجھ پہیلی، کھیلا جارہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہری تھی من بھری تھی۔۔۔ نو لاکھ موتی جڑی تھی۔۔۔ راجہ جی کے باغ میں دوشالہ اوڑے کھڑی تھی۔۔
سوبار کی سنی ہوئی پہیلی لیکن کسی نے کوئی غلط بوجھنا بھی ضرور تھا۔ جواب آتا جی نہیں۔۔۔بھٹا،
اس سے جی بھر گیا تو بیت بازی شروع ہوگئی۔۔ لائیے میم کا شعر
اور کچھ نہیں تو امی یا دادی سے مطالبہ ہورہا ہے کہ کہانی سنائیں اور مزیدار بات یہ کہ کئی بار کی سنی ہوئی کہانی کی ہی فرمائش ہوتی
اور واقعی ہم بے وقوف ہی تھےکہ ہمیں یقین تھا کہ چاند میں بڑھیا بیٹھی روئی کات رہی ہے۔
ہائے ۔ کہاں سے لائیں۔۔۔۔۔ وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی۔
جاری ہے

Facebook Comments